• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سعودی بادشاہت- خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی/نذر حافی

سعودی بادشاہت- خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی/نذر حافی

آج شیخ سلمان العودہ کی بات ہو جائے۔ ویسے بھی انہیں اگلے چند دنوں میں پھانسی ہو جائے گی۔ ان کے بارے میں یہ بھی جان لیجئے کہ وہ مسلکی اعتبار سے وہابی ہونے کی وجہ سے اہلِ سُنت اور اہلِ تشیع کے سخت مخالف ہیں۔ اُن کی اس مخالفت پر بحث کی گنجائش اپنی جگہ موجود ہے۔ فی الحال ہم بحث برائے بحث سے بچتے ہوئے اُن کی پھانسی کی بات کرتے ہیں۔ پھانسی گھاٹ پر رنگ، تصویر اور آواز کی آمیزش کی ٹیکنالوجی کا پہرہ ہے۔ بادشاہوں کی طرف سے عام لوگوں کے ساتھ ماضی میں بھی جو کچھ ہُوا، وہ کبھی منظرِ عام پر نہیں آسکا۔ آج بھی کم لوگ ہی جانتے ہوں گے کہ عرب دنیا شیخ سلمان العودہ کو ایک معروف وہابی عالمِ دین، محقق، مصنف، لکھاری اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کے طور پر پہچانتی ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص، ایک عالمِ دین، محقق، مصنف، لکھاری، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ بھی ہو اور حکومت، سماج و نیز تعلیم و تربیت سمیت تمام شعبہ ہای زندگی میں اصلاح اور بہتری کی بات نہ کرے۔

شیخ سلمان العودہ پر اپنے استاد محمد سرور زین العابدین، اس کے علاوہ سید قطب و حسن البنا یعنی اخوان المسلمین کے فکری اثرات قابلِ مشاہدہ ہیں۔ ان کا اصلاحی جذبہ اپنی جگہ قابلِ تحسین ہے، مگر اصلاح اور بہتری کی بات جمہوری ریاستوں میں تو قابلِ ہضم ہے، لیکن آمرانہ بادشاہتوں میں انتہائی خطرناک۔ اسی وجہ سے سعودی حکومت نے انہیں انتہائی خطرناک افراد میں شامل کرکے اُن پر وطن سے غدّاری جیسے سنگین الزامات عائد کر رکھے ہیں۔ سعودی حکومت کی داخلی سیاست کے حوالے سے ان کا ایک اصلاحی خط بہت مشہور ہے، جو انہوں نے 1990ء میں سعودی بادشاہ کے نام لکھا تھا۔ اس خط میں سلمان العودہ نے سعودی حکومت کے عدالتی نظام، بیوروکریسی اور سکیورٹی کے ڈھانچے میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا تھا۔جب ایک سال بغیر کسی جواب کے گزر گیا تو انہوں نے ایک سو علماء کے ساتھ مل کر ایک اور خط لکھا۔ اس خط میں انہوں نے اصلاحات کے لیے ایک مجوزہ تفصیلی پروگرام ارسال کیا۔

ان کا خیال تھا کہ ان کی تجاویز کو حکومت سنجیدگی سے لے گی اور یہ تجاویز حکومت کی مشکلات کو کم کرنے کا باعث بنیں گی، تاہم ایسا نہیں ہوا۔ اگرچہ بادشاہ فہد بن عبدالعزیز نے ان خطوط کی روشنی میں ایک برائے نام شوریٰ تو تشکیل دی، لیکن دوسرے خط کے بعد سلمان العودہ اور اُن کے ہم فکر علماء کو مختلف بہانوں سے یکے بعد دیگرے گرفتار کرنا بھی شروع کر دیا گیا، یہانتک کہ 1994ء میں شیخ کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ پانچ سال کے دوران انہیں سخت شکنجہ دیا گیا، بالآخر وحشیانہ تشدد برداشت کرنے اور سخت قید کاٹنے کے بعد وہ 1999ء میں رہا ہوئے۔اس کشمکش کے ہمراہ سعودی حکومت اور شیخ دونوں نے ایک دوسرے کے قریب آنے کی بہت کوشش کی۔ سعودی عرب کے سرکاری ٹیلی ویژن پر شیخ کا ایک پروگرام بھی کچھ عرصہ چلتا رہا۔ جب 2011ء میں عرب دنیا میں عرب بہار نے انگڑائی لی تو شیخ نے عوامی مظاہروں کی حمایت شروع کر دی۔ یہ حمایت سعودی عرب کیلئے خطرے کی گھنٹی تھی، اس کے بعد شیخ کو دوبارہ حکومتی اعتاب کا سامنا کرنا پڑا۔

2015ء میں سعودی عرب کے موجودہ بادشاہ ملک سلمان بن عبدالعزیز نے بادشاہت کے منصب تک پہنچنے کیلئے شیخ کی عوامی مقبولیت سے بہت فائدہ اٹھایا۔ ابتدائی دو سالوں میں شیخ کو کافی مراعات بھی دیں۔ دو سال کے بعد 2017ء میں سعودی عرب اور قطر کے درمیان اختلاف نے ایک مرتبہ پھر صورتحال بدل دی۔ شیخ کو ایک ٹویٹ کرنے کے جُرم میں گرفتار کر لیا گیا۔ اپنے ٹویٹ میں موصوف نے سعودی عرب اور قطر کے درمیان صلح کی بات اور دعا کی تھی۔ شیخ سلمان العودہ کا نام ایک بڑے معترض کے طور پر تب بھی سامنے آیا تھا کہ جب سعودی عرب کے سرکاری مفتی شیخ عبدالعزیز بن باز کے فتوے سے امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تھا۔ شیخ سلمان العودہ کا کہنا تھا کہ ہرگز مسلمانوں کی سرزمین سے کفّار و مشرکین کی مدد نہیں ہونی چاہیئے۔

شیخ نے 2004ء میں عراق پر امریکی حملے کے بعد یہ بیان دیا تھا کہ امریکیوں کے خلاف جہاد ہر اس شخص پر فرض ہے، جو استطاعت رکھتا ہو اور یہ ایک دفاعی جہاد ہے، ابتدائی نہیں، اس جہاد کیلئے امام و رہنماء کی ضرورت نہیں۔[1] سلمان عودہ نے یہ بھی کہا ہے کہ فلسطین میں اسرائیل کے ساتھ جنگ اور عراق میں امریکی قبضے کے خلاف لڑائی واجب ہے اور عراق کے کسی بھی قبیلے بشمول شیعہ، سنی اور کرد کے ساتھ کوئی لڑائی جائز نہیں اور ہم تکفیری نہیں ہیں۔[2] نائن الیون کے بعد، سلمان عودہ نے اسامہ بن لادن کو ایک خط میں القاعدہ سے کنارہ کشی اور لاتعلقی اختیار کرنے کا کہا نیز ایمن الظواہری کو بھی قتل و غارت روکنے کیلئے کہا۔[3] ابھی اگلے ہی چند دنوں میں ان کی سزائے موت پر عملدرآمد ہونا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ خاشقچی اور شیخ نمر کے قتل کے بعد یہ ایک بڑا قتل محسوب ہوگا۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ شیعہ کمیونٹی کی بہت ساری قدآور شخصیات بھی اسی سیاسی مخالفت کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتاری جا چکی ہیں۔ اُن کے بارے میں کہیں کوئی بات نہیں ہوتی، چونکہ اُن پر ایران نوازی کا لیبل لگا کر دنیا کو خاموش کرا دیا جاتا ہے۔

سعودی عرب میں جمہوریت کا نہ ہونا ایک الگ مسئلہ ہے اور اختلافِ رائے کو غدّاری قرار دے کر سیاسی ناقدین کا عدالتی قتل کروا دینا، یہ ایک الگ واردات ہے۔ البتہ ہمیں اس سے انکار نہیں کہ استبدادی ریاستوں میں ایسا ہونا ہی اُن کی بقا کا لازمہ ہے۔شیخ سلمان العودہ سمیت ایسی سینکڑوں وہابی، سُنی، سلفی و شیعہ شخصیات اس وقت سعودی جیلوں میں پابندِ سلاسل ہیں، جنہیں کسی بھی صورت میں اسرائیل کے ساتھ سعودی تعلقات ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ اسرائیل کا مخالف ہونے میں میں وہاں شیعہ و سُنّی اور وہابی کا بھی فرق نہیں۔ یہ ایک شیخ سلمان العودہ کی کتھا نہیں بلکہ ایسے سینکڑوں لوگ اس وقت سعودی عرب کی جیلوں میں گل سڑ رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں کچھ بات اُن سادہ دِل لوگوں سے بھی ہو جائے، جو یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ اگر خدا نہ چاہے تو سعودی بادشاہوں کو حکومت کیوں دے۔؟ انہیں یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ شیخ نے اپنی پھانسی کے حکمنامے کے بعد سعودی بادشاہوں سے کہا ہے کہ “الله کی عدالت میں بدلہ لوں گا تم سے۔” اللہ کا نام بیچ میں آیا ہے تو یاد رکھئے! بادشاہت، آمریت، استبدادیت اور جبر جہاں کہیں بھی ہو، خدا کی سُنّت یہ ہے کہ جب تک لوگ خود حق کیلئے قیام نہیں کرتے تو خدا بھی حق کو غلبہ عطا نہیں کرتا۔ بقول مولانا ظفر علی خان:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترکی دخیل، سلمان العوده من السجن الی التنویر، ص 98.
[2] ایضا ص ۱۱۱
[3] سلمان العودة خلال عشرين عاما ـ إبراهيم الربيش، ص 8

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply