نانی کے گھر کا کرایہ تین روپے/توصیف ملک

میری عمر بمشکل بارہ تیرہ سال ہو گی ، ویسے تو اس عمر میں سب سے زیادہ ایکسائٹمنٹ والی چیز نانی  کے گھر جانا ہوتا تھا لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ میں اکیلا جا رہا تھا۔
براؤن رنگ کی ڈریس پینٹ پر چیک والی شرٹ پہنی ہوئی تھی ، مجھے وہ کالے رنگ کی بیلٹ ابھی تک یاد ہے جو کہ میرے سائز کے حساب سے بڑی تھی لیکن اس کو آگے بڑھا کر ایڈجسٹ کر لیا ہوا تھا ، گیلے بالوں میں نفاست سے کنگھی کرکے ایک سائیڈ کی مانگ نکالی ہوئی تھی ، میچنگ شوز تو موجود نہیں تھے اسی لئے کالے رنگ کے سکول شوز ہی آنے جانے کے لیے استعمال ہو جاتے تھے اور اب باٹا کے وہی جوتے پہنے ہوئے تھے۔
ماں نے فکر مندی لیکن ایک احساس ِ تفاخر سے روانہ کیا ، بوسہ دیتے ہوئے ساتھ ساتھ نصیحتیں بھی جاری تھیں اور یہ تاکید بھی تھی کہ وہاں پہنچ کر سب سے پہلے ماموں سے کہہ کر فون ضرور کروانا،گھر کا نمبر یاد ہے نا ؟

مجھے چھوڑنے گوالمنڈی والے گھر کے باہر جالی والے دروازے تک آئیں اور اس وقت تک مجھے پیچھے سے دیکھتی رہیں، جب تک میں گلی کا موڑ مڑ کر نظروں سے اوجھل نہیں ہو گیا،کرشنا گلیوں میں ابھی تک الیکشن کے پوسٹرز دیواروں پر لگے ہوئے تھے ، پاکستان مسلم لیگ کا امیدوار میاں نواز شریف تھا جو کہ یہاں سے منتخب ہو چکا تھا ، پوسٹر پر پارٹی لیڈر نواز شریف کی تصویر اور ساتھ سائیکل کا نشان بھی موجود تھا۔

بانسانوالا بازار شروع ہونے سے پہلے استعمال شدہ بوریوں کی بُو شروع ہو چکی تھی ، یہاں ان دکانداروں کے گودام موجود تھے جن کی بانسانوالا بازار میں باردانے کی دکانیں تھیں ، اسی وجہ سے یہاں چوہوں کی بھی بھرمار ہوتی تھی ، آٹا ، چینی ، دالیں ، سیمنٹ اور مختلف کیمیکلز کے استعمال شدہ توڑے بوریوں کی یہیں پر خریدوفروخت ہوتی تھی ، بانسانوالا بازار کی تمام دکانیں ہندو اوقاف کی تھیں ، کیونکہ بانسانوالا بازار میں پہلے ایک سرائے ہوتی تھی اور یہیں پر ایک مندر بھی تھا جو کہ بابری مسجد والے سانحے کے بعد بلوائیوں نے ڈھا دیا تھا لیکن اس کی باقیات ابھی بھی موجود ہیں اور کچھ لوگوں نے وہاں قبضہ کرکے ایک مصلیٰ بھی بنا دیا تھا جس میں باقاعدہ با جماعت نماز بھی کروائی جاتی تھی ، مندر کی عمارت میں نماز پڑھانا شاید ان کے لیے اسلام کی بہت بڑی فتح اور ایک قسم کا بدلہ لینا تھا
شاہ عالم چوک میں تانگے کا اڈہ  موجود تھا جہاں ہر وقت چار پانچ تانگے سواریاں بٹھانے کے لیے آگے پیچھے موجود رہتے تھے ، کوچوان دہلی دروازے دہلی دروازے کی آوازیں لگاتا رہتا تھا ، اکثر تانگے دہلی دروازے سے واپس آ جاتے تھے جبکہ اکّا دُکّا اس سے آگے شاد باغ تک بھی جاتے تھے۔

شاہ عالمی چوک جسے عرف عام میں شالمی بھی کہا جاتا ہے پہنچ کر مَیں بھی کسی تانگے کو ڈھونڈنے لگ گیا ، مجھے یکی دروازے جانا تھا ، دراصل نانی گھر شیرانوالہ دروازے کے پاس تھا لیکن چونکہ اندرون لاہور کے تمام بارہ دراوازے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ، اس لیے میری منزل کا راستہ یکی دروازے سے قریب تھا۔

ان تانگوں کے تقریباً ہر سٹاپ پر پانی کی ایک ہودی بنی ہوتی تھی جہاں گھوڑے پانی پیتے تھے ، ہودی ایک قسم کا چھوٹا سا حوض ہوتا تھا جسے صرف گھوڑوں کے لیے بنایا گیا ہوتا تھا ، ہر ہودی کے قریب گھاس بیچنے والا بھی موجود ہوتا تھا۔

میرے وہاں پہنچنے پر تانگے والے میری طرف متوجہ ہو گئے ، سب سے قریبی والے نے پوچھا کہ ” کتھے جانا اے ” ، میں نے یکی دروازے کا نام لیا تو اس کے چہرے پر ہلکی سی بیزاری آ ئی کیونکہ اس نے دہلی دروازے تک جانا تھا ، ایک تانگے کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ وہ جا رہا ہے۔

میں فٹا فٹ اس کی طرف لپکا ، شالمی چوک ایک مصروف چوک ہے ، کام کے اوقات میں وہاں ہر وقت رش رہتا ہے ، چوک میں سب سے بڑی دکان ہاشمی پینٹ والوں کی تھی ، والد صاحب کے پرانے جاننے والے تھے ، ہمارے گھر میں رنگ و روغن کا سامان یہیں سے جاتا تھا ، ان کی دکان کے آگے ہی یہ تانگے والے کھڑے رہتے تھے ، مجھے آگے والے حصے میں جگہ مل گئی۔

تانگے میں آگے بیٹھنا زیادہ مزیدار ہوتا تھا ، وہاں سے کوچوان کو دیکھنا کہ وہ کیسے گھوڑے کو چلاتا ہے ، دائیں بائیں کرنا ، بریک لگانا ، تیز چلانا ، آہستہ کرنا ان سب کا ایک مخصوص طریقہ کار ہوتا تھا ، گھوڑے کی آنکھوں کو ڈھانپا گیا ہوتا تھا تاکہ وہ صرف سامنے دیکھ سکے ، کوچوان صاحب کے پاس ایک عدد چمڑے کا چابک بھی موجود ہوتا تھا ، کچھ ناہنجار اس کا بے دریغ استعمال جانوروں پر کرتے تھے جبکہ زیادہ تر اس چابک سے صرف آواز کے ذریعے ڈرانے کا کام ہی لیتے تھے یا اس کے پیچھے لگی لکڑی کی چھڑی کے ذریعے گھوڑے کی ٹانگوں کے نیچے ہلکا سا چھوتے تھے ، یہ بھی گھوڑے کے لیے ایک مخصوص اشارہ ہوتا تھا۔

رش والے علاقوں میں کوچوان زیادہ تر کھڑے ہو کر ہی گھوڑا چلاتے تھے ، ایک ٹانگ فٹ ریسٹ والی جگہ پر اور دوسری ٹانگ تانگے کے اوپر رکھی ہوتی ،تانگہ چلاتے ہوئے ساتھ ساتھ منہ سے مخصوص آوازیں بھی نکالتا تھا جس کو گھوڑا بخوبی سمجھتا تھا ، اس زمانے میں تانگوں کے بھی نمبر لگے ہوتے تھے جیسے کہ آج کل گاڑیوں کے ہوتے ہیں اور باقاعدہ رجسٹرڈ ہوتے تھے حالانکہ اس رجسٹریشن کا کوئی خاص فائدہ نہ دیکھا نہ سنا۔۔

تانگے پر بیٹھ کر دنیا کو دیکھنے کا الگ ہی مزہ ہوتا تھا ، ایسے لگتا تھا کہ جیسے ہم سب سے اوپر موجود ہیں اور باقی سب ہمارے سے نیچے ہیں ، شاید روح والی سواری کی وجہ سے جذبات بدل جاتے تھے ، سب سے پہلے موچی دروازہ اور اس سے ملحقہ گراؤنڈ جس کی بھی ایک تاریخی حیثیت تھی ، پھر اڈہ  کراؤن بس جہاں کسی زمانے میں کراؤن بس چلتی ہوتی تھی ، پھر اکبری گیٹ اور ساتھ ہی اکبری منڈی جہاں سے گزرتے ہوئے مصالحوں کی خوشبو لازمی آتی تھی ، پھر دہلی دروازے کا رش بھرا بازار کراس کرکے کوتوالی تھانے کی لال پُر شکوہ عمارت کو دیکھتے ہوئے میری منزل آ جاتی تھی۔

گھوڑے کو چلتے ہوئے دیکھنا بھی ایک لطیف احساس رکھتا تھا ، میرا کئی دفعہ دل کرتا کہ کوچوان سے لگام پکڑ کر خود تانگہ چلانا شروع کر دوں ، جہاں چاہوں وہاں گھوڑے کو مڑ جانے کا کہوں اور تیز تیز بھگانا شروع کر دوں ، ویسے اس معاملے میں گھوڑا خود بھی سمجھدار ہوتا تھا ، اس کو اسی کام کے لیے سدھایا گیا ہوتا تھا کہ سڑک پر کیسے چلنا ہے بعض اوقات روزانہ ایک ہی راستے سے آنے جانے سے بھی اس کو بخوبی علم ہوتا تھا کہ اب کس طرف جانا ہے۔

اب میری منزل آ چکی تھی ، کوچوان کو پانچ روپے کا نوٹ دیا تو اس نے اس نوٹ کو دوسرے نوٹوں کے ساتھ رکھتے ہوئے باقی دو روپے کا نوٹ مجھے پکڑا دیا ، تانگے کے پچھلی طرف دو عورتیں بھی موجود تھیں جو کہ تانگہ رکنے پر اب پیچھے مڑ کر سواری اترتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔

آگے کا راستہ آسان تھا ، شروع میں کچھ کھانے پینے کی دکانیں موجود تھیں جن میں پکوڑے والا ، نہاری والا ، اور ایک دودھ دہی کی دکان موجود تھی ، مجھے تو کم از کم یہ ہی یاد ہیں ، اس کے بعد ڈاکٹر بلے کا کلینک تھا ، یہ ڈاکٹر نہیں تھا ، کسی سرکاری ہسپتال میں پیرا میڈیکل اسٹاف میں شامل تھا لیکن رات کو زخموں کی پٹیاں کرتا تھا ، بہت مشہور تھا خاص طور پر شوگر کے مریضوں کا اس کے پاس رش ہوتا تھا جن کو کسی وجہ سے زخم ہو چکے ہوتے تھے ، اس کے ہاتھ میں واقعی قدرت نے شفا رکھی ہوئی تھی۔

اس کے بالکل متصل کوما قصائی کا گھر تھا ، مجھے اس کا پرانا گھر بھی یاد ہے جو کہ ایک کٹڑی پر مشتمل تھا لیکن اس وقت نیا گھر بننا شروع ہو چکا تھا ، پورے شیرانوالہ دروازے میں اس سے بڑا گھر اور کوئی نہ تھا ، گھر کے باہر مصنوعی شیر بھی بنائے گئے ہوئے تھے ، ایک اصلی شیر بھی ہر وقت گھر کے باہر بڑے سے پنجرے میں موجود ہوتا تھا جسے دیکھنے کے لیے ہر وقت بچوں کا رش وہاں موجود رہتا تھا
اس کے آگے ایک بیکری تھی جو اس زمانے میں بہت مشہور تھی ، دور سے ہی بسکٹس ، کیک رس وغیرہ کی خوشبو آنی شروع ہو جاتی تھی ، یہ ایسی ہی تھی جیسی چوہٹہ مفتی باقر میں خلیفہ بیکری ہوتی تھی ، یہ وہی خلیفہ بیکری ہے جس کی بادام خطائیاں آج پورے پاکستان میں مشہور ہیں ، اس زمانے میں اس کی بِکری زیادہ نہیں تھی ، بیکری کے باہر بڑے بڑے پیتل کے تسلے رکھے ہوتے تھے جس میں کیک رس وغیرہ رکھے گئے ہوتے تھے ، وقت کے ساتھ ان کی پالیسی بدلتی گئی اور وہ مشہور ہو گئے جبکہ شیرانوالہ دروازے کی بیکری ابھی بھی صرف اپنے علاقے تک کی ہی بیکری ہے۔

میں وہ دکانیں کبھی نہیں بھول سکتا جہاں پتنگ بازی کا مکمل سامان ملتا تھا ، یہ دو دکانیں نانی گھر کی گلی کے بالکل باہر تھیں ، یہ دکانیں بڑی بڑی تھیں جن میں لاتعداد پتنگیں ، گڈے اور ڈوریں موجود ہوتی تھیں ، دل کرتا تھا کہ اس دکان سے سب کچھ ہی خرید لوں اور خوب پتنگیں اڑاؤں ، ان دکانوں کے مالک نانا ابو کے دوست اور ان کے بچے ہمارے تینوں ماموں کے دوست تھے۔

ان کے سامنے ایک بجلی کی دکان تھی جہاں ایک چھوٹی عینک والے انکل ہر وقت سر جھکائے کوئی نہ کوئی چیز ہی ٹھیک کر رہے ہوتے تھے ، ہمیں تقریباً پورا محلہ ہی جانتا تھا کیونکہ نانا ابو کی محلے میں بہت اچھی ساکھ تھی ، ان کا ٹافی بنانے کا کارخانہ تھا جو کہ گھر کے نیچے والے حصّے میں ہی تھا۔

جب نانی کے گھر پہنچا تو نانا ابو گھر میں نہیں تھے کیونکہ ان کو فوت ہوئے چار پانچ برس ہو چکے تھے ، جب نانی گھر کی چھوٹی سیڑھیاں چڑھ کے دو کمروں کے درمیان صحن نما  کچن میں داخل ہوا تو نانی اماں سامنے ہی موجود تھیں ، دیکھتے ساتھ ہی لپک کر مجھے گلے لگایا ، مجھے وہ لمس آج تک یاد ہے ، ایک عجیب سی طمانیت تھی اس میں ، گلے لگانے کے دوران ہی سیڑھیوں کی طرف اپنی نظریں رکھیں تاکہ اپنی بیٹی کا بھی استقبال کر سکیں۔

کچھ لمحوں بعد مجھے حیرت سے دیکھا اور پوچھا کہ امی کہاں ہیں ، میں نے شرماتے ہوئے کہا کہ میں اکیلا آیا ہوں تو دوبارہ مجھے گلے لگا لیا اور ہنسنا شروع کر دیا ، ساتھ ہی ساتھ ماموں کو بھی آواز دینا شروع کر دی کہ دیکھو ” بائے ” آیا ہے۔

دراصل یہ بائے نام میری بڑی ہمشیرہ کی وجہ سے پڑا تھا وہ میرے سے ایک سال بڑی ہیں ، سب اس کو کہتے کہ تمہارا بھائی آیا ہے تو اس سے بھائی نہیں کہا جاتا ہے ، بھائی کی جگہ بایا نکلتا تھا جو بعد میں بھائے ( بائے ) میں تبدیل ہو گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نانی اماں نے بہت پیار دیا ، جو کچھ موجود تھا وہ میرے سامنے رکھ دیا ، نانی اماں کے ہاتھ کے دال چاول کا ذائقہ دنیا کے تمام کھانوں سے زیادہ لذیذ تھا حالانکہ وہ دال پتلی ہوتی تھی لیکن آج کی مٹن کڑاہی بھی اس کے آگے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply