ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔۔رفعت علوی/دوسری قسط

اس نے کسی پھرتیلے جنگلی چیتے کی طرح مجھے آ لیا، میں جانوروں کی طرح دونوں ہاتھوں پیروں پر جھکی جھکی اس مختصر سی چڑھائی پر چڑھ رہی تھی کہ صنوبر کے ایک درخت کے پیچھے سے اس نے مجھے دبوچ لیا، میں مچلی تڑپی مگر اس کا ایک  ہاتھ سختی سے میرے منہ پر جما رہا، چھوڑو مجھے، میں نے کچکچا کر اس کے ہاتھ پر کاٹا مومیچی؟؟ (عورت) اس کے منہ سے حیرانی اور استعجاب میں ڈوبی ہوئی آواز نکلی، اس نے مجھے چھوڑ دیا۔۔۔۔۔۔ وہ ششدر نظر آرہا تھا، لعنت ہے۔۔۔۔ یہ ایک اور مصیبت نازل ہوگئی، اس نے میری حالت پر ایک نظر ڈالی اور غصیلے لہجے میں بڑبڑایا،

میں اپنی حالت سے کھلم کھلا کسی ٹارچر کیمپ سے بھاگی ہوئی قیدی نظر آتی تھی ۔میں نے اب اس کو غور سے دیکھا کئی دن کی بڑھی ہوئی شیو، کالی چمکدار پر عزم آنکھیں، خشک اجاڑ بال، کھردری کھال اور پھٹے ہوئے پرانے فوجی جیکٹ کے ساتھ پھرتیلا اور چوکنا شخص، شاید وہ روسی تھا ۔۔شور مت کرنا، اس نے مجھے سخت نظروں سے گھورا” تم کون  ہو ماریا۔۔۔۔۔۔۔۔ اسٹالگ ٹو بی کے کیمپ سے بھاگی ہو نا؟

میں نے سر ہلا کر اس کی تائید کی اور تم؟ وہ کچھ دیر اپنی کھردری داڑھی کھجاتا رہا پھر ہلکی آواز میں بولا صوفیہ بلغاریہ میں نے تمھارا نام پوچھا تھا “گبرائیل” تم بھی۔۔۔۔۔میری طرح؟۔۔۔۔۔۔۔ ہاں ہاں ۔۔۔۔۔۔وہ جھنجھلا کر بولا بس اب بھاگ جاؤ ورنہ تم خود بھی مرو گی اور مجھے بھی مرواؤ گی، وہ اور ان کے کتے ہمارے پیچھے ہیں، اس نے سخت لہجے میں کہا، تم بھی تو بھگوڑے ہو، میں نے جل کر کہا اس نے مجھے گھور کے دیکھا مگر کچھ کہے بغیر خاموشی سے آگے بڑھ گیا۔ گوسپوڈن جیبرئیل ( مسٹر گیبرئیل) میں نے اسے سرگوشی میں آواز دی میرے پیچھے مت آنا” اس نے پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر کہا “میں اکیلی آئی تھی اکیلی ہی مروں گی” دہقان کی بیٹی ہوں جس نے برسوں مشقت کی ہے” میں نے بھی اسی سختی سے جواب دیا ،تم اپنا راستہ پکڑو اس نے پلٹ کر بھی نہیں دیکھا اور اپنی دھن میں آگے بڑھنے لگا ۔

ادھر کدھر جا رہا ہے یہ پاگل ۔۔ادھر تو پانی ہے، میں نے دانت کچکچا کر کہا مگر اس نے سنی ان سنی کردی ۔میں اس طرف کا راستہ کاٹ کر دوسری طرف بڑھنے لگی، برفباری رک گئی تھی، موسمی پرندے بارود کی بو پا کر خاموش جنگل میں دبکے بیٹھے تھے، ہر سو سناٹا تھا صبح کی ملگجی روشنی کی جھلکیاں بادلوں کے پیچھےسے جھانکنا شروع ہو گئی تھیں میں تیز تیز قدم رکھتی ہوئی آگے بڑھتی رہی، میری اس چڑھائی کا اختتام پانی کے ایک ذخیرے پر ہوا، سرد اور برفیلا پانی۔۔ اپنے چوڑے پاٹ کے ساتھ میرا راستہ روکے کھڑا تھا میں یہاں محفوظ نہ تھی، مجھے پتا تھا کہ دیر یا بدیر گستاپو اور ان کے کتے میری کھوج کرتے یہاں تک پہنچ جائیں گے، میرے جیسے کتنے اور قیدی فرار ہوکر محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش میں بھٹک رہے ہوں گے اور وہ غصیلا بلغارین گبرئیل میں نے بےدھیانی میں اس کی بگڑی ہوئی شکل کا خیال کرتے ہوئے آستین سے اپنا پسینہ پونچھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کا چھوٹا سا سفید خوفزدہ چہرہ جھاڑیوں کے اندر سے جھانک رہا تھا، اس کے قریب ہی ایک کتا زخمی حالت میں زمین پر پڑا اپنی دم پٹخ رہا تھا، کتے کے کھلے ہوئے بھیانک منہ سے خون بہہ بہہ کر سفید پھولوں میں جذب ہو رہا تھا اور خونخوار تیز نوکیلے دانت درد اور تکلیف سے کھل بند ہو رہے تھے، اس کے  ذرا سے فاصلے پر گبرائیل اپنے پتلون کے پھٹے ہوئے پائینچے کو اٹھائے خون آلود ٹانگ کا جائزہ لینے میں مصروف تھا۔

یہ سب اچانک ہوا، میں جھیل کے ساتھ ساتھ دور تک چلتی چلی گئی مگر مجھے کہیں سے بھی دوسرے کنارے پر جانے کا راستہ نہ ملا، ابھی میں پلٹنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ کہیں دور سے کسی کتے کے بھونکنے کی آواز آئی، میں بھاگی، اب میرے لئے جنگل میں چھپنے کے سوا کوئی راہ فرار نہ تھی، کتے کی آواز قریب آتی جا رہی تھی، میں بےتحاشہ دوڑتی ہوئی اوک کے درختوں میں چھپنے کی کوشش کرنے لگی، میری چوکنی نظریں اوپر چڑھائی پر لگے صنوبر کے درختوں کی نگراں تھیں پھر مجھے ایک لڑکا دکھائی دیا جس کے ایک ہاتھ میں چھڑی اور دوسرے ہاتھ میں چھوٹی سی کلہاڑی تھی اور وہ بےتحاشہ بھاگ رہا تھا، اس کے پیچھے لمبی لمبی جستیں لگاتا سیاہ منہ والا ایک بلڈ ہاؤنڈ بھی تھا، منہ کھولے دانت نکوسے، دیکھتے ہی دیکھتے لڑکا چڑھائی پر صنوبر کے درختوں کے  جھنڈ میں گھس گیا مگر کتے نے جھاڑیوں میں گھس کر اس کے کوٹ کو گھسیٹنا شروع کردیا، اسی وقت ایک بڑے تنے کے پیچھے سے طویل قامت گبرائیل نمودار ہوا اور اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی رائفل کا بٹ کتے کے سر پر رسید کیا، کتے نے پلٹ کر گبرائیل پر چھلانگ لگائی اور اس کے پیروں کو بھنبھوڑنے لگا، گبرائیل نے گولی چلانے کے بجائے رائفل کو لٹھ کی طرح استعمال کیا اور اس وقت تک لٹھ برساتا رہا جب تک کتا بےدم ہو کر گر نہ پڑا،

اب میں بھی اپنی پناہ گاہ سے نکل کر چڑھائی پر آئی، مجھے دیکھ کر وہ لڑکا بھی جھاڑیوں سے نکل آیا اور مستجس نظروں سے مجھے کتے اور گبرائیل کو دیکھنے لگا، یہ ایک پولش چرواہا تھا جس کے پیچھے جرمن کتا لگ گیا تھا، گبرائیل نے ہاتھ کے اشارے سے اس کو جانے کا اشارا کیا مگر وہ کھڑا رہا اوٹیوام سی۔۔۔۔۔۔۔(بھاگ جاؤ) ۔۔۔گو۔۔۔۔۔ہم کو تو مرنا ہے تم اپنی جان بچاؤ ۔۔ابھی اور کتے آئیں گے گریپسرا ؟ (قیدی)، لڑکے نے پولش میں پوچھا، پھر اس نے اپنی چھوٹی سی کلھاڑی گھمائی تم کو اس کی ضرورت ہے۔۔۔یہ کہہ کر اس نے کلہاڑی ہم لوگوں کی طرف پھینکی اور اوکا۔۔۔اوکا۔۔۔(میری بھیڑیں ) کہتا ہوا کتے کی طرف لپکا اس کے جسم پر ایک لات رسید کی اور بھاگ کھڑا ہوا ۔۔

میں نے گھٹنوں کے بل بیٹھ  کر گبرائیل کے پیروں کی طرف دیکھا جہاں کتے کے پنجوں سے خراشیں پڑ گئیں تھیں اور ان سے خون بہہ رہا تھا، گبرائیل نے میرا نوٹس تک نہیں لیا اور ایک گندا سا چیتھڑا زخموں  پر  باندھنے میں    مصروف رہا، میرے تھیلے میں کچھ صاف دھجیاں تھیں، دہقان عورت ہونے کی وجہ سے مجھے زمین کی قوت اور اس کی نمو کا اندازہ بھی تھا ٹھہرو بے وقوف آدمی۔۔۔۔۔ تمھارا زخم سڑ جائے گا، میں نے اس کو رومینین زبان میں ایک زوردار ڈانٹ پلائی جو اس نے شاید بلا سمجھے چپ چاپ صبر و سکون سے سنی ، پھر میں نے آس پاس پھیلے ہوئے لینٹو پوڈیم کے پھولوں کو برف میں ملا کر کوٹا اور صاف دھجیوں کے ساتھ اس کے زخم پر باندھ دیا میری جسارت پر وہ ششدر نظر آ رہا تھا مگر اس نے میرا شکریہ ادا کرنے کے بجائے اپنا منہ بگاڑ لیا اور بڑبڑایا۔۔۔۔”زبردستی کی  ہمدردی”۔۔اور پھرتی سے اٹھ کھڑا

فضاء پر ایک مصنوعی خاموشی طاری تھی، میں جانتی تھی جرمن اتنی آسانی سے ہار ماننے والے نہیں تھے، ان کے پاس جیپیں تھیں نئے ہتھیار تھے، ٹرینڈ کتے تھے اور اور تازہ دم سپاہی، وہ وحشی جنگلی اور اجڈ بلغارین ایک بار پھر میری نظروں سے اوجھل ہوچکا تھا، میں چلتی رہی، اب چیسٹ نٹ (شاہ بلوط) کے درختوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، چلتے چلتےسرد ہواؤں کے تھپیڑے کھاتی برفیلی ندیوں میں ڈبکیاں لگاتی پتھریلے راستے پر گرتی پڑتی تھکن اور بھوک سے بے حال ہوکر میں درخت کی ایک مضبوط جڑ پہ بیٹھی ادھر ادھر دیکھ کر راہ فرار کا تعین کر رہی تھی کہ دور نیچے وادی کی پگڈنڈی پر دو خاکی رنگ کی جیپیں نمودار ہوئیں، میرا اوپر کا سانس اوپر ہی رہ گیا، جیپوں کے سائیلنسر سے سفید گاڑھا دھواں نکل نکل کر فضا میں جم رہا تھا اور ان کے مضبوط طاقتور انجن ٹھٹھرے موسم میں گھوں گھوں کر رہےتھے، دیکھتے ہی دیکھتے ان جیپوں کا رخ اس چڑھائی کی طرف ہوگیا جس سے گذر کر میں یہاں تک پہنچی تھی، جیپیں تھوڑی دور پہنچ کر رک گئیں اور اس میں سے دو جرمن سپاہی مشین گن چھتیائے کود کر باہر نکلے، ایک فوجی دوربین سے ارد گرد کا جائزہ لینے لگا جب کہ دوسرے نے جیپ کے اندر گردن ڈال کر کسی سے کچھ کہا، جیپ کا دروازہ کھلا اور پہلے ایک چھوٹے سے کتے نے باہر چھلانگ لگائی، یہ بھیڑوں کی رکھوالی کرنے والا چھوٹا سا بے ضرر کتا تھا، پھر ایک لڑکا باہر نکلا، میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا کیونکہ یہ وہی پولش چرواہا لڑکا تھا جو تین گھنٹے پہلے ہم کو اپنی کلہاڑی کا تحفہ دے کر گیا تھا،

میں نے مایوسی سے ادھر ادھر دیکھا، کچھ دیر کی بات ہے یا تو کوئی گولی یا پھر صعوبت خانہ کی سختیاں۔۔ بھوک قید اور تنہائی میرا مقدر بننے والی تھی، مجھے لڑکے کی غداری پر طیش آنے لگا پھر خود ہی سوچا کہ بیچارا اتنا چھوٹا بچہ جرمن فوجیوں کا تشدد کیسے برداشت کر سکتا تھا، بچے نے ہاتھ اٹھا کر چڑھائی پر اس طرف اشارہ کیا جو بالکل میرے مخالف سمت میں تھا، فوجیوں کی بندوقوں کا رخ فوراً  اسی طرف ہوگیا، میں نے ایک گہری سانس لی اور اس طرف دیکھنے لگی جدھر لڑکے نے اشارہ  کیا تھا، آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے پر مجھے ایک سفید دھبہ سا نظر آیا جو غیر محسوس طور پر حرکت کر رہا  تھا گبرائیل؟؟؟میرے دل سے آواز آئی۔۔۔۔۔بیچارہ۔۔۔۔

میرا دل ترحم اور ہمدردی کے جذبے سے بھر گیا آخر وہ بھی تو میری طرح زندہ رہنے کا حق رکھتاہے، پھر خیال آیا کہ وہ جنگلی اتنا بیوقوف نہیں لگتا کہ اتنی آسانی سے جرمنوں کے قابو آجائے، پھر کون ؟ یاٹی۔۔۔۔برفانی انسان۔۔۔مجھے جھرجھری سی آئی گولی چلنے کی آواز آئی اور کوئی بھد بھد کرتا درختوں کے پیچھے بھاگا ساتھ ہی ایک دھاڑ سنائی دی، یہ پولر بیئر کی آواز تھی، بھاری بھرکم سفید ریچھ چیختا ہوا اب پوری طرح سامنے آگیا اس کے ساتھ اس کا ایک چھوٹا سا بچہ بھی تھا جو خون میں لت پت تھا، فوجیوں نے نشانہ لے کر مشین گن کا برسٹ مارا، بھالو پٹخیاں کھاتا لڑکھتا ہوا نیچے گرا، اس کا بچہ شاید پہلے ہی دم توڑ چکا تھا کیونکہ اس نے کوئی جنبش نہیں کی، ریچھ کچھ دیر تڑپتا رہا پھر جان ہار گیا، فوجی قہقہے لگاتے جیپ کی طرف پلٹے اور چرواہے لڑکے کو گردن دبوچ کر دھکا دیا، لڑکا گرتے گرتے بچا دونوں جرمن اپنی جیپوں میں بیٹھے اور جیپیں واپسی کے لئے مڑ گئیں، لڑکا دیر تک دور جاتی ہوئی جیپوں کی طرف دیکھتا رہا پھروہ مڑا، اس نے سیدھا میری کمین گاہ کی طرف دیکھا، ہاتھ ہلایا اور وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔۔۔ اس کا چھوٹا کتاہلکے سے بھونکا اور لڑکے کے پیچھے دوڑ گیا، احسان مندی اور موت کے اتنے قریب سے گزر جانے پر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔۔صورت حال مخدوش تھی، وہ انسانی جسم کی خوشبو پر مفروروں قیدیوں کو تلاش کرنے والے کتے بھی اپنے ساتھ لاسکتے تھے، میں نئے عزم کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی، مجھے ان کے ہاتھ نہیں آنا تھا چاہے ان کی گولیاں اور ان کے کتے کتنے ہی تیز ہوں، فی الحال آلپس کے فلک بوس برف پوش کے پہاڑی سلسلے تک زندہ پہنچنا میرا مشن تھا! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں مر رہی تھی، کمزوری اور سردی کی شدت سے میں ہلنے جلنے سے قاصر تھی ہاتھوں پیروں میں جان نہ تھی میرا سارا جسم ایک پکے ہوئے پھوڑے کی طرح تپک رہا تھا، بھیگے ہوئے کپڑوں سے دھیمی دھیمی بھاپ نکل رہی تھی، بال لکڑی کی تیلیوں کی طرح سوکھ کر کانٹا ہوگئے تھے اور پیروں کی کھال پھٹ کر چمڑا ہوگئی تھی۔ اس پناہ گاہ میں ہوا کی شدت سے بچاؤ تو تھا مگر لعنتی جان لیوا برف جو بلا تھمے رات سے گرے جارہی تھی اور سردی کی شدت سے کوئی پناہ نہ تھی، پچھلے دو گھنٹوں سے نالے پھلانگتی، پتھروں سے لڑتی، برف کے طوفان سے جوجتی، کسی پناہ کی تلاش کرتے ہوئے مجھے یہ کٹاؤ نظر آیا تھا، کٹاؤ کیا تھا شاید کسی برفانی بھیڑیئے کا بھٹ تھا میں نے بلا کچھ سوچے سمجھے اس میں گھس کر ایک دیوار سے ٹیک لگا لی اور گہرے گہرے سانس لینے لگی،

مجھے خالی پیٹ سانس لینے میں بھی تکلیف ہو رہی تھی، نقاہت سے مجھ پر غشی طاری ھونے لگی اور میں ایک طرف ڈھے گئی، اسی لمحے کسی کے بھاری قدموں کی آواز آئی اور بھٹ کے داخلی  راستے پر کسی کا سایہ سا پڑا ، نازی۔۔۔۔۔وہ آگئے۔۔۔۔

میں نے بےہوش ہوتے ہوتے بھی دہشت اور خوف کے علم میں سوچا اور بےخبر ہوگئی۔ آنکھ کھلی تو بھٹ میں روشنی تھی باہر چمدار دھوپ پھیلی ہوئی تھی، برف کا طوفان گذر گیا تھا، ہوا کے جھکڑ کم ہو گئے تھے، میرے جسم پر چیسٹ نٹ کی ایک گھنیری پتوں والی شاخ پڑی تھی اور اس کے اوپر ایک موٹی جیکٹ،

میں نقاہت سے کراہی، اسی وقت کسی نے سر ڈال کر بھٹ کے اندر جھانکا، یہ گبرائیل تھا، اس نے خاموشی سے لکڑی کی طرح سوکھی ڈبل روٹی کا ایک سخت ٹکڑا میری طرف بڑھا دیا، گبرائیل کے چہرے کی وہ سختی غائب ہو چکی تھی جو مجھے پہلی ملاقات میں نظر آئی تھی، ڈبل روٹی دیکھ کر میرے خشک گلے میں سنسنی  سی  ہونے لگی ،پیٹ میں گڑگڑاھٹ ہوئی۔۔ مگر کمزوری کی وجہ سے میں جنبش بھی نہ کر سکی، اب وہ بھٹ کے اندر آدھا داخل ہوا کیونکہ وہاں جگہ ہی اتنی کم تھی، اس نے ایک ہاتھ میرے شانے پر رکھ کر مجھے اٹھایا اور اپنے ہاتھ سے روٹی کا ٹکڑا توڑ کر میرے منہ میں رکھا، دو گھونٹ پانی پینے کے بعد میری قوت لوٹنے لگی، میں نے تشکر آمیز نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور ڈبل روٹی اس کے ہاتھ سے تقریباً  جھپٹ لی اور جلدی جلدی بڑے بڑے نوالے نگلنے لگی، وہ اپنی سیاہ چمکدار آنکھوں سے مجھے دیکھتا رہا۔۔۔ حیرت اور استعجاب سے اس کے سوکھے ہونٹ کھل گئے تھے۔

ابھی میرے جسم میں طاقت آئی ہی تھی کہ بھٹ کے باہر ایک خوفناک غراہٹ سنائی دی، اس بھٹ کا اصلی مالک لوٹ آیا تھا، میں نے اس جسیم جانور کے کھلے جبڑے اور اور غضبناک چہرے کی صرف ایک جھلک دیکھی یہ “گرے وولف” تھا جو شکار کرکے واپس لوٹا تھا، دانت نکوستا غراتا ہوا بھیڑیا اپنے گھر پر قابض مہمانوں سے سخت ناخوش نظر آتا تھا،

گبرائیل نے رائفل کو لاٹھی کی طرح گھمایا مگر بھیڑیا  ذرا بھی خوفزدہ نہ ہوا، میں نے چھوٹی کلہاڑی گبرائیل کی طرف پھینکی، گبرائیل نے رائفل ایک طرف رکھ دی اور کلہاڑی گھماتا ہوا بھیڑیے کی طرف بڑھا، بھیڑیا  ذرا پیچھے ہٹا اور پھر اس نے گبرائیل پر چھلانگ لگائی، ہوا میں چھپٹتے ہوئے بھیڑیے کے منہ پر کلہاڑی کا تیز دھار پھل پوری انسانی قوت سے لگا اور وہ دوسری طرف الٹ گیا، مگر جی دار جانور تھا لوٹ پوٹ کر فوراً  کھڑے ہوکر غرانے لگا، گبرائیل نے دوبارہ  کلہاڑی اٹھائی اور بھیڑیا چیختا ہوا بھاگا، گبرائیل بھی تھوڑی دور تک اس کا پیچھا کیا پھر پھولی سانسوں کے ساتھ لوٹ آیا ۔۔بھگوڑا،

گبر ائیل ادھر کیسے آیا؟ میں نے حالات سازگار ہونے پر سب سے پہلے پوچھا۔۔ بھگوڑا کیا؟ اس کو رومانیہ کی زبان پوری طرح نہیں آتی تھی فیوجٹیو۔۔۔۔۔۔میں نے سر ہلا کر کہا ہم بھگوڑا۔۔۔۔۔ تم بھی بھگوڑا۔اس کے ہونٹوں پر ایک کھنچاؤ آیا، شاید وہ سوکھے ہونٹوں سے مسکرانے میں تکلیف محسوس کر رہاتھا ُادھر ۔۔۔۔۔اس نے ہاتھ پھیلا کر اس طرف اشارہ  کیا جدھر جرمن فوجیوں نے پولر بیئر اور اس کے معصوم بچے کو بے سبب مار ڈالا تھا، میں اُدھر تھا جب وہ پاگل لوگ آیا مگر وہ مجھے نہیں دیکھا، پھر میں بھاگ کر ادھر آیا، یہاں ایک ” خوبوف مومیچی” مشکل میں تھی، ایک بھگوڑے نے اس کو مدد کیا، اس نے سرد ہوا کے ایک جھونکے سے کپکپا کر کہا، خوبوف مومیچی کیا؟ میں نے انجان بن کر پوچھا۔۔۔

بیوٹی فل گرل!وہ کچھ چھینپ کر بولا،

میں ہنس پڑی۔۔۔۔۔یہ دنیا ہے اور اس میں بسنے والی مخلوق میں انسان اس ہی لیے سب سے مختلف ہے کہ ہر  حالت میں اس کے زندگی سے جڑے جذبے زندہ رہتے ہیں، میں نے خوش دلی سے سوچا اور اپنے جسم پر پڑی جیکٹ  اٹھا کر اس کو واپس کی جو اس نے بلاتکلف لے کر پہن لی۔۔

اب ہم دونوں میں ایک قسم کی غیر محسوس ذہنی ہم آہنگی قائم ہونے لگی تھی، ہمارا مشن ایک تھا، ہم دونوں کی منزل آلپس کا سلسلہ کوہ تھا، دونوں ہی جرمن کے کتوں سے چھپنا چاہتے تھے، دونوں مشین گنوں سے بچنا چاہتے تھے اور دونوں ہی زندہ رہنا چاہتے تھے

ہم چلتے رہے، اونچے نیچے پتھریلی گھاٹیوں پر چلنا آسان نہ تھا، ہمارے پیر سوج کر کپا ہوگئے تھے، وہ تیزگامی دکھاتا تو میں پیچھے رہ جاتی، مجھے بار بار لگتا کہ اب وہ مجھے چھوڑ کر چلا جائے گا مگر حیرت انگیز طور وہ صبر کے ساتھ میرا انتظار کرتا، برفیلی ندی سے بوتل میں بھرا ہوا پانی ضرور موجود تھا مگر خشک روٹی کا  ذرا سا ٹکڑا بچا تھا جو ہم نے  جانے کس طرح اپنے اوپر جبر کرکے بچا رکھا تھا، نہ جانے ابھی کتنے دن اور ہم کو یہ کربناک مصائب جھیلنا تھے،

چلتے چلتے سورج کی گرمی مدھم ہونے لگی اور وہ مغرب کی طرف جھکنے لگا، اوپر پہاڑوں سے کہر کے گہرے بادل نیچے آنے لگے اور یخ بستہ ہوائیں تیز ہوگئیں،  ذرا سی دیر میں اندھیرا چھاجانا تھا۔۔ ہم کو کسی پناہ گاہ کی تلاش تھی، جلدی ہی گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا گیا اور ہم بار بار راہ بھٹکنے لگے، چیختی چنگھاڑتی  سرد ہواؤں کے تھپیڑوں سے میرے پاؤں اکھڑنے لگے ۔۔میں بےدم ہو کر گری اور میں نے آگے بڑھنے سے انکار کردیا۔۔

“اٹھو بے وقوف لڑکی، ہم مر جائیں گے یہاں اس برف کے طوفان میں” وہ بےبسی سے بولا

تم چلے جاؤ گبرائیل، میری فکر مت کرو ہم میں سے کسی ایک کو تو زندہ رہنا چاہیے” میں نے گھٹی گھٹی آواز میں کہا!

سرد ہوا کے تھپیڑوں سے اس  کے قدم بھی لڑ کھڑا  رہے تھے ۔۔اس نے کچھ دیر تو میرے اٹھنے کا انتظار کیا پھر میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر کھڑا کیا اور مجھے اپنے کندھے کے ساتھ لگا کر بولا “ہم کو آج کی رات ہی آلپس کی اس وادی تک پہنچنا ہے جہاں سے جیپسیز اور خانہ بدوش قافلے سرحد کراس کرتے ہیں ورنہ کل تک یا تو ہم سردی سے مر جائیں گے یا جرمن کے کتے اور بھیڑیے ہم کو چیڑ پھاڑ کر کھاجائیں گے”

میں نے بےبسی سے اس کی بات سنی اور لڑکھڑاتی ہوئی اس کا ہاتھ سختی سے پکڑے گھسٹتی رہی، اس کے کھردرے ہاتھوں سے حرارت سی نکل کر میرے جسم میں منتقل ہورہی تھی، چلتے چلتے میں اس کے شانوں پر تقریباً جھول گئی، اس نے کوئی تعرض نہیں کیا، میں اس کے کندھے کے ساتھ لپٹ کر چلنے لگی، مجھے ایسا لگا جیسے ہم دونوں ایک دوسرے کے جسم کی گرمی سے توانائی حاصل کر رہے ہیں۔۔۔ میرا سارا بوجھ اس کے شانے پر تھا اور ہماری گرم گرم سانسیں ایک دوسرے کے   چہرے سے ٹکرا کر بھاپ میں تبدیل ہو رہی تھیں،

آخر رات کی تاریکی میں برفیلی پہاڑیوں کی مدھم چمک میں وہ پگڈنڈی دکھائی دی جو آلپس کے دامن کو چھوتی تھی،

میں نے اپنے سرد بےجان ہاتھوں سے گبرائیل کے گال سہلائے “آخر ہم پہنچ گئے، وہ کچھ نہ بولا،

میں   آہستہ آہستہ اس کے بالوں بھرے گال پر اپنی انگلیاں پھیرتی رہی، وہ اسی طرح بے نیازی سے مجھے اپنے ساتھ لپٹائے چلتارہا اور ہم ایک دوسرے کے جسم کی حدت سے گرمی کشید کرتے آہستہ آہستہ کم مشقت والی اترائی کی طرف بڑھتے گئے، مجھے لگا کہ ہم ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے ہیں، ہم پرانے بے تکلف دوست ہیں ،بہت عرصے سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں،

اپنے اپنے وطن میں ہماری خوشیاں دکھ سکھ ،ہمارے تہوار سب ایک جیسے ہیں ،سب کو جنگ سے نفرت ہے، سب زندہ رہو اور دوسروں کو زندہ رہنے دو کے اصول پسند کرتے ہیں،

اب گبرائیل میرے ساتھ ایسا برتاؤ کر رہا تھا جیسے میرے وطن میں لڑکیوں سے کیا جاتا ہے اور جو ہر مہذب معاشرے میں کیا جاتا ہے، عورت جو عزت اور توقیر کی نظر سے دیکھی جاتی ہے اور مرد اس کے جسمانی تحفظ کا ذمہ دار ہوتا ہے اور وہ واقعی ایک مہذب اور دلیر انسان کی طرح میری حفاظت کی طرف سے فکرمند تھا۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے!

Facebook Comments

رفعت علوی
لکھاری،افسانہ نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply