• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • میرا جسم میری مرضی ہوتی تو میں خواجہ سراء نہ ہوتا/ثاقب لقمان قریشی

میرا جسم میری مرضی ہوتی تو میں خواجہ سراء نہ ہوتا/ثاقب لقمان قریشی

دنیا چلانے والی طاقتوں نے پورے نظام کو اس طرح کنٹرول کر رکھا ہے کہ انکی مرضی کے بغیر کوئی انقلاب اور تبدیلی کی لہر نہ چل سکتی ہے اور نہ ہی کامیاب ہوسکتی ہے۔ جب بھی انسانی حقوق کی کوئی لہر سر اٹھانے لگتی ہے تو اگر یہ لہر سامراج کے مفاد میں ہو تو کامیاب ہو جاتی ہے اور اگر انکے مفادات کے خلاف ہو تو کچھ عرصے بعد دم توڑ دیتی ہے۔

سامراج کا مقصد انسانی حقوق، روشن خیالی، کرپشن سے پاک معاشرہ نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ سماج کو تقسیم در تقسیم کرتا ہے اور پھر منتشر نظام سے اپنا فائدہ تلاش کرنے کوشش کرتا ہے۔

برطانیہ کو سامراج نے سپر پاور بنایا تھا۔ پھر بادشاہوں کی سامراج دشمن پالیسیوں کی وجہ سے دنیا پر حکومت کا تاج امریکہ کے سر پر رکھ دیا گیا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ دونوں ممالک میں کام کرنے والا جرائم کا کوئی بڑا مافیا یا انسانی حقوق کی کوئی تحریک چلے اور سامراج کا ہاتھ نہ ہو۔؟

امریکہ اور برطانیہ میں خواتین کے حقوق کے لیئے چلنے والی تحریکوں کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک سوال میرے ذہن میں گردش کر رہا تھا کہ انھیں سپر پاور بنانے والی قوتوں کے تعاون کے بغیر یہ تحریکیں کیسے چلیں؟

خواتین کے حقوق کی ان تحریکوں میں سیاہ فام اور معذور خواتین نے بھر پور شرکت کی لیکن حقوق ملنے کے بعد سفید فام خواتین نے انکی جدوجہد کو نظر انداز کر دیا۔

وطن عزیز میں خواتین کے حقوق کے لیئے چلنے والی عورت مارچ کا آغاز کراچی کی کچھ این-جی-اوز اور امیر گھرانوں کی خواتین نے کیا۔ ہمارے ملک میں جس تبدیلی کیلئے امیر لوگ گھروں سے باہر نکلتے ہیں ایسی تبدیلی نے کبھی ملک کو فائدہ نہیں پہنچایا۔

عورت مارچ شروع کرنے کا مقصد معاشرے کو تقسیم در تقسیم کرنا تھا۔ اسکے ردعمل کے طور پر دینی جماعتوں نے حیا مارچ شروع کر دیا۔ ہر سال مارچ کے مہینے میں عورت مارچ اور حیا مارچ کا ایک دوسرے سے ٹکراؤ ہوتا ہے۔ عورت مارچ آزادی کی بات کرتا  ہے تو حیا مارچ دین کے حوالوں سے خواتین کے حقوق کو اجاگر کرنے کوشش کرتا  ہے۔ ایک دوسرے پر الزامات لگا کے دونوں مارچ کی خواتین گھر چلی جاتی ہیں۔ پھر سارا سال خواتین پر ظلم کے واقعات پر دونوں مارچ کی خواتین خاموش رہتی ہیں۔

عورت مارچ نے معاشرے کے ساتھ خواجہ سراء اور خصوصی افراد کی کمیونٹی کو بھی تقسیم کر دیا ہے۔ کچھ اعلیٰ  تعلیم یافتہ خصوصی لڑکیوں نے عورت مارچ میں جانے کا فیصلہ کیا۔ مجھ سے مشورہ کیا تو میں نے کہا آپ چلی جائیں لیکن یہ نہ تو آپ کے حقوق کی بات کریں گی  اور نہ ہی آپ کو اہمیت دیں گی، انھوں کہا کیوں؟ تو میں نے کہا کہ یہ میں نہیں کہہ  رہا ،یہ عورت مارچ کی تاریخ بتا رہی ہے۔ وہیل چیئر پر بیٹھی ہماری دونوں دوستوں نے متعدد ایم-اے کیے ہوئے ہیں۔ دونوں سرکاری ملازم ہیں۔ مارچ سے واپسی کے بعد انھوں نے کہا آپ درست فرما رہے تھے۔

اسی طرح عورت مارچ نے خواجہ سراء کمیونٹی کو بھی تقسیم کر دیا ہے۔ بہت سے پڑھے لکھے خواجہ سراء ہر سال عورت مارچ میں نظر آتے ہیں۔ لیکن ان پر ظلم اور زیادتی کے واقعات پر کبھی کسی عورت مارچ یا حیا مارچ نے آواز نہیں اٹھائی۔

ساہیوال سے تعلق رکھنے والی ہماری مرحوم دوست انمول رضا بخاری نے انٹرویو کے دوران ہمیں بتایا تھا کہ خواجہ سراء عمر بھر خود کو عورت ظاہر کرنے میں برباد کر دیتے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ ہر سال عورت مارچ میں خواجہ سراء کمیونٹی کے بہت سے پڑھے لکھے لیڈرز بینرز اٹھائے نظر آتے ہیں۔

میڈم صباء گل خواجہ سراء کمیونٹی کی سینئر ایکٹوسٹ ہیں۔ پچھلے سال میڈم نے خواجہ سراؤں کے گرو چیلہ سسٹم کے خلاف آواز اٹھائی۔ یہ آواز اتنی مضبوط تھی کہ پورے ملک کے خواجہ سراؤں نے اس پر لبیک کہا۔ میڈم صباء اب تک 90 ہزار سے زائد خواجہ سراؤں کو گرو چیلہ سسٹم سے آزادی دلوا چکی ہیں۔ میڈم صباء کو بہت سے گرو جان سے مارنے کی دھمکیاں دے چکے ہیں۔ لیکن میڈم نے ہار نہیں مانی یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

میڈم صباء گزشتہ برس سے عورت مارچ کے خلاف بھر پور احتجاج کر رہی ہیں۔ عورت مارچ اور ہم جنس پرستوں کی طرف سے میڈم صباء کو دھمکیاں مل رہی ہیں۔ جس کا اظہار وہ بہت سے نیوز چینلز کے سامنے کر چکی ہیں۔

میڈم کہتی ہیں کہ دو سال پہلے انھیں عورت مارچ میں شرکت کی دعوت ملی۔ اس دوران انھیں بڑے عجیب و غریب مناظر کا سامنا کرنا پڑا۔ کہیں خواتین کے کپڑے لٹکے نظر آئے تو کہیں بینرز پر غیر اخلاقی تصاویر نظر آئیں۔ عورت مارچ کے نعرے میڈم کیلئے ناقابل برداشت تھے۔

میڈم کہتی ہیں میرا جسم میری مرضی ہو ہی نہیں سکتا۔ اگر ایسا ہوتا تو میں آج خواجہ سراء کیوں ہوں؟ میں عام انسان کیوں نہیں ہوں؟ جسم بھی اللہ کا ہے اور مرضی بھی اسی کی ہے۔ میری کیا اوقات ہے۔

میڈم کا ماننا ہے کہ مختلف مغربی ممالک کے ایل-جی-بی-ٹی گروپ عورت مارچ اور ہم جنس پرستی کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ میڈم کہتی ہیں کہ جس طرح انھوں نے خواجہ سراؤں کو گرو چیلہ سسٹم سے آزادی دلوائی ہے۔ اسی طرح یہ عورت مارچ کی سازش کو بھی بے نقاب کر کے رہیں گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں سمجھتا ہوں کہ جس دن غریب خواتین مہنگائی کے خلاف گھر سے باہر نکلیں گی ، پڑھی لکھی لڑکیاں سی-ویز اٹھا کر نوکری کا مطالبہ کریں گی۔ لڑکیاں جہیز لینے والے گھروں کے باہر دھرنا دیں گی۔ ہراسانی کرنے والوں کے خلاف ڈنڈا بردار فورس بنائیں گی ، اس دن حقیقی عورت مارچ کا آغاز ہوگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply