نیشنل ہیری ٹیج ڈے(National Heritage Day)۔ناصر خان ناصر

پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی اور جہالت کی بدولت پبلک میں برداشت  بالکل ختم ہو چکی ہے۔ ابھی حال ہی میں صوبہ پختون خوا  میں ایک مکان کی تعمیر کے سلسلے میں کھدائی کی گئی  تو بے حد خوبصورت نایاب بُدھ کا مجسمہ نکل آیا۔ اَن پڑھ مستری نے اسے فوراً  توڑ پھوڑ کر برابر کر کے پھینک دیا۔ یہ افسوسناک خبر ہم نے خود پڑھی تھی۔

موہنجوداڑو کی اینٹیں وہاں جانے والے سیاحوں کو بطور تحفہ مفت عنایت کر دی جاتی ہیں اور ان سے بخشش کا طلب گار بن کر جھولیاں پھیلائی جاتی ہیں۔ بدھ نوادرات تو سستے اور تھوک کے بھاؤ بِک کر امریکہ یورپ کی اینٹیک مارکیٹس میں بکتے نظر آتے ہیں۔ ٹیکسلا میوزیم میں ہمارے زمانے میں شو کیس میں رکھی مینکن نے لاتعداد سونے کے زیورات پہن رکھے تھے۔ تازہ ترین تصاویر میں زیورات کم نظر آتے ہیں۔ ٹیکسلا میوزیم کے آدھے سے زائد مجسمے خود ساختہ ریپلیکا ہیں۔ اصل مجسمے کہاں گئے؟
کوئی  نہیں جانتا۔

پاکستان بننے کے بعد جہاں ایک ایک چھوٹی بڑی چیز کے حصّے بخرے کیے گئے، وہیں موہنجوداڑو سے ملنے والی اشیاء بھی دونوں ممالک میں 60 اور 40 کی ریشو سے بانٹ دی گئیں۔ موہنجوداڑو کی مشہور زمانہ کانسی کی ڈانسنگ گرل یعنی پانچ ہزار سالہ پرانی رقاصہ کا مجسمہ اور پھولدار کپڑے پہنے راہب کے بٹوارے میں پاکستان نے راہب کو پسند کیا اور کانسی کی ڈانس گرل بھارت کو دے دی گئی۔ انھیں کھنڈرات سے ملنے والی  واحد سونے کی چیز ایک قیمتی پتھروں سے جڑاؤ ہار تھا جسے آدھا آدھا بانٹ دیا گیا تھا۔

کبھی تخت بھائی  کے کھنڈرات میں اَن گِنت بدھ کے مجسمے وہاں کھنڈرات ہی میں طاقوں و دیواروں پر سجے ہوئے نظر آتے تھے۔ اب وہاں خالی دیواریں ہی رہ گئی  ہیں۔
ہمارے چور حکمران، کرپٹ بیوروکریٹ، نا اہل افسر شاہی، بدمعاش کنڑولنگ ادارے سب کے سب اس قومی لوٹ مار میں برابر کے شریک ہیں۔
محترمہ بے نظیر صاحبہ اور ان کے شوہر نامدار محترم زرداری صاحب کا تو پاکستان کے پرانے مزاروں سے نیلی ٹائلیں اکھڑوا کر اپنے سرے محل انگلینڈ میں جا لگوانے کا ایک اسکینڈل بہت مشہور ہوا تھا۔بقیہ سارے حکمران بھی لوٹ کھسوٹ میں کسی سے کم نہیں رہے کہ چیک اینڈ بیلنس کا کوئی  سسٹم پاکستان میں سِرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
اندھیر نگری، چوپٹ راجہ
ٹکے سیر بھاجی، ٹکے سیر کھاجا

ہم لوگ اپنے نان اسلامک نیشنل ہیری ٹیج سے اتنے شرمندہ ہیں کہ ان پر لعنت ملامت کرتے تھکتے نہیں ہیں۔ ہمارا بس نہیں چلتا کہ اپنی موہنجوداڑو، ہڑپہ اور ٹیکسلا والی تاریخ کو کسی طرح دریا بُرد کر کے پوری دنیا سے اوجھل کر دیں اور اپنے جھوٹے ملمع چڑھے اسلامک درخشاں ماضی کے گیت ہی الاپتے رہیں۔

پاکستان بھر کے کونے کونے میں بکھرے پرانے آثار قدیمہ، قلعے، مندر، گردوارے، مٹھ، پاٹ شالے، ویہار، شمشان بھومی، گھپائیں، پرانے آثار لیے غاریں، تیرتھ، خانقاہیں، سمادھیاں، پرانی حویلیاں، کھنڈر ہوتے محل و مزارات، تاریخی عمارات سب کے سب مکمل نگہداشت سے محروم اور اجتماعی بے حسی و تخریب کا عبرتناک نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ محکمہ جات برائے آثار قدیمہ اور اوقاف کے لوگ تو بس اپنی حاضری لگوا کر مفت کی روٹیاں توڑنے کے عادی ہیں۔اور تو اور اسلامی دور کے تاریخی مقابر پر بھی کوئی  توجہ نہیں دی جاتی۔ جہانگیر اور نور جہاں، آصف الدولہ کے مقبرے ، ہرن مینارا، کامران کی بارہ دری، شالا مار باغ وغیرہ وغیرہ کو تو خیر چھوڑیے کہ وہ تو ملکہ نور جہاں کے لکھے اپنی لحد پر کھدے اس شعر کی مکمل عکاسی ہیں:
ع
بر مزار ما غریبان نی چراغی نی گُلے
نی پرِ پروانه سوزد نی صدای بلبلے
اوچ شریف، ملتان اور سندھ کے کئی  مقامات پر بے نظیر نیلی ٹائلوں والے، عجیب و غریب دلکش مینا کشی سے مزیں نہایت خوبصورت مقبرات، مزارات وقت کے ہاتھوں مخدوش ترین حالت میں کسی بھی وقت گر کر معدوم ہو جانے کے منتظر ہیں اور کسی کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

بہاولپور کے نزدیک بدھ سوئی  ویہار کا اکلوتا ٹیلہ نما ستون جس کے اردگرد مخملی پکی مٹی کی بہت چوڑی اینٹیں ہر طرف بکھری نظر آتی تھیں، اب ناپید ہے۔ ساری اینٹیں لوگوں نے اکھاڑ کر اپنے گھروں کے فرش فروش پکے کر لیے۔ اسی قصبے کے قبرستان کے لیے یا نئی  عمارتوں کے لیے جب جب زمین کھولی جاتی ہے تو لوگوں کو بدھ مجسمے، نوادرات اور سکّے عام ملتے ہیں۔

ہڑپہ کے وسیع و عریض اوائل زمانہ میں میلوں میل تک پھیلے ہوئے تھے۔ انگریزوں نے تقسیم ہند سے بہت قبل پورے ہندوستان میں ریل کی پٹڑیوں کا جال بچھایا تو پنجاب میں اس کے لیے درکار مٹیریل ناپید تھا۔ ان کے ایماء پر مقامی ٹھیکیداروں نے ہڑپہ کے کھنڈرات کی ساری اینٹیں کوٹ کوٹ کر پٹڑیوں کے بچھانے میں استعمال کرنا شروع کر دیں ۔ آج بھی ساہیوال کے نزدیک لوگوں کو پٹڑیوں کے قریب ہڑپہ کی مہریں، عجب تحریر والی اینٹیں، ٹوٹے پھوٹے برتن اور کھلونے مل جاتے ہیں۔

پوٹھوہار کا روہتاس قلعہ، روہی کا قلعہ ڈیراور، سندھ، بلوچستان، گلگت کے مزید زبوں حال قلعے، شیر شاہ سوری کی سڑک کی باقیات، جرنیلی سڑک کے کنارے بنی باولیاں عبرت کا نشاں بنی تاریخی کہانیاں سناتی ہیں۔ چکوال کے نزدیک ہندوؤں کا دوسرا مقدس ترین استھان راج کٹاس اپنی اوریجنل سبز جھیل کے ہمراہ موجود ہے۔ جھیل کا پانی نزدیکی ماربل و کیمیکل فیکٹریوں کی بدولت بہت پولیوٹڈ اور غنڈہ ہو چکا ہے۔ ہندو اساطیر کے مطابق پاروتی کے مرنے کے بعد شیو دیوتا اس کا مردہ جسم اٹھائے ساری دنیا میں تباہی کا رقص تانڈو ناچتا ہوا یہاں سے گزرا تو اس کا ایک آنسو اس جگہ گر کر سبز جھیل بن گیا تھا۔ پانڈو برادران نے اپنی سزا کے بن باس کا کچھ حصہ بمع اپنی مشترکہ بیوی دروپدی کے یہاں بھی بتایا تھا۔

جہلم کے نواح میں ٹلہ جوگیاں کا مشہور عالم ٹیلہ بھی اپنے ہندو مت، بدھ مت، جین مت آثار قدیمہ سمیت موجود ہے۔ یاد رہے کہ ہیر رانجھا قصے کے وارث شاہ نے رانجھے کو جوگ لینے کے لیے گرو بال ناتھ کے پاس ٹلہ جوگیاں ہی بھجوایا تھا۔

اسی ٹلہ جوگیاں کا تعلق پنجاب کے ایک اور لوک قصے اور داستان سے بھی ہے۔ سیالکوٹ کے مشہور راجہ سالبان اور اس کی رانی اچھراں، رانی لونا اور ان کے بیٹے پورن بھگت کی داستان جس کے ہیرو پورن بھگت کو اس کی سوتیلی ماں رانی لوناں نے ہاتھ پاؤں کٹوا کر جس کنویں میں پھنکوا دیا تھا۔ وہاں سے اسے ٹلہ جوگیاں کے گورو گورکھ ناتھ نے آ کر نکالا اور اپنی دعاؤں کی کرپا سے مکمل تندرست کر دیا۔ اسی گرو کا چیلہ بننے کے بعد وہ بھیک مانگتا ہوا لاہور کی رانی سندراں کے درباروں تک جا پہنچا۔ رانی سندراں اس کے عشق میں مبتلا ہو کر ٹلہ جوگیاں کے گرو گورکھ ناتھ کے سامنے ماتھا ٹیکنے اور من مانگی مراد حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئی ۔
ٹلہ جوگیاں کے نزدیک ہی وہ تاریخی پہاڑی بھی موجود ہے جہاں البیرونی نے دنیا میں سب سے پہلے ہماری زمین کا محیط کامیابی سے ناپا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شنگریلا کے بھاری بھر کم چٹان کے بنے مندر ہوں یا روہی میں پھیلے قدیم جین مندر پاکستان میں قدم قدم چھپے خزانے اپنی بے قدری، پائمالی اور تباہی پر ماتم کناں ہیں۔
رہے نام اللہ کا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply