ہم سب فتنہ ہیں /ڈاکٹر نویدؔخالد تارڑ

ہمارے ہاتھ میں موبائل اور اس موبائل میں لگا ہوا کیمرہ بہت بڑا فتنہ ہے۔ اور ہم سوشل میڈیا کے عادی اس فتنے کا بُری طرح شکار ہیں۔

کسی کی مدد کرنی ہے تو اس کی عزتِ نفس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس کی تصویر بنا لینا۔
کسی راہ چلتے میں کچھ مختلف نظر آیا تو اس کی پرائیویسی کا قتل کرتے ہوئے اس کی ویڈیو بنا لینا۔
کوئی بوڑھا مزدوری کرتا نظر آیا تو اس کی اجازت لیے بغیر اسے کیمرے میں قید کر لینا۔
کوئی پریشان نظر آیا تو اس کی روتے ہوئے کی ویڈیو بنانے لگ جانا۔
کسی کی وفات ہو گئی تو میت کی تصویر بنا کر لگا دینا۔
کوئی خاتون موٹر سائیکل چلاتی نظر آ جائے تو کیمرہ کھول لینا۔۔۔

دوسروں کی حق تلفی کرنا ، ان کے پرائیویسی سے متعلقہ حقوق کی بے حرمتی کرنا اور اس سب کو سوشل میڈیا پہ لگا دینا ایک گھٹیا کام ہے۔ اگر آپ کبھی کسی کی بھی تصویر یا ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پہ لگا رہے ہیں تو اتنا ضرور خیال رکھا کریں کہ کہیں اس پوسٹ سے متعلقہ فرد یا اس کے کسی پیارے کو بُرا تو نہیں محسوس ہو گا ، کہیں اسے کسی قسم کی تکلیف تو نہیں ہو گی ، اگر اجازت ضروری تھی تو کیا میں نے اس سے اجازت لی ہے۔؟
اور کیا یہ سب سوشل میڈیا پہ لگانا بھی چاہیے ؟ کیا اخلاقی اور سماجی طور پہ اسے لگانا ٹھیک ہے ؟

اگر ذرا سا بھی امکان ہو کہ متعلقہ فرد کو یہ بات بُری لگ سکتی ہے یا اس پوسٹ کو لگانا غلط ہے تو اپنے دو چار سو لائیکس یا واہ واہ کے لیے ایسی تصویر یا ویڈیو سوشل میڈیا کی نذر نہ کیا کریں۔ اور اگر کوئی ایسا کر دے تو خدارا اس پوسٹ کو شیئر کر کر کے پوری دنیا تک نہ پہنچا دیا کریں۔

ایسی بہت سی تصاویر اور ویڈیوز کئی لوگوں  کے لیے مستقل تکلیف  کا باعث بن جاتی ہیں۔ خود کو اس تکلیف پیدا کرنے والے عمل کا حصہ نہ بنائیں۔

مثال کے طور پہ پچھلے   دنوں ایک مزدور کی ویڈیو وائرل ہو گئی جس میں وہ روتے ہوئے بتا رہا تھا کہ اس کو مزدوری کے پیسے نہیں ملے اور وہ اپنے بچوں کے لیے عید کے کپڑے نہیں لے سکا۔ ویڈیو بنانے والا کپڑے وغیرہ ہی تقسیم کر رہا تھا ، اس نے اس روتے ہوئے شخص کی مدد کی، اسے کپڑے وغیرہ بھی دیے لیکن یہ ساری ویڈیو سوشل میڈیا پہ لگا دی۔

اس مزدور کا چہرہ دھندلا کرنے کی کوشش بھی نہیں کی، اب اس مزدور کے کتنے ہی جاننے والے وہ ویڈیو دیکھ چکے ہوں گے۔ کتنے ہی عزیز دوست رشتے دار جن کے سامنے وہ اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوئے تھا، اس ویڈیو میں اسے روتا ہوا دیکھ لیں گے۔ اگر وہ کوئی حساس انسان ہوا تو آئندہ اس کے لیے اپنے دوستوں رشتے داروں کا سامنا کرنا مشکل ہو جائے گا،یا اگر اس کے بچے وہ ویڈیو دیکھ لیں تو انھیں اپنے باپ کو روتا ہوا دیکھ کر کتنی تکلیف ہو گی۔ یا اگر وہ چھوٹے ہیں تو کل کو بڑے ہو کر انھیں وہ ویڈیو نظر آ جائے تو ان پہ کیا گزرے گی۔؟

اس طرح کی کتنی ہی مثالیں سوشل میڈیا پہ موجود ہیں۔ جن میں ہم ایسی ہی کسی پوسٹ کو دھڑادھڑ شیئر کر رہے ہوتے ہیں ، جس میں دوسروں کی پرائیویسی متاثر ہو رہی ہوتی ہے۔ آپ سوشل میڈیا پہ کوئی تصویر یا ویڈیو لگانا ہی چاہتے ہیں تو اجازت لے کر لگائیں یا ایسی لگائیں جس میں کسی کو کچھ بُرا لگنے کا امکان نہ ہو۔ یا پھر چہرے ہی دھندلے کر دیا کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دوسروں کی عزت نفس کا خیال رکھیں، ان کے حقوق غصب نہ کریں۔ ورنہ غلطیاں کون نہیں کرتا ، بُرے دن کس پہ نہیں آتے ؟ مشکلات میں کون نہیں پھنستا؟
کہیں ایسا نہ ہو کہ خدانخواستہ کل کو کوئی آپ کی ایسی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پہ لگا دے جو ساری عمر آپ کے لیے شرمندگی کا باعث بنتی رہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply