ایک عورت کی عصمت کیا ہوتی ہے اسکا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ کہیں پڑھا تھا کہ شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ کسی پاکباز عورت پر بہتان لگانا ہے۔
رسول اللہ ص کے صحابہ نے کسی خاتون کے کردار پر شک کا اظہار کیا تو آپ ص نے پوچھا کسی نے اسے اس حالت میں دیکھا تو صحابہ نے کہا ، غیر مرد کو گھر داخل کر کے پردہ گراتے دیکھا۔ کیا دیانت و شرافت ہے کہ فرمایا پھر بھی اسے بدکردار نہ کہو۔
فرمان ہے کہ مسلمان وہ ہے جسکے ہاتھ اور زبان کے شر سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔ حقوق العباد ایک انسان کے مال، عزت ، ناموس اور جان کی دوسرے پر حرمت ہی کے گرد مزئین ہیں۔
قرآن پاک میں ایک جگہ ہے کہ جنگ میں اگر کفار کی “عصمتیں” تمہاری قید میں آ جائیں تو انہیں اپنے تسلط میں مت رکھو اور انہیں واپس لوٹا دو۔
پاکستان اس دین کے نام پر بنا تھا۔ ایسی بے شمار کہانیاں ہم نے سنیں کہ اس وقت کئی خواتین نے اپنی عصمت و ناموس بچانے کے لیے کنوؤں میں چھلانگیں لگا دیں۔
میں نے ایک انٹرویو دیکھا تو میرا وجدان مجھے وہاں لے گیا کہ آج ان پاکیزہ ترین خواتین کی روحیں ایک دوجے سے کہتی ہونگی ہم نے جس ملک کی خاطر قربانیاں دیتے ہوئے اپنی عصمتوں کی حفاظت میں جانیں قربان کر دیں۔ آج اس ملک میں نبیل گبول جیسے بھیڑیے ٹی وی پر بیٹھ کر بڑی ڈھٹائی سے ہماری اگلی نسلوں کی عصمتیں پامال کرنے کا اعتراف کرتے ہیں۔
آپ پاکستانی اخبار اٹھائیں ، سوشل میڈیا دیکھیں یا الیکٹرانک میڈیا۔ یہاں آئے روز اس طرح کی اندوہناک خبریں قوم کا دل دہلاتی ہیں کہ کسی غریب کی بیٹی کو اوباش اور اثرورسوخ رکھنے والوں نے ظلم و جبر کا نشانہ بنایا۔ بلکہ اب تو اس طرح کے الفاظ محض زیبِ تحریر ہی رہ گئے۔ اس قوم کا دل حقیقت میں دہلتا ہوتا تو نبیل گبول جیسے بے شرم بھلا اس طرح کی جرات کرتے۔؟
آج سے کچھ عرصہ قبل ایک ویڈیو سامنے آئی تھی جس کو دیکھ کر میری آنکھوں کو رات نیند نہ نصیب ہوئی تھی کہ ایک بچی کے ساتھ ظلم ہوا تھا اور اسکا باپ اسکا میڈیکل کرانے ہسپتال میں لائین میں لگا دھاڑیں مار رہا تھا اور وہ بچی اپنی اس ردا سے ابوجی ، ابوجی کرتے اسکے آنسو پونچھ رہی تھی۔
یہاں لڑکیاں پہلے زیادتی کا نشانہ بنتی ہیں اور پھر انصاف نہ ملنے پر اس جنگل سے زندگی کا منہ موڑ لیتی ہیں جو الٹا مظلوم کو طعنے دیتا ہے۔ غضب خدا کا آپ نے اکثر سنا ہو گا “بدنامی کے ڈر سے ” یعنی جس پر ظلم ہو وہی بدنام بھی ہوتا ہے اور نبیل گبول جیسے نیک نام ٹی وی پر بیٹھ کر بڑے فخر سے اعتراف کر رہے ہوتے ہیں۔
اس معاشرے میں نبیل گبول جیسے ہی ایک اور وڈیرے سے اپنی بہن کی عزت بچانے والا قتل کر دیا جاتا ہے اور قاتل وکٹری کا نشان بناتے کسی اور کی عزت و عصمت پر ہاتھ ڈالنے کے لیے آزاد کر دیا جاتا ہے۔
یہ وہ جنگل ہے جہاں زینب نامی بچی کے ساتھ ظلم و زیادتی اور قتل پر ہر آنکھ اشکبار ہوتی ہے اور حاکم اسکا مائیک بند کر کے اسکی لاش کے دس ہزار روپے مانگنے والی پولیس کے لیے تالیاں بجانے کا کہتا ہے۔
آپ اندازہ لگائیں اس ملک کی دس کروڑ عصمتوں کی محافظ پارلیمان کا یہ نمائندہ ہے جو گفتگو شروع یہاں سے کرتا ہے کہ میرے بچے آج کل مجھے سمجھاتے ہیں کہ بابا آپ ٹی وی پر جا کر بہت فری گفتگو کرتے ہیں اور سامنے بیٹھا ہوا نادر علی نام کا جوکر جس نے اس انٹرویو میں وہ گفتگو کی جو کوئی تھڑے باز بھی نہ کرے وہ اس سے کہتا ہے آپ اپنے بچوں سے کہیں میں بہت blunt ہوں۔ اور ساتھ ہی نبیل گبول کہتا ہے کہ آپ کراچی والے تو ۔۔۔۔۔۔میں دہرا نہیں سکتا لیکن ہم لیاری والے جو پسند آ گئی بس اٹھا لی ،اپنی ہو گئی۔
کاش کہ یہ کوئی ملک ہوتا کوئی سماج ہوتا کوئی قوم ہوتی یہاں کوئی آئین و قانون ہوتا تو اس بے شرم آدمی کو اور اسکے سامنے بیٹھے لقمے دینے والے سستے مداری کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا کہ آئندہ کسی کی جرات نہ ہوتی۔
اسی نبیل گبول نے Rape کے متعلق بھی ایسا گھٹیا بیان دیا اور اسکی وضاحت میں بھی معافی مانگنے کے باوجود بے شرمی سے دانت نکالتے ہوئے کہا کہ میرا بیان سیاق و سباق سے ہٹا کر میرے مخالف پیش کر رہے ہیں۔
ایک بیٹی کا باپ ہوں دن بہ دن انشاللہ پختہ ارادہ کرتا جا رہا ہوں کہ خدا توفیق دے تو اپنے دونوں بچوں کو کسی ایسے ملک میں کسی ایسے سماج میں آباد کروں گا جہاں اسلامی و مشرقی اقدار و روایات محض جوشِ خطابت میں بیچنے کے کام نہ آتی ہوں۔
جہاں کی ایک اسلامی جمہوریہ قوم کو ان سرداروں نے یوں فتح نہ کیا ہو کہ ہماری بیٹیاں “جو پسند آ گئی اٹھا لی ” کے مصداق کوئی مالِ غنیمت سمجھی جائیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں