توہین/ابو جون رضا

کل ایک مولوی توہین کے نام پر مجمع کے جنون کی بھینٹ چڑھ گیا۔ یہ وہی پودا ہے جس کی برسوں مولویوں نے ہی آبیاری کی اور وہ تناور درخت کی شکل اختیار کر گیا۔

مولویوں نے اس ظلم و بربریت کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور پریس کانفرنس کی ہیں،اس کے علاوہ میڈیا پر کئی گھنٹے ان کی پریس کانفرنس نشر ہوئیں جس میں وہ دہائی دیتے نظر آئے کہ ہم کب تک لاشیں اٹھائیں گے۔ جس علاقے میں یہ واقعہ ہوا وہاں کئی سال پہلے ایک لڑکے کو توہین مذہب کے نام پر ہوسٹل سے نکال کر جنونیوں نے مار دیا تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ مولویوں نے اس سفاکیت کے خلاف کسی قسم کا شور مچایا تھا ؟ لیکن آج توہین کے شجر سے لٹکتی و جھولتی پیٹی بند بھائی کی لاش مولویوں کو بتا رہی ہے کہ یہ درخت چوک پر لگایا گیا ہے۔ اور اس پر اب کسی کو بھی ٹانگا جاسکتا ہے

فوکو یاما نے جبر کی دو مختلف اقسام بیان کی ہیں۔

انیسویں صدی کی روایتی ”آمرانہ حکومتیں“ اور بیسویں صدی کی ”مطلق العنان ریاستیں“ ۔

دونوں میں اہم فرق یہ ہے کہ اوّل الذکر وسائل کی تقسیم، مذاہب کی روایات کو اپنی جگہ پر ہی رہنے دیتے تھے لیکن آخر الذکر ریاستوں کا بیانیہ معاشرے پر ہمہ گیر تسلط چاہتا تھا۔ وہ معاشرے کی ہر جہت پر پہرے بٹھانا چاہتا ہے، وہ ایک ہی بیانیے کو ’سالمیت‘ کا ضامن قرار دیتا ہے اور ہر متفرق آواز کو دبانا چاہتا ہے، اس طرح اصلاحات کے لیے نا قابل عمل ہو جاتا ہے۔

اس معاشرے میں اصلاح کی آواز اٹھانے والوں کو ملک سے بھاگنا پڑتا ہے جب مقدسات کی توہین کے الزام میں ان پر ایف آئی ار کٹوائی جاتی ہیں۔

جو لوگ این جی او کی چھتری نیچے کام کررہے ہیں ان کا کام بھوکوں کو تین ٹائم کھانا کھلانا اور رمضان میں سحری افطاری کروانا رہ گیا ہے ۔ وہ بھی جانتے ہیں کہ تعلیم کے نام پر یہاں خیرات نہیں ملتی لیکن اگر ایک کلو آٹا اور تین کلو چاول غریبوں میں بانٹے جائیں اور کھانا لینے کی لائن میں لگے غریبوں کی تصویریں مخیر حضرات کو دکھائی جائیں تو وہ دل کھول کر پیسہ دیتے ہیں۔

ایسے معاشرے میں آپ اصلاح کی امید کیسے رکھ سکتے ہیں جہاں اقبال کے نظریات کی مخالفت پر توہین کا پرچہ کٹوانے کی کوشش کی جائے اور اقلیتوں کی قبروں کو کھود کر ان کی ہڈیاں نکال کر پھینک دی جائیں۔

میں ہمیشہ کہتا آیا اور اب بھی کہتا ہوں کہ اس دور میں لوگوں کے شعور کو بلند کرنے سے افضل کوئی کام نہیں ہے۔ اور بہترین معاشرہ وہی ہے جہاں خوف سے آزاد ہوکر انسان ہر طرح کی بات کرسکے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نہیں منّت کشِ تابِ شنیدن داستاں میری
خموشی گفتگو ہے ، بے زبانی ہے زباں میری
یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply