• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • خواتین کے خلاف ذہنی ہراسمنٹ ،آخر کب تک؟-تحریر/ملیحہ سیّد

خواتین کے خلاف ذہنی ہراسمنٹ ،آخر کب تک؟-تحریر/ملیحہ سیّد

ہائے بڑے دنوں بعد کنوارے ہاتھوں کا کھانا کھایا ہے سواد ہی آ گیا۔

اس ایک جملے کے خلاف احتجاج نے مجھے ہر طرح کی ہتک برداشت کرنے پر مجبور کیا اور جب میری ہمت جواب دے گئی، میں نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ یہ سارا واقعہ مجھے ایک بار  پھر سے لکھنا پڑا، جب ماہ رمضان میں ایک بڑے میڈیا ہاؤس میں ایچ آر کے ساتھ ایک زوم انٹرویو کے دوران میرا ڈوپٹہ ایک سائیڈ پر ہوا اور میرے سینے کا ابھار انہیں نظر آیا ، جس کو بنیاد بنا کر مجھے ریجیکٹ کر دیا گیا ، حتیٰ کہ میرے ریفرنس کو میری تصاویر شیئر کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہم ایسے کلچر کو پروموٹ نہیں کر سکتے ۔ جبکہ میرا موقف ہے کہ زوم انٹرویو کے دوران ہمارا Eye Contact ہوتا ہے ، آپ گردن سے نیچے اور پھر اس سے بھی نیچے پہنچ گئے ۔ یہ ایک ایسی ہراسمنٹ تھی جو میں نے  بُھگتی۔ انکار کے لیے جب کوئی اور جواز نہیں بنا تو لباس اور جسم کو جواز بنا کر انکار کر دیا گیا ۔ میرے لیے اہم ایشو میری تصاویر کی شیئرنگ تھی جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا مگر ریفرنس نے گارنٹی لی تو کچھ سکون ہُوا مگر میرے لیے بہت سارے در کھل گئے ۔

۔۔۔۔۔

2017  میں ، مَیں حسین چوک گلبرگ لاہور میں ایک تعمیراتی فرم کے میڈیا سیل کو دیکھ رہی تھی ۔میری ٹیم نے میرے ہاتھوں کا کھانا کھانے کی فرمائش کی، اس دن میں نے چکن قورمہ، پودینے، ہری مرچوں اور دہی کا رائتہ بنایا تھا، نان راستے سے لیے ۔ ہم سب کھانا کھا رہے تھے کہ دوسرے ڈیپارٹمنٹ سے بھی کچھ لڑکے آ گئے، میں چودہ پندرہ افراد کا کھانا لیکر گئی تھی کہ میری ٹیم میں پانچ لڑکے تھے اور مجھے خوب اندازہ تھا کہ لڑکوں کی خوراک زیادہ ہوتی ہے، کیونکہ گھر میں بھی یہی صورتحال تھی ۔ اسی دوران باس کا چہیتا آیا اس نے کھانا کھایا اور یہ جملہ کہا، کہ بڑے دنوں کے بعد کنوارے ہاتھوں کا کھانا کھایا ہے۔

میں نے اس پر بھرپور احتجاج کیا ، میری صلاحیتیں اور کارکردگی کو میری Virginity سے وابستہ کرنے کا حق کسی کو حاصل نہیں اور نہ میں دے سکتی تھی۔ میں نے تو اس مرد کے    ساتھ شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا جس نے میری جانب سے ہاں ہونے کے بعد یہ پوچھا تھا کہ

R you Virgin ??

مالکان کا لاڈلا اس وقت میرا احتجاج برداشت کر گیا اور اسے مجھے سوری بولنا پڑا، مگر چھوٹی سوچ کے اس مرد نے اسے اپنی توہین سمجھا اور کچے کانوں کے حامل فرم کے مالک جو کہ (ر)کرنل تھے کو میرے خلاف کرنے میں کامیاب ہو گیا اور اس کا ساتھ ایک عورت نے دیا، جو بعد میں کئی بار نکالی بھی گئی اور ہر بار دوبارہ جاب پر رکھی بھی گئی، کیونکہ یہاں جیسی روح ویسے فرشتوں والا معاملہ تھا۔ مسلسل تین ماہ تک ذہنی دباؤ اور ٹارچر سہنے کے بعد اپنے وکیل کی مشاورت سے میں نے جاب کو خیر باد کہہ دیا۔

بات صرف پاکستان کی خواتین کی نہیں ہے، دنیا کے ہر سماج اور تہذیب میں خواتین خاص طور پر اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھنے والی خواتین کو ناپسندیدہ حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فرق صرف ردِعمل اور قانون کی عمل داری کا ہے ۔ میں اس صورتحال کی ایک متاثرہ  ہوں کہ جب میں نے اپنے آفس میں ان “غیر شائستہ جملوں” کے خلاف احتجاج کیا تو مجھے ذہنی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔پہلے غیر محسوس طور پر اور پھر ہر میٹنگ میں سب کے سامنے ذلیل کیا جانے لگا۔

آگے بڑھنے سے پہلے میں یہ واضح کر دوں کہ 2007  تک جاب میرا شوق تھی اور پھر ضرورت بن گئی۔ 2007 میں ابو کے انتقال کے بعد دھوپ اور چھاؤں کی حقیقت کھل کر سامنے آ گئی۔ زندگی میں بہت کچھ ادھورا رہ گیا ، ادھورے لوگ اس طرح زندگی نہیں جیتے ، جیسے جینی چاہیے، معاشی دباؤ نے کچھ اور کیا ہو یا نہ کیا ہو، ہمیں تنہا کر دیا اور اب اس تنہائی کی اتنی عادت پڑ چکی ہے کہ زیادہ لوگوں سے واسطہ رکھنا بھی اچھا نہیں لگتا۔

مجھے اس سچائی کو تسلیم کرنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ پہلے ہمارا شمار متوسط گھرانوں میں بہترین پوزیشن پر ہوتا تھا مگر اب ہم مڈل کلاس کے دائرے سے باہر نکل گئے ہیں، رہی سہی کسر موجودہ حکومت کی مہنگائی نے پوری کر دی ہے، اب آسائشوں کی خواہش نہیں ،ضروریات ِ زندگی کی جنگ جاری ہے۔ لفظ تفریح کا مفہوم ہی بدل گیا ہے۔ خیر بات کر رہی تھی  ،اس احتجاج کی جو میں نے  کیا اور اس کے نتیجے میں مجھے جاب کو خیر آباد کہنا پڑا۔ جب کہ مسائل وہیں تھے مگر عزت ِ نفس مجروح کرانے کی میری ہمت ختم ہو گئی تھی۔ اگرچہ اسوقت گھر میں ، میری والدہ اور ایک بھائی صحت کے مسائل سے دوچار تھے اور ہمیں ان کے علاج کے لیے زیادہ سرمایہ کی ضرورت تھی۔

وہ ایک بڑا گروپ تھا مگر مالکان دل اور نظر کے بہت چھوٹے ۔ شروع میں باسز کا رویہ بہت اچھا تھا۔ مگر میں نے عورت کی عورت سے دشمنی جتنی یہاں دیکھی کہیں اور نہیں دیکھی۔ میں اس نظریے کی قائل ہوں کہ اگر عورت عورت کی دوست بن جائے تو عورتوں کے مسائل ختم ہو سکتے ہیں مگر یہاں معاملہ ایک ایسی نااہل عورت کا تھا جو تین گروپس کی اکلوتی ہیڈ بننے کی خواہش مند تھی ، جس میں سے ایک کی ہیڈ میں تھی۔مجھے جو پروجیکٹ دیا گیا تھا، میں نے اس پر بہت محنت کی، میری صحت تباہ ہوئی اور عجیب سے تناؤ کا میں شکار رہنے لگی۔ مسلسل بیٹھے رہنے کی وجہ سے میرا وزن 96 کلو ہوا اور ہڈیوں میں درد رہنے لگا، ڈاکٹر عمران ظفر سے علاج ہوا اور میں کچھ نارمل ہوئی۔ زندگی میں حوصلہ دینے والے اچھے دوستو نے ہمت سے حالات کا مقابلہ کرنے کا مشورہ دیا تھا مگر جب نو گھنٹے کی جاب سیم سیلری پیکچ پر سولہ گھنٹے پر محیط ہو گئی ، تو چڑچڑے پن میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

میں اس وقت چومکھی لڑ رہی تھی، خبریں گروپ کے چیف ایڈیٹر مرحوم ضیاء شاہد کی جانب سے مجھے ایک دباؤ کا سامنا تھا، میں خبریں میں کالم لکھ رہی تھی اور 28 مارچ 2017  میں اولاد جیسی بھتیجی مومنہ کی جواں عمری میں موت نے الگ اداس کر رکھا تھا۔ اس دوران بے تحاشا مصروفیات وقت کی ضرورت تھی مگر اس کا کوئی ایواڈ ملنے کی بجائے ، ذلت آمیز رویے میرے دامن سے لپٹ گئے، جن کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ جنوری 2018  میں ، میں نے جہاں جاب کو خیر باد کہا وہیں خبریں میں بھی کالم لکھنا بند کر دئیے۔

۔۔۔۔۔

انسان کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ خدا نے زیادہ سرمایہ دے کر دوسروں کی عزت بے عزتی کا اختیار اسے دے دیا، وہی رازق ہے وہی کارساز۔ اور جب خالق کائنات کی لاٹھی حرکت میں آتی ہے تو پناہ ڈھونڈتا پھرتا ہے، قسم ہے اس پاک ذات کی، جس کے اختیار میں کائنات کا ذرہ ذرہ ہے ، جو اس کے حکم سے طوفانوں میں بھی ڈھل سکتا ہے،اور ہیرے موتیوں میں بھی، یہاں سب کچھ عارضی ہے اور جو کچھ ہے اسی کا دیا ہوا ہے اور ہم نے بھی لوٹ کر اُسی کی طرف جانا ہے۔

ہمارے لہجے میں یہ توازن بڑی صعوبت کے بعد آیا
کئی مزاجوں کے دشت دیکھے کئی رویوں کی خاک چھانی

(عزم بہزاد)

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ اگر آفیسر ہیں ، آپ کے ساتھ خواتین کام کرتی ہیں تو ان کی عزت کریں، کیونکہ کسی غیر عورت کی عزت کرنے والا مرد اپنا خاندان اور خون کا تعارف ہوتا ہے اور اسے بے عزت کرنے والا بھی اپنے حسب نسب کا تعارف ہوتا ہے۔ پاکستان میں ہر دوسری عورت نے یہ سب بھگتا ہے مگر اکثریت برداشت کر جاتی ہے یا خاموشی اختیار کر لیتی ہے کہ ان معاملات میں گھر والے بھی ساتھ نہیں دیتے۔ جبکہ اس کے علاؤہ پاکستان میں عرصہ دراز سے یہ سب ایک حربہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے کہ کسی کو نیچا دکھانا ہے تو اس پر ہراسانی کا الزام لگا دو۔ اس لیے لوگ یقین نہیں کر پاتے اور مجرموں کو قرار واقعی سزا نہیں مل پاتی۔ سچ اور جھوٹ کی اس جنگ میں ہم نے صرف سچ کو ہارتے اور خودکشی کرتے دیکھا ہے ۔ کوئی اگر اپنا کیس جیتی بھی ہے تو شاید اس میں ہمت اور برداشت بہت زیادہ ہو گی ورنہ عدالت میں پہلی پیشی ہی آخری ثابت ہوتی ہے ۔ خواتین کے حوالے سے بنائے گئے تمام قوانین غیر مؤثر ہیں کہ ان پر عمل نہیں ہو پاتا ۔ پتہ نہیں پاکستان کب خواتین کے لیے ایک محفوظ معاشرہ بنے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply