ایٹم کی اصلی تصویر/تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

اس  تصویر کو غور سے دیکھیں۔ اس تصویر کے درمیان میں ایک روشن نقطہ ہے۔ یہ دراصل ایک ایٹم ہے۔ آپ اپنی انکھوں سے پہلے ایٹم کی تصویر دیکھ رہے ہیں۔ سہولت کے لیے دوسری تصویر زوم کر کے دکھائی گئی ہے۔ جس میں آپ ایک روشنی خارج کرتے ایٹم کو دیکھ سکتے ہیں۔ مگر یہ کیسے ؟

اس سے پہلے ذرا یہ جان لیں کہ ایٹم کا سائز کیا ہوتا ہے۔ ایٹم کا سائز اس بات پر منحصر ہے کہ وہ کونسے عنصر کا ایٹم ہے اور اسکے مرکزے کے گرد کتنے الیکٹران ہیں۔مثال کے طور پر ہائیڈروجن کا سادہ سا ایٹم جسکے مرکزے میں ایک پروٹان اور اسکے گرد ایک الیکٹران ہے اسکا سائز 0.025 نینومیٹر ہے ۔ ایک نینومیٹر ایک میٹر کا اربواں حصہ ہوتا ہے یا ایک ملی میٹر کا دس لاکھواں حصہ۔ یعنی کہ بے حد چھوٹا۔ اسی طرح سونے کا ایٹم ہائڈروجن کے ایٹم سے بڑا ہوتا ہے کیونکہ اس میں 79 پروٹان ہوتے ہیں اور یہ ہائڈروجن سے سائز میں تقریباً دس گنا بڑا ہوتا ہے یعنی 0.14 نینومیٹر ۔

اب اتنے کم سائز کو انسانی آنکھ کیسے دیکھ سکتی ہے؟ ایک انسان کے باریک بال کی موٹائی 0.04 ملی میٹر تک ہوتی ہے جسے آپ غور کرنے پر دیکھ سکتے ہیں۔ ایک صحتمند انسانی آنکھ شاید ایک باریک بال کی آدھی موٹائی تک کی چیزوں کو یعنی 0.02 ملی میٹر تک کی سائز کی چیزوں کو دیکھ سکتی ہے۔

مگر ایک ایٹم چاہے جتنا بھی بڑا ہو یہ بہرحال انسانی آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا ۔ مگر رکیے!! تو پھر اس تصویر میں ہم ایٹم کو کیسے دیکھ رہے ہیں وہ بھی بغیر کسی مائیکروسکوپ کے۔

بہت سے لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ کیا ایٹم کو مائیکروسکوپ سے دیکھا جا سکتا ہے؟

اسکا جواب ہے جی بالکل دیکھا جا سکتا ہے مگر اسکے لیے خاص طرح کی مائیکروسکوپ درکار ہے جسے “سکینگ الیکٹران مائیکروسکوپ” کہتے ہیں۔ عام مائیکروسکوپ جو آپ نے شاید سکول کے زمانے میں لیبز میں دیکھی ہو یہ عدسوں کی مدد سے روشنی کو آپکی آنکھ پر اکٹھا کر کے ہمیں چھوٹے سے بیکٹریا یا خلیے کو ایسے  دکھاتی ہے جیسے یہ کسی بڑی شے سے ٹکرا کر آ رہے ہوں۔ گویا روشنی ان چھوٹی چیزوں پر پڑ کر عدسوں کی مدد سے فوکس ہوتی ہے اور یہ روشنی ہماری آنکھ تک پہنچتی ہے جس سے ہم چھوٹی چیزوں کو بڑے  سائز میں دیکھتے ہیں۔

البتہ سکینیگ الیکٹران مائیکروسکوپ میں ہم روشنی کی بجائے الیکٹرانز کی مدد سے چیزوں کی تصاویر لیتے ہیں۔ اس مائیکروسکوپ سے الیکٹرانز تیزی سے نکل کر ایٹموں سے ٹکراتے ہیں اور پھر ہر طرف بکھرتے ہیں۔۔جو الیکٹرانز ایٹموں سے ٹکرا کر واپس آتے ہیں اُنہیں مقناطیسی عدسوں کی مدد سے فوکس کیا جاتا ہے اور یوں ہم کسی خاص جگہ پر ایٹم کی موجودگی سے اسکی تصویر بناتے ہیں۔

اب آتے ہیں اس سوال پر کہ زیرِ نظر تصویر میں آپ روشنی کی مدد سے ایک ایٹم کو کیسے دیکھ رہے ہیں؟ تو یہ تصویر دراصل 7 اگست 2017 میں برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک پی ایچ ڈی سٹوڈنٹ ڈیوڈ ناڈلینگر نے اپنی لیب میں ڈی ایس ایل آر کیمرے، لیزر اور آئن ٹریپ میں قید سٹورنیم کے ایٹم کی لی ہے۔ جناب نے سٹورنٹیم (ایٹامک نمبر 38) کے ایٹم کا پازیٹو آئن بنا کر(اس سے چند الیکٹران نکال کر) اسکو ویکیوم چیمبر میں دو عدد دھاتی الیکٹروڈ(جو سائڈ پر ہیں) کی مدد سے طاقتور برقیاتی فیلڈز میں ایسے پھنسایا جیسے رضیہ غنڈوں میں پھنستی ہے اور پھر اس پر لیزر کی دے شعاعیں ماریں  کہ بیچارہ سٹورنٹیم کا ایٹم ان شعاعوں کو جذب کر کے خارج کرنے پر مجبور ہو گیا اور یوں اتنا چمکا کہ اسے اس ناہنجار ڈیوڈ نے کیمرے کی آنکھ میں قید کر کے پوری دنیا کے سامنے عیاں کر دیا۔

ایٹم کی اس تصویر پر ڈیوڈ کو برطانیہ کی انجنیئرنگ اور فزیکل ریسرچ کونسل کی جانب سے سائنس کا فوٹوگرافی انعام دیا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سو اب آپ نے ایٹم کو اپنی آنکھ سے دیکھ لیا ہے۔ اب آپ سکون سے جی سکتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply