چھوٹی عمر کے بچے اور رَسمی تعلیم کا ’’عذاب‘‘

بچوں کی رسمی تعلیم کا عمل کس عمر سے شروع کیا جائے اور ابتدائی تعلیم کے مندرجات اور ترجیحات کیا ہونی چاہییں؟ یہ کسی بھی معاشرے میں تعلیمی نظام سے متعلق سوالات میں ایک بنیادی اور اہم ترین سوال ہے۔ ہمارے ہاں جدید تمدن کے زیر اثر پروان چڑھنے والا ایک نہایت لا یعنی رجحان بہت چھوٹی عمر میں بچوں کو رسمی تعلیمی اداروں کے سپرد کر دینے کا پیدا ہوا ہے جو کاروباری محرکات کے تحت روز بروز فروغ پا رہا ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ دنوں راقم نے سوشل میڈیا پر اپنے ذاتی تجربے کا ذکر کیا تو قارئین کے رسپانس سے اندازہ ہوا کہ اس بات کا احساس کافی عام ہے اور اس بات کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ اس رجحان کے مفاسد اور مضرات پر گفتگو کی جائے۔

اس رجحان کا بنیادی منبع تو ہماری اشرافیہ کا، مغربی معاشروں کی اندھی نقالی کا وہ شوق ہے جس کے زیر اثر اہل مغرب کی ہر بات کو جدت اور ترقی کا ایک لازمہ سمجھ کر اختیار کرنا فرض سمجھا جاتا ہے، جبکہ مغربی معاشرتی روایات کے مخصوص سماجی تناظر نیز ان کے منفی وضرر رساں پہلووں پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ اشرافیہ کے اختیار کردہ رجحانات کو اگلے مرحلے پر متوسط طبقوں میں فروغ ملتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ اسے ایک عام معاشرتی روایت کا درجہ حاصل ہوتا چلا جاتا ہے۔
بچپن کی عمر دراصل بچوں کے کھیلنے کودنے، معصوم شرارتیں کرنے اور گھرکے مانوس ماحول میں ماں باپ کا لاڈ پیار دیکھنے کی عمر ہوتی ہے۔ بچے کی وابستگی ماں باپ کے ساتھ بہت گہری ہوتی ہے اور خاص طور پر اپنے ذاتی نوعیت کے مسائل کے لیے ماں اس کے لیے سب سے زیادہ قابل اعتماد ہستی ہوتی ہے۔ بچوں کی تعلیم کا عمل اسی ماحول میں ایسے طریقے سے شروع ہونا چاہیے کہ وہ اسے کوئی ذمہ داری یا بوجھ نہ سمجھیں، بلکہ فطری رغبت اور اشتیاق کے ساتھ اس کی طرف مائل ہوں۔ بچہ ویسے بھی سیکھنے کی ایک فطری خواہش رکھتا ہے اور اگر اس کی نفسیات کا لحاظ رکھتے ہوئے گھر کے ماحول میں ہی غیر رسمی انداز میں اس کے لیے سیکھنے کا ماحول پیدا کیا جائے تو وہ رسمی تعلیم کے اس نظام سے کہیں زیادہ موثر اور مفید ہو سکتا ہے جس میں اوسطاً چار سال کے بچے کو جبر اور دھونس سے کام لے کر اسکول جانے پر مجبور کیا جاتا ہے جہاں بسا اوقات بچہ پیشاب پاخانے جیسی ذاتی اور نجی ضروریات کے لیے بھی بالکل اجنبی افراد کی مدد لینے پر مجبور ہوتا ہے، حالانکہ اپنے گھر کے ماحول میں وہ ایسی ضروریات کے لیے ماں کے علاوہ عموماً گھر کے دوسرے افراد سے بھی مدد لینا قبول نہیں کرتا۔

رسمی تعلیم کے اداروں میں ابتدائی ایک آدھ سال کے بعد بچوں کی تعلیم کا یومیہ دورانیہ کم وبیش اپنے سے دوگنی عمر کے بچوں کے برابر ہو جاتا ہے اور وہ دن کا زیادہ تر حصہ تعلیمی ادارے میں گزارنے کے پابند ہوتے ہیں۔ پھر اس پر بس نہیں کی جاتی، بلکہ ہوم ورک کی صورت میں بچوں کے گھر کا سکون برباد کرنے کا مزید اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ نظم وضبط کی پابندی، تعلیمی ذمہ داریوں کے بوجھ اور مواخذے اور جواب دہی کے تصور سے یک بارگی واسطہ پڑنا بچوں کے لیے سوہان روح بن جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جب تعلیم کے عمل سے مجرمانہ ناواقفیت کی وجہ سے ان پر بیک وقت کئی قسم کے مضامین سیکھنے کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے تو ان کی شخصیت غیر معمولی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس سے بہت سے بچوں کی جسمانی نشو ونما بھی متاثر ہوتی ہے، جبکہ تعلیم کے حوالے سے ناپسندیدگی کا ایک عمومی احساس ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس حوالے سے والدین اور تعلیمی اداروں کے منتظمین کی فکری تربیت کی ضرورت ہے۔ تعلیم اور سماجی شعور کی عمومی کمی کی وجہ سے زیادہ تر والدین اس ضمن میں ازخود کوئی شعوری فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ وہ ماحول کے عمومی چلن کو دیکھتے ہیں اور اسی کو صحیح اور بہتر سمجھ کر اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ تاہم اگر انھیں بچے کی نفسیات اور تعلیمی عمل سے متعلق کچھ بنیادی حقائق کا شعور مل جائے توان سے بہتر فیصلوں کی توقع کی جا سکتی ہے۔ تعلیمی اداروں کے منتظمین کی سوچ اور ترجیحات میں بھی شعوری تبدیلی لانے اور انھیں یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ تعلیم محض ایک کاروبار نہیں، بلکہ اس کے ساتھ نئی نسل کی تعمیر شخصیت کا نہایت اہم اور نازک سوال وابستہ ہے۔ تعلیمی ادارے اگر چھوٹی عمر کے بچوں کو اسکول میں لانے کے بجائے والدین کے لیے ایسے تعلیمی وتربیتی پروگراموں کا آغاز کریں جن میں انھیں گھر کے ماحول کو بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے زیادہ سازگار اور موثر بنانے کے طریقے سکھائے جائیں تو یہ معاشرے اور قوم کی زیادہ قابل قدر اور قابل تحسین خدمت ہوگی۔

Facebook Comments

عمار خان ناصر
مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply