سولر سیل/ادریس آزاد

فوٹان میں مومینٹم ہوتا ہے۔ مومینٹم کا کام ہے کسی بھی مادی آبجیکٹ کو تھوڑا سا دھکا مارنا۔ جب شہروں پر دھوپ پڑتی ہے تو اربوں کھربوں فوٹان مل کر شہر کو نیچے کی طرف تھوڑا سا دھکا مارتے ہیں۔ اس دھکے سے دن کے وقت شہروں کا وزن، رات کے وقت شہروں کے وزن کی نسبت بڑھ جاتا ہے۔ یہ بات شہروں پر موقوف نہیں۔ زمین پر ہر جگہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہر وہ جگہ جہاں سایہ ہے اُس کا وزن کم ہوتا ہے بنسبت اُس جگہ کے جہاں روشنی پڑ رہی ہے۔ وہ روشنی چاہے بلب کی بھی ہو تب بھی ایک مخصوص حد تک فوٹانز اپنے مومینٹم کی وجہ سے اُس جگہ کو تھوڑا سا دھکیل رہے ہوتے ہیں۔

فوٹان کی اِسی فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے۔ خلا میں سفر کے لیے ایک نئی قسم کا سیٹلائٹ بنایا گیا۔ یہ بادبانی کشتیوں اور بحری جہازوں کی تقریباً نقل سمجھ لیں۔ بادبانی کشتیوں میں یہ ہوتا ہے کہ اُن میں بڑے بڑے کپڑے لگے ہوتے ہیں، جو سمندروں میں چلنے والی ہوا کے رُخ پر اس طرح گھما دیے جاتے ہیں کہ جہاز ہوا کے دباؤ کی وجہ سے رفتار بھی پکڑتا ہے اور ہم جب چاہیں اُس کا رُخ بھی بدل سکتے ہیں۔ جدید سیٹلائیٹ کو نام بھی بادبانی کشتیوں والا دیا گیا ہے۔ یہ نام ہے، “سولر سیل” (Solar Sail)۔

اگر آپ سولر سیل کے الفاظ گوگل میں ڈالیں تو آپ اِس نُوری کشتی کی تصویریں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اس سیٹلائیٹ کا اُصول یہ ہے کہ اسے خلا میں بھیجنے کے بعد اس کے بڑے بڑے پر کھُل جاتے ہیں۔ ان پَروں کو ہوبہو بادبان سمجھ لیا جائے تو ہم جان جائینگے کہ بادبان جو ہوا کے دباؤ پر چلتے تھے اب روشنی کے فوٹانز کے دباؤ پر چلینگے۔ اس سیٹلائیٹ کے بڑے بڑے پَر جو کسی خاص قسم کے فیبرک سے بنائے گئے ہیں اور مشینی انداز میں نہ صرف خود بخود کھلتے اور بند ہو جاتے ہیں بلکہ بوقتِ ضرورت سیٹلائٹ کا رُخ بھی موڑ سکتے ہیں۔

سولر سیل سے انسان کو سب سے بڑا فائدہ یہ پہنچا ہے کہ اب ہمیں اپنے خلائی سفر کے لیے کسی ایندھن کی ضرورت نہیں۔ سورج کی بے شمار حرکی توانائی یعنی کھربوں فوٹانز کی بوچھاڑ ہمارے سولر سیل کو دھکا دینے کے لیے کافی ہے۔ پہلی سولر سیل جاپان نے دو ہزار دس میں خلا میں بھیج دی تھی۔ اس کے بعد ناسا نے دو ہزار گیارہ میں بھیج دی۔ اب بڑی سولر سیلز یعنی بڑے بادبانی بحری جہاز بنائے جا رہے ہیں۔ کل کلاں خلائی بیڑے بھی اِسی ٹیکنیک پر بنائے جانے کے بہت بڑے بڑے منصوبے زیرِ غور ہیں۔

ان بادبانوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ روشنی کے فوٹانز ان پر وقت کے ساتھ ساتھ اپنا دباؤ بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ گویا پہلی رفتار کے ساتھ مزید رفتار کو ضرب دیتے چلے جاتے ہیں۔ یہاں ایک ٹیکنکل سائنسی بات ہے جس سے میں سردست صرف نظر کر رہا ہوں کہ ایسا (یعنی رفتار کا بڑھتے چلے جانا) کیسے ہوتا ہے۔ لیکن بہرحال ایسا ہوتا ہے فلہٰذا سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ آج اگر ہم ایک سولر سیل خلا میں بھیجتے ہیں تو چوبیس گھنٹے بعد اس کی رفتار ایک سو ساٹھ کلومیٹر فی گھنٹہ ہوگی۔ ایک سال بعد اس کی رفتار چالیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ ہوگی اور تین سال بعد اس کی رفتار ایک لاکھ ساٹھ ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ ہوگی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

روشنی کبھی ختم نہ ہوگی اور سولر سیل کا سفر بھی کبھی ختم نہ ہوگا۔ ہم جب چاہینگے اُسے روک بھی سکینگے اور موڑ بھی سکینگے۔ سائنسدان بہت خوش ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے دور دراز کی کہکشاؤں تک مِشن بھیجے جا سکیں گے۔ ایسی سول سیل جو بہت ہی بڑے بحری بیڑے کی طرز پر سوچی جا رہی ہے اُس میں پودے اُگانے اور مصنوعی گریوٹی پیدا کرنے کے لیے بہت بڑے قُطر کا پہیہ مسلسل گھماتے رہنے کا بندوبست بھی کیا جائے گا تاکہ انسان عین زمینی ماحول کے مطابق دور دراز کی کہکشاؤں کے لیے نہایت حفاظت اور آرام کے ساتھ سفر کر سکے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply