مذہبی باؤلے/ابو جون رضا

ایک معصوم سیدھے سادے بلوچ بزرگ کی نو سیکنڈ کی وڈیو سوشل میڈیا پر جاری ہوئی ۔ جو سعودی عرب عمرہ کرنے گیا تھا ۔ عوام نے اس کو حضرت ابوبکر صدیق مان لیا۔ تلاش شروع ہوئی تو وہ بزرگ بدقسمتی سے پاکستان کے نکل آئے۔ بس پھر کیا تھا ایسی عقیدت کے دریا بہے کہ اس میں تیرتے ہوئے عوام جوق در جوق اس شخص کی جھونپڑی جا پہنچی۔ کسی نے ہاؤسنگ سوسائٹی میں پلاٹ نام کردیا۔ کسی نے حج کے مفت پیکج کا اعلان کردیا، یو ٹیوب چینل اینکرز انٹرویو کے لیے جاپہنچے اور اس شخص کی باتیں سننے کے لیے پروگرام منعقد کیے جانے لگے۔

مجھے یاد ہے کہ کافی سال پہلے اربعین کے موقع پر ایک وڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں کربلا میں لوگوں کے ہجوم میں ایک گھنی داڑھی والا شخص لوگوں کے درمیان سے گزر کر جاتا ہے ۔ عقیدت مندوں نے اس کو حضرت عباس تو کسی نے امام مہدی کا نام  دیا۔

مجھے یقین ہے کہ اگر اس کے گھر کا پتا چل جاتا تو ماتمی دستوں نے اس کے گھر کے باہر ڈیرے ڈال لینے تھے۔ننگ دھڑنگ افراد اس کے گھر کے باہر وہ شور مچاتے کہ بیچارہ وہابی ہونے کا اعلان کرکے گھر کی پچھلی دیوار کود کر بھاگ جاتا۔

یہ وہ زہر ہے جو برسوں سے اس ملک کی عوام کو قطرہ قطرہ پلایا گیا ہے۔ اس ملک میں جیل کاٹ کر آنے والے کو ہار پھول پہنائے جاتے ہیں کیونکہ وہ مخالف کیمپ میں مذہبی نعرہ مار کر آیا ہوتا ہے ۔ اس کی پیٹھ  ٹھوکی جاتی ہے۔ ائیر پورٹ پر اس کا فقید المثال استقبال کیا جاتا ہے۔

جس ملک میں “لاہور دا پاوا” اور “ہماری پاوڑی” جیسے جملوں کے خالق کے بھی ٹی وی پر مارننگ شوز میں نظر آتے ہیں تو مذہبی ٹچ رکھنے والے کیوں آسمان پر بیٹھے نظر نہیں آئیں گے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک ارب مسلمانوں میں لگتا ہے کہ کلمہ صرف ہم نے پڑھا ہے اور پڑھتے ہی باؤلے ہوگئے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply