میرا داغستان/سراجی تھلوی

“بازار کی زینت ہوتے ہیں وہ رنگین و منقش برتن جو اطراف میں بکھری مٹی سے کمہار بنایا کرتے ہیں
ہاں یونہی وہ اشعار جنہیں سُن سُن کے زمانہ جھوم اُٹھے ہر لب پہ مچلتے لفظوں سے فنکار تراشا کرتے ہیں”

(میرا داغستان ص 48)

اِس کتاب میں رسول حمزہ توف  نے گاؤں میں بِتائے ہوئے عہدِ طفولیت کی حسین و دلنشین اور غم جاناں و غم روزگار سے بے پروا عہد کی خوبصورت منظر کشی کی ہے ۔اور اپنی زبان و ادب ،تہذیب و ثقافت کے ساتھ جو والہانہ محبت کا اظہار کیا ہے واقعتا قابلِ  دید ہے۔ایک حسّاس دل ،سوز و کرب سے پُر شاعرِ دل فگار کے قلم سے دیہاتی زندگی کے رنگ,ڈھنگ ،تہذیب و تمدن ،انداز بود وباش کی
عکاسی ہر پڑھنے والے دیہاتی الاصل قاری کو اپنے  سحر میں جکڑ لیتی ہے ۔اور یاد کے بے نشاں جزیروں میں پا بجولاں ہونے پر مجبور کرتی ہے۔یہ کتاب ہر اس شخص کی آواز اور پکار ہے جو اپنی تہذیب و ثقافت ،طرز زندگی اور گاؤں کے پہاڑ و آبشار ،لہلہا تے کھیت،برف پوش پہاڑی چوٹیوں،سبزہ زار باغات،بلبلوں کا نغمہِ محبت ،مناظر قدرت سے بھرپور مسحور کن مقامات سے محبت کرتا   ہے ۔اس کتاب میں مناظر قدرت و فطرت اور دیہاتی طرزِ  زندگی کی تصویر کشی اس انداز سے کی گئی  ہے کہ  یوں  لگتا ہے ہم بالمشافہ رسول حمزہ توف کے ساتھ محو گفتگو ہیں بلکہ روس کے “سدا” نامی گاؤں
میں حمزہ توف کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملائے وہیں کی پگڈنڈیوں،پہاڑوں، چراگاہوں میں گھوم رہے ہیں۔ رسول حمزہ توف لکھتے ہیں؛

پیرس میں میری ملاقات ایک مصور سے ہوئی جو داغستانی تھا ۔انقلاب کے کچھ ہی دن بعد وہ بغرض تعلیم اٹلی چلاگیا ۔ وہیں ایک اطالوی خاتون سے شادی کر لی اور ہمیشہ کےلیے وہیں  بس گیا۔اس نے خود کو نئے ماحول میں ڈھالنے کی بہت کوشش کی اور آوارہ مزاج کو سکون دینے کےلیے نئی دنیا میں جینے کےلیے سیروسیاحت کا سہارا لیا اور دور دراز ملکوں ملکوں سفر کیا، مگر جہاں بھی گیا وطن
کی یاد،داغستان کی یاد ،احساسِ جدائی ہمیشہ دامنِ  گیر رہی ۔رسول حمزہ لکھتے ہیں :میں نے اس مصور سے کچھ تصاویر دکھانے کی خواہش کی کہ یہ دیکھنے کےلیے اس ہجر زدہ ،وطن و آبائی گاؤں سے دور دلفگار ،غمزدہ مصور نے اپنے جذبات و احساسات کو کس طرح رنگوں میں ڈھالا ہے۔ان میں    ایک تصویر نظر آئی جس کا عنوان تھا”وطن کی غمگین یاد”اس تصویر میں ایک اطالوی خاتون جس کے  ہاتھ میں ایک صراحی  تھی،جو  مختلف نقش و نگار سے مرصع تھی ۔پس منظر میں ایک پہاڑ کی ڈھلوان پر بسا ہوا ایک سنسان تنہا آوارہ  گاؤں تھا۔گاؤں کے کچے مکانوں کے پس منظر میں ایک پہاڑ تھا جو
گاؤں سے زیادہ اداس اور بے جان لگ رہا تھا اور پہاڑ کہر میں ڈوبا ہوا تھا۔کُہر پہاڑوں کے آنسو ہیں جو شبنم کی صورت میں گر رہی تھی ۔وہ مصور کہتا ہے کہ اس سنسان گاؤں کے پس منظر میں موجود اداس پہاڑ سے گرنے والے آنسو “میں” ہوں۔واقعتاً وطن سے جدائی اور انجان ماحول،انجان گلی کوچوں، نئی دنیا ،نئے لوگوں میں زندگی کرنا ایک کرب اور اذیت ہے جو چاہ کر بھی ختم نہیں ہوتی چاہے ظاہری طور پر کتنا ہی خوش باش نظر آئے۔

دن سراجی کا بھی خوش باش گزرتا ہے مگر

رات خوابوں میں بھی مغموم بنا  پھرتا ہے

رسول حمزہ توف اس واقعے کے تسلسل میں لکھتے ہیں ۔جب میں پیرس سے واپس   آیا ، “داغستان “میں انکے عزیزوں کو ڈھونڈنا شروع کیا تو مجھے  یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اس کی ماں زندہ ہے ۔مصور کے رشتہ دار فسردہ چہروں کے ساتھ گاؤں کے ایک مکان میں اپنی اس مصور کی کہانی سننے کےلیے جمع ہوئے ۔جس نے اپنا وطن ہمیشہ کےلیے چھوڑ دیا تھا اور کسی اور انجان ماحول میں بس گیا تھا۔لکھتے ہیں ۔۔۔

باتوں باتوں میں اچانک اس کی ماں نے سوال کیا کہ تم نے اس سے بات چیت تو” آوار”زبان میں کی ہوگی نا؟مگر جواب نہ میں ملا، تو اسکی ماں نے چہرے پر سیاہ نقاب ڈال لیا اور ایک طویل خاموشی کے بعد کہا رسول تم سے ایک غلطی ہوئی میرے بیٹے کو مرے ہوئے ایک مدت بیت گئی ہے۔جس  سے  تم ملے ہو وہ میرا بیٹا نہیں  رہا ہوگا۔کیونکہ میرا بیٹا اس زبان کو کبھی نہیں بھلا سکتا جو میں نے گھٹی میں پلائی تھی جو ایک آوار ماں نے سکھائی تھی ۔یعنی یہاں کہنے کا مطلب جو اپنی مادری زبان کو بھول جائے جو اپنی طرزِ  زندگی ،تہذیب و ثقافت کو بھول جائے وہ حقیقت میں ایک زندہ لاش ہے۔۔

اسی تسلسل میں رسول حمزہ توف لکھتے ہیں؛

کہ میں نے اس مصور سے پوچھا آپ اپنے وطن کیوں نہیں لوٹنا چاہتے ؟

تو اس مصور نے جواب دیا اب پانی سر سے گزر گیا ہے۔اب بہت دیر ہوچکی ہے جب میں نے وطن ،دیس ،داغستان کو چھوڑ تھا اس وقت میرے پہلو میں ایک جوان دل تھا اب بوڑھی اور کہنہ ہڈیاں لے کر کس منہ سے وطن واپس جاؤں؟

انسان معاشی اور دیگر خواہشات کی تکمیل کےلیے اپنوں سے اتنا دور چلا جاتا ہے کہ واپسی کا دروازہ مسدود ہو جاتا ہے مگر یادیں آنکھوں کے سامنے ہمیشہ رقصاں ہو کر ایک اذیت ایک کرب ایک نادیدہ احساس ِ جدائی،فراقِ  شہرِِ  یاراں میں ہمیشہ کےلیے مبتلا ہوجاتا ہے ۔

اس کتاب میں مصنف نے جس انداز سے ایک الہامی و فطرتی شاعر اور مصنوعی شاعر کی تفکیک کی ہے واقعتاً   ہر ملک اور ہر علاقے کی نمائندگی ہے ۔شاعرانہ صلاحیت قدرت کی طرف سے ودیعت کردہ ایک نعمت ہے جو مشق سخن ،اور جہد مسلسل سے نکھرتی  چی  جاتی  ہے ۔کوئی شئے  یا مال نہیں جو پیسے اور طاقت کے زور پر خریدا جا سکے ۔میرا مقصد اس کتاب پر تبصرہ کرنا ہے نہ تعارف بلکہ اس کتاب ککو و پڑھنے کے بعد ایک احساس،ایک کسک،ایک کیفیت ،ایک روانی جو طبیعت میں پیدا ہوئی اسی کا  اظہار کرنا ہے۔اور اس اظہار میں،مَیں کتنا کامیاب ہوا ہوں قارئین بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں

نوٹ:یہ تحریر “میرا داغستان “نامی کتاب کو پڑھنے کے بعد احساس کو لفظوں کی قالب میں ڈھالنے کی کوشش  ہے  جو وطن سے دُور داغِ ہجرو فراق سے چُور سراجی تھلوی کے  نازک قلم سے سپردِ قرطاس ہوئی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

داغستان روس میں شامل آذربائیجان کے بارڈر سے نزدیک ایک علاقہ ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply