شیریں سخن، شیریں عمل/ڈاکٹر اظہر وحید

یہ کہاوت درست نہیں کہ فلاں زبان کا کڑوا ہے، لیکن دل کا بہت اچھا ہے۔ یہ ڈھکوسلا ہے— کسی شخص کی بدزبانی کی بے ڈھب توجیہہ ہے۔زندگی سادہ ہے — سادہ زندگی ہی سیدھی زندگی ہوتی ہے۔ اس میں توجیہات اسے پیچیدہ کر دیتی ہیں۔ ہمارے الفاظ ہمارے دل کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جس کے ہاں الفاظ شیریں ہوں، لہجے نرم ہوں اور پیشانی کشادہ ہو‘اس کے بارے میں یہ حسنِ ظن قائم کرنے میں مضائقہ نہیں کہ اْس کا دل بھی نرم ہوگا۔ نرمل الفاظ اور کومل لہجے نرم دلی کی پہچان ہوا کرتے ہیں۔ انسان کا پہلا تعارف اِس کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ ہوتے ہیں۔ باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا قول ہے، بولو! تاکہ پہچانے جاؤ!!
انسان اپنے قول و عمل میں گروی رکھ دیا گیا ہے۔ اس کا عمل اس کے قول کے تابع ہے اور قول اْس کے قلب کے تابع ہے۔ جسے اپنے عمل کو خوبصورت کرنا مطلوب ہو، اسے چاہیے کہ اپنے قول کو خوبصورت کرے! اچھے عمل کے لیے اچھی نیت کے ساتھ ساتھ اچھی بات کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے عمل سے پہلے ایمان کی شرط ہے۔ حسنِ عمل، حسنِ ایمان کے بعد شروع ہوتا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اعمال کا انحصار نیات پر ہے۔
عمل کے دسترخوان پر الفاظ ظروف کی مانندہیں۔ ایک خوش ذائقہ خوان اگر بے ڈھب برتن میں ترش روئی کے ساتھ پیش کیا جائے تو اسے چکھنے والا خوش نہیں ہوتا۔ ایک اوسط درجے کا کھانا اگر خوش اسلوبی سے خندہ پیشانی کے ساتھ سے پیش کردیا جائے تو مہمان خوشدلی سے تناول کرتا ہے۔ زندگی کے دسترخوان میں بھی دیکھنا چاہیے‘ ہم اپنے احباب اور عزیزو اقارب کو آخر کن لہجوں اور لفظوں میں دعوت پیش کرتے ہیں۔ بات چیت میں الفاظ کا چناؤ بہت اہم ہوتا ہے۔ ایک لفظ کی ترتیب بھی تہذیب کے دائرے سے نکل جائے تو انسان کسی کے دل سے ہمیشہ کے لیے نکل جاتا ہے۔
ہمارے ظاہر اور باطن پر لفظ ہی پردے ڈالتا ہے اور لفظ ہی پردے فاش کردیتا ہے۔ یوں الفاظ دھوکا دیتے بھی ہیں اور دھوکا دْور بھی کر دیتے ہیں۔ انسان کا اصل تعارف اْس کا باطن ہے— باطن کو ظاہر ہونے کے لیے لفظ درکار ہوتا ہے۔ اپنے لفظوں کے انتخاب سے ہم اپنے باطنی قبیلے کا انتخاب اور انساب بتا رہے ہوتے ہیں۔ بسا اوقات ایک انسان برس ہا برس کسی کے ساتھ رہتا ہے، اس کی کمزوری اسے خاموش رہنے پر مجبور کیے رکھتی ہے، لیکن جب اسے طاقت ملتی ہے تو وہ پھٹ پڑتا
ہے— اْس کا باطن ظاہر ہو جاتا ہے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ایک قولِ کریم یہ بھی ہے کہ دولت اور مرتبہ انسان کو بدلتے نہیں، بلکہ اس کی اصل فطرت کو ظاہر کر دیتے ہیں۔ باب العلمؓ کی ہر بات علم و حکمت کی دنیا میں کھلنے والا ایک نیا باب ہوتا ہے۔
بہرطور لفظ ظاہر اور باطن کے درمیان ایک برزخ کی صورت ہے۔ جب لفظ بولے جاتے ہیں تو یہ برزخ تڑخ جاتا ہے— باطن ظاہر ہونے لگتا ہے۔ جزا اور سزا مرتب ہونے لگتی ہے۔ میزان قائم ہونے لگتا ہے۔ عمل سے پہلے لفظوں پر گرفت ہے۔ گالی اس لیے قابلِ گرفت ہے کہ یہ کسی ممکنہ برے عمل کی نیت کا لفظوں کی شکل میں اظہار ہے۔ نیت عمل سے پہلے لفظوں میں ظاہر ہوجاتی ہے۔ نیت باطن ہے، عمل ظاہر! جب تک باطن ظاہر نہ ہو‘ اْس وقت تک سزا متعین نہیں ہوتی— جب باطن ظاہر ہو جاتا ہے تو اْس پر حد لگانا واجب ہو جاتا ہے۔ اقدامِ قتل سے پہلے ارادہِ قتل بھی ایک جرم ہے — اور اس کا ثبوت لفظوں کی صورت میں ملتا ہے۔
ہم الفاظ کی دنیا میں رہتے ہیں — الفاظ ہمیں زندہ کرتے ہیں اور الفاظ ہی ہمیں مار دیتے ہیں۔ انسان کو زندہ رکھنے کے لیے اسے روٹی سے پہلے عزتِ نفس کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی کی تذلیل کرنے کے بعد اسے روٹی کپڑا دے بھی دیا جائے تو وہ بھوکا رہے گا، ننگا رہے۔ کسی کو عزت دینے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اس کے عیوب ڈھانپے جائیں — اْس کی غربت سے چشم پوشی کی جائے، اس کی کمزوریوں کی نشاندہی کرنے سے گریز کیا جائے۔ عالی ظرف کمزور کے ساتھ برابری کی سطح پر سلوک کرتا ہے— اس کی پردہ داری کرتا ہے۔ کم ظرف اپنی دولت اور منصب کے زعم میں کمزور کی پردہ دَری کرتا ہے۔ فرق صاف ظاہر ہے۔
اسلام مسلمان کو عالی ظرف بنانے کی تعلیم دیتا ہے۔ جب بتایا گیا کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ رہیں، تو اس سے کیا مراد ہے؟ ایک طاقتور ہی اپنے ہاتھ اور زبان سے دوسروں کو ایذا پہنچا سکتا ہے۔ جب وہ اپنی طاقت نیام میں رکھ دے گا تو دوسروں کے لیے بے ضرر ہو جائے گا۔ اخلاق اپنی طاقت کی تلوار کو نیام میں رکھنے کا نام ہے۔ جب یہ تعلیم دی گئی کہ مسلمان وہ ہے جو اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند کرتا ہے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے، تو اس سے مراد بھی یہی ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ وہی سلوک کرے گا جس سلوک کا مستحق وہ خود کو سمجھتا ہے۔ وہ اپنے لیے عزت پسند کرتا ہے، پس وہ دوسروں کو بھی عزت دے گا۔ وہ پسند کرے گا کہ بطور مہمان اس کے ساتھ اچھا سلوک ہو، پس وہ اپنے مہمان کی جی بھر کر تکریم کرے گا۔
اچھی نیت اچھے قول پر اور اچھا قول اچھے عمل تک جاپہنچتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہو رہا تو یہ منافقت کا باب ہے۔ منافقت زیادہ دیر تک چھپی رہ نہیں سکتی۔ لفظوں اور لہجوں سے منافقت کا پردہ چاک ہو جاتا ہے۔ منافقت ظاہر ہو جائے تو کفر کے حکم میں آتی ہے۔کفر ایمان کا غیر ہے۔ حالتِ کفر میں جانے والا اْن اَقوالِ نصیحت کی خوبصورتی سے اندھا اور بہرا ہوجاتا ہے جو حالتِ ایمان میں دکھائی اور سنائی دیتے ہیں۔ ایمان قلب کی ایک حالت ہے۔ قلب عجز و تسلیم کی حالت میں ہو تو نصیحت فایدہ دیتی ہے۔ دراصل کفر اختیار کرنے والا، انکار کرنے والا، ایمان والوں کو، ماننے والوں کو دل ہی دل میں بیوقوف سمجھتا ہے، وہ بغاوت کوذہانت اور اطاعت کو سفاہت سمجھتا ہے— نتیجہ ذلّت و رسوائی کے علاوہ کیا ہوگا! کفرو معصیت سب سے بڑی بے ادبی ہے— اور ایمان و اطاعت سب سے بڑا ادب!! بے ادب کو بے نصیب اور باادب کو بانصیب یوں ہی نہیں کہا گیا۔ بے ادب کا بے نصیب ہونا اور باادب کا بانصیب ہونا ایک مکمل سائنس ہے— یہ ایک قانونِ فطرت کی طرح نافذ العمل ہے۔ یہ ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ ہے۔
بے اَدب، ترش رَو اور قطع رحمی کا مرتکب اکثر حادثاتِ دہر کی زد میں ہوتا ہے۔ وہ دعاؤں کے حصار سے نکل چکا ہوتا ہے۔ دعائیں ہمیں استثنیات فراہم کرتی ہیں۔ دعائیں ہماری مہلتوں میں اضافہ کرتی ہیں، ہماری کوتاہیوں کو ڈھانپ لیتی ہیں۔ باادب بانصیب اس لیے ہے کہ دعائیں صرف ایک باادب شخص ہی کا نصیبہ ہوتی ہیں۔ باادب کے لیے دعائیں دل سے نکلتی ہیں۔ بے ادب آدمی دلوں کو زخمی کر چکا ہوتا ہے۔زخمی دلوں سے آہ اور کراہ کے علاوہ کیا نکلے گا۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا ایک پْرنصیحت شعر ہے:
تْو نے ہر دل کو کیا زخمی
میں نے ہر دل سے دعا لی ہے
سنگ دل سنگلاخ ہوتا ہے— نرم دل گداز!! الفاظ ہی کے تیر و تفنگ دلوں کو زخمی کرتے ہیں اور الفاظ ہی کے مرہم زخمی دلوں پر پھاہا رکھتے ہیں۔ فیصلہ تیرا ترے ہاتھ میں ہے— ترے ہاتھ میں کیا ہے؟— تیر و تفنگ، سنگ و خشت یا پھر پھول، شبنم اور مرہم!! اصول ِ فطرت یہی ہے کہ جو دل میں ہوگا وہ زبان پر اْترے گا اور جو زبان پر اْترے گا وہی دل پر اْترے گا— یا پھر دل سے اْترے گا! قصہ مختصر اخلاق دعوے کی بجائے لفظ اور لہجے کا محتاج ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply