پاک بھارت تعلقات اور اقبال وجناح کا زاویہ نظر

انگریزی دور اقتدار میں برصغیر کی اقوام جمہوریت کے جدید مغربی تصور سے روشناس ہوئیں اور برطانوی حکمرانوں نے اسی تصور کے تحت ہندوستان کے سیاسی نظام کی تشکیل نو کے لیے اقدامات کا آغاز کیا تو یہاں کی دو بڑی قوموں یعنی ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین باہمی بے اعتمادی کی وجہ سے اپنے سیاسی اور اقتصادی حقوق کی حفاظت کے حوالے سے کشمکش اور تناؤ کی صورت حال پیدا ہو گئی جس نے آگے چل کر ایک باقاعدہ قومی تنازع کی شکل اختیار کر لی۔ اس صورت حال کے تجزیے اور ممکنہ حل کی تجویز میں مسلمان قیادت بھی باہم مختلف الرائے ہو گئی۔ ایک گروہ نے ہندوستان میں بسنے والی تمام اقوام کے لیے متحدہ قومیت کے تصور کی تائید کی اور اس بات پر زور دیا کہ تمام قومیں اور خاص طور پر ہندو اور مسلمان اپنے لیے ایک مشترک سیاسی مستقبل کے خط وخال متعین کریں اور مشترکہ سیاسی جدوجہد کے ذریعے سے ہندوستانی قوم کو سیاسی خود مختاری یا آزادی کی منزل سے ہم کنار کریں۔ تاہم مسلم لیگ کی قیادت، کانگریس کے موقف، طرز سیاست اور رویے سے بوجوہ مطمئن نہ ہو سکی اور اس نے مسلم قومیت کی بنیاد پر اپنی سیاسی جدوجہد کو منظم کیا جس کا بنیادی مطالبہ آگے چل کر ہندوستان کی تقسیم قرار پایا۔ مسلم لیگی قیادت اس مطالبے کے جواز پر مسلمان عوام کی اکثریت کو قائل کرنے میں کامیاب رہی اور ۱۹۴۷ء میں قیام پاکستان کی صورت میں تقسیم ہند کے تصور نے ایک عملی حقیقت کا درجہ اختیار کر لیا۔

یہاں یہ نکتہ یاد رکھنا بہت اہم ہے کہ مسلم قائدین کا یہ اختلاف اس حوالے سے نہیں تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین مذہبی اختلاف یا ماضی کی تلخیوں کی بنیاد پر کشمکش اور تصادم کی صورت حال کا قائم رہنا مطلوب یا ضروری ہے یا کسی بھی حوالے سے اس خطے کے سیاسی یا معاشی مفادات کے لیے مفید ہو سکتا ہے۔ اس بات پر دونوں فریق متفق تھے کہ خطے اور اس میں بسنے والی قوموں کے مابین باہمی تعاون کی فضا ہی خطے کے مجموعی مفاد کے لیے ناگزیر ہے۔ اختلاف اس پر تھا کہ تعاون اور موافقت کی یہ فضا آیا ایک ہی ملک میں اکٹھے رہتے ہوئے پیدا کی جا سکتی ہے یا اس کے لیے ملک کی سیاسی تقسیم کا طریقہ زیادہ حقیقت پسندانہ اور عملی ہے۔ مسلم لیگ دوسرے نقطہ نظر کی قائل تھی اور دراصل تقسیم ہند کے مطالبے کی بنیاد ہی یہ نکتہ تھا کہ اس فیصلے سے دونوں قوموں کے باہمی تنازعات کا ایک مستقل حل نکل آئے گا اور اس کے بعد دونوں قومیں دوستی اور تعاون کی فضا میں خطے کی مجموعی ترقی کے لیے جدوجہد کر سکیں گی۔

اس حوالے سے مسلمانوں کے جداگانہ سیاسی تشخص کے موقف کی ترجمانی کرنے والے دو صف اول کے مسلم قائدین کے زاویہ نظر کا حوالہ دینا یہاں مناسب ہوگا۔

علامہ محمد اقبال کا خطبہ الٰہ آباد مسلمانوں کی سیاسی فکر کا رخ متعین کرنے میں تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اقبال نے اس خطبے میں جہاں خود مختار مسلم ریاستوں کی تشکیل کی فکری وتہذیبی اساسات کو واضح کیا ہے، وہاں دونوں قوموں کے باہمی تعلقات کے حوالے سے اس کے مضمرات کو واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

Thus, possessing full opportunity of development within the body politic of India, the North-West Indian Muslims will prove the best defenders of India against a foreign invasion, be that invasion one of ideas or of bayonets. …… From this you can easily calculate the possibilities of North-West Indian Muslims in regard to the defence of India against foreign aggression.

اقتباس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہندوستان کے شمال مغربی علاقے میں اگر مسلمانوں کو اپنی خود مختار ریاست بنانے کا موقع مل جائے تو وہ ہندوستان کے بہترین محافظ ثابت ہوں گے اور باہر سے ہونے والی کسی بھی فکری یا عسکری جارحیت سے ہندوستان کی حفاظت کا فریضہ انجام دیں گے۔

دوسری شخصیت، مسلمانوں کی قومی سیاسی جدوجہد کے حقیقی قائد، محمد علی جناح کی ہے۔ تقسیم ہند سے تقریباً تین ماہ قبل قائد اعظم محمد علی جناح نے رویٹرز کے نمائندے Doon Campbell کو ایک بہت اہم انٹرویو دیا جو ۲۲ مئی ۱۹۴۷ء کو ڈان میں شائع ہوا۔ انٹرویو کا موضوع تقسیم کے بعد پاکستان کی سیاسی وخارجہ پالیسی کے بنیادی نکات تھے، خصوصاً یہ کہ پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی، پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رخ کیا ہوگا اور بین الاقوامی طاقتوں میں وہ کس پر زیادہ انحصار کرے گا، اور یہ کہ پاکستان میں اقلیتوں کی حفاظت کیسے اور کیونکر کی جا سکے گی۔ انٹرویو سے مستقبل کے سیاسی منظر نامے کے حوالے سے قائد اعظم کا وژن بہت واضح طور پر سامنے آتا ہے۔ اس کے اہم نکات حسب ذیل ہیں:

۱۔ قائد اعظم پاکستان اور بھارت کے مابین دوستانہ اور اعتماد پر مبنی تعلقات کے خواہاں تھے۔ تقسیم ہند ان کے نقطہ نظر سے مستقل دشمنی اور تناؤ کی نہیں، بلکہ باہمی کشیدگی کے خاتمے کی بنیاد تھی۔

۲۔ وہ کسی بھی بیرونی جارحیت کے مقابلے کے لیے پاکستان اور بھارت کے مابین دفاعی معاہدے یا کسی دفاعی اتحاد میں شرکت کے موید تھے۔

۳۔ وہ پاکستان کے قیام کو ’’پان اسلام ازم‘‘کی قسم کے کسی سیاسی تصور یا تحریک کا حصہ نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے خیال میں یہ تصور عرصہ دراز ہوا، اپنی عدم افادیت ثابت کر چکا تھا۔ البتہ وہ تمام مسلم ممالک سے دوستانہ اور مبنی بر تعاون تعلقات کی خواہش رکھتے تھے۔

بد قسمتی سے دونوں ملکوں کے مابین پر امن اور دوستانہ تعلقات کا یہ وژن مختلف عوامل کے زیر اثر نسیاً منسیاً ہو چکا ہے۔ تقسیم ہند کے موقع پر پیدا ہو جانے والی یا پیدا کی جانے والی بعض پیچیدگیوں اور ان کے تلخ اثرات نے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں بنیاد کی حیثیت حاصل کر لی ہے اور مرور زمانہ کے ساتھ کشیدگی اور تناؤ کی اس فضا کو برقرار رکھنے کو اب دونوں ملکوں میں طاقت اور اقتدار کا کھیل کھیلنے والے توانا عناصر نے اپنی ضرورت فرض کر لیا ہے۔

سیاست بدقسمتی سے طاقت کا کھیل ہے جس کی مثال ایک طوائف کی ہے۔ اس کی فطرت میں ہے کہ وہ غمزہ وعشوہ کے سامان اور داد وتحسین کے لیے تو ’’تماش بینوں‘‘ (یعنی عوام) پر انحصار کرے، لیکن خود چند مخصوص طبقوں کی رکھیل بن کر رہے۔ جنگ کو بھی ’’متبادل ذرائع سے سیاست‘‘ کی ایک شکل سمجھا جاتا ہے، سو یہ بھی ہمیشہ عوام کا خون نچوڑ کر لڑی جاتی ہے تاکہ چند بالادست طبقے اپنے خود غرضانہ مقاصد کی تکمیل کر سکیں۔ عوام کی، خود فریبی اور کوتاہ نظری کی صلاحیت کی بدولت، کشیدگی اور تصادم کے خواہش مند یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ ایک محدود اور وقتی تناظر میں عوام کے دل ودماغ کو ہیجان اور اشتعال کا یرغمال بنا لیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ صورت حال دیانت دار اہل دانش کے لیے ایک کڑی آزمائش کی حیثیت رکھتی ہے۔ موقع پرست دانش وروں کے لیے اس فضا کا حصہ بن جانا آسان بھی ہوتا ہے اور صلہ بخش (rewarding) بھی، اور تاریخ کے ساتھ ساتھ معاصر حالات میں اس کے جوازات ڈھونڈ لینے میں بھی انھیں کوئی خاص دقت نہیں ہوتی، لیکن حقیقی اہل دانش کی اصل اخلاقی ذمہ داری بہت بلند ہے۔ ان کا کام اسٹریٹجک تجزیوں سے کسی قوم کی دور بینی کی صلاحیت کو کند کرنا نہیں، انسان دوستی کے جذبے کو فروغ دینا اور طاقت اور مفادات کے ٹکراؤ کے ماحول میں ہوش مندی کے پیغام کو زندہ رکھنا ہے۔

Facebook Comments

عمار خان ناصر
مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply