• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • “مورخ کو اسکا حق دو “(جناب ڈاکٹر مبارک علی کی نذر )-تحریر/محمد وقاص رشید

“مورخ کو اسکا حق دو “(جناب ڈاکٹر مبارک علی کی نذر )-تحریر/محمد وقاص رشید

بچپن سے جو چند جملے سماعت کے پردے کے ساتھ گویا چسپاں ہیں جن کو سُنے بِنا کبھی کسی تھکے ہارے دن کو رات نے تاروں بھری قبا اوڑھا کر سُلایا نہیں۔ ان جملوں میں سے ایک جملہ ہے “مورخ جب لکھے گا “۔۔

جوشِ خطابت و تقریر کی آنچ پر یہاں نہ جانے کتنوں کی مفاد کی ہنڈیائیں پکتی اور معیشت کے دسترخوان کی زینت بنتی ہیں۔ ان سب کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ مؤرخ جب تاریخ لکھے گا تو اس میں ان کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔
ویسے اگر تاریخ کے سینے پر مؤرخ کے ہاتھوں اپنا نام اچھے الفاظ میں کندہ کروانے کا عملاً ذوق یہاں پایا جائے تو اس سماج کا یہ حال ہو ؟

تاریخ و مؤرخ کی بابت جو غلط فہمی یہاں صاحبانِ اختیار کے ذہنوں میں پائی جاتی ہے وہ جس کا اظہار ان کے بیانیے سے ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ انکے خیال میں مورخ شاید کوئی مصروفِ عمل ہستی ہے جو کہ فارغ التحصیل ہو کر تاریخ لکھنے بیٹھے گا۔

مؤرخ درحقیقت وقت ہے جس کا ہر گزرتا لمحہ لفظ ہو کر زمانے کی کتاب میں تاریخ بن کر رقم ہو رہا ہے۔ سو اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ وقت کی لکھی ہوئی تاریخ میں کل اس کا ذکر اچھے الفاظ میں پڑھا جائے تو اسے اپنا آج بہتر بنانا ہو گا۔

مؤرخ و تاریخ” کی یہ ساری تمہید “علم ” کے گرد گھومتی ہے ویسے تو انسان کے علم کی بنیاد پر فرشتوں کا مسجود ہونے سے لے کر “اقراء” کے امر تک ساری انسانیت اس علم ہی کے گرد محوِ گردش ہے۔ علم کا معروضی تعلق قلم ، کتاب اور معلم سے ہے۔ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور جناب آدم سے لے کر آج تک وہی علم منزلت کا خدا کے ہاں معیار ہے۔

ہم جن معاشروں کو انسانی حیات کے حوالے سے رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں وہاں خطابت میں تاریخ میں زندہ رہنے سے زیادہ کتابت میں تاریخ میں زندہ رہنے کی عملی فکر نمایاں ہو گی۔ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز تعلیم ہی ہے۔ سو ترقی یافتہ قوموں کی ترقی و خوشحالی کا معمار معلم ہے، اسی لیے وہاں محقق ، معلم ، مؤرخ ، ادیب قوم کے رہبر کی حیثیت سے عزت و تکریم پاتے ہیں۔ سوشل و ڈیجیٹل میڈیا کا ظہور اسی علم و علمیت کے ثمر ہی کی ایک مثال ہے۔

اب اس ساری تمہید کی روشنی میں ایک افسوس ناک قضیے کو دیکھیے۔ جہالت و غربت کا تعلق ایک سائیکل کی طرح ہوتا ہے۔ یہ چیزیں باہم ایک دوسرے کی پیداگیر ہیں۔ بہرحال انسان کے پاس انسانیت کا شرف دماغ کی وجہ سے ہے اور بھوک میں انسان پیٹ سے سوچتا ہے۔ ہمارے ہاں اس بھوک میں بھی دماغ سے سوچنے والے اپنی ذاتی جدوجہد سے انسانیت کے درجے پر فائض ہیں۔ ان میں سے ایک نام جناب ڈاکٹر مبارک علی ہیں۔

ڈاکٹر صاحب پاکستان سے عمر میں بڑے اور رتبے میں ان میں سے ایک ہیں جو ہم عام پاکستانیوں سے بہت بڑے ہیں، بنیاد ؟ وہی خدا کی طے کردہ “علم “۔ سندھ یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کے معلم اور چیئرمین رہے ہیں۔ ایک سہ ماہی جریدے کے ایڈیٹر رہے ہیں۔ تاریخ کے موضوع پر سو  سے زائد شہرہِ آفاق کتابوں کے مصنف ہوتے ہوئے آپ کی حیثیت ایک مؤرخ کی ہے۔

آپ اندازہ لگائیے کہ ایک ایسی شخصیت جو کسی قوم کے گنے چنُے چند افراد میں سے ایک ہیں جنہیں ایک عظیم معلم و مؤرخ کی حیثیت سے کوئی منفرد اعزازی مقام و اکرام سے نوازا جانا چاہیے تھا۔ آج سوشل میڈیا پر آکر ہم عامیوں سے مدد طلب کر رہے ہیں کہ انکی کتب کے دو پبلشرز تاریخ پبلیکیشنز اور فکشن ہاؤس ان کا استحصال کر رہے ہیں۔

پچھلے دنوں بچوں کی نظموں کی کتابوں کا ایک سیٹ پبلش کروانے کے لیے تگ و دو کرتے ہوئے مجھے ایک محترم نے کہا ،خیال سے کہ محض مامور مصنف ہی اپنی کتابوں کی رائلٹی ٹھیک سے وصول کر پاتے ہیں۔ یہاں تو یہ بات بھی غلط ثابت ہو گئی۔

انتہائی دکھ کی بات ہے کہ لفظوں والے کاغذ سے تصویروں والے لاکھوں کروڑوں کاغذ کمانے والے ان میں سے یہ لفظ لکھنے والوں کو انکا خراج کے طور پر بھی دینے سے قاصر ہیں۔

یہ امر اس ریاست کے لیے بھی باعثِ تشویش ہونا چاہیے مگر ہو گا نہیں کہ ایک معلم محقق اور مورخ کی یہاں کیا وقعت ہے کہ اسے اپنا حق مانگنے کے لیے عوام کے خون پسینے سے چلنے والے اداروں کی بجائے براہِ راست عوام سے مدد مانگنی پڑتی ہے۔

فکشن ہاؤس اور تاریخ پبلیکیشنز دونوں اداروں سے یہ گزارش ہی کی جاسکتی ہے کہ “علم” سے مستفید ہو کر معلم کے سنگ یہ بے قدری کس طور برت سکتے ہیں ۔ “تاریخ” والوں نے تو   اپنا نام بھی  تاریخ رکھا ، وہ ایک مؤرخ ” کااستحصال کیسے کر سکتے ہیں۔

مہربانی کریں  اس سر زمین پر دماغ سے سوچنے والے ہیں ہی کتنے ۔ کم ازکم انکو تو پیٹ سے سوچنے پر مجبور نہ کریں خدارا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

“مؤرخ لکھے گا ” کا بچپن سے سنا گیا جملہ آج تبدیل ہوا کہ “مؤرخ ” بے چارہ بول رہا ہے اور اس مؤ رخ کے لیے تاریخ کے طالبعلم لکھ رہے ہیں کہ۔۔ ۔۔
“مؤرخ کو اسکا حق دو”۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply