‏سوڈان میں خانہ جنگی کی حالیہ صورتحال/محمد احسن سمیع

ہفتہ 15 اپریل 2023 کے دن سحری کے بعد ہم نماز فجر اور تلاوت سے فارغ ہو کر کچھ دیر سونے کے لیے لیٹے ہی تھے کہ اچانک شدید قسم  کی فائرنگ اور دھماکوں کی آواز سے آنکھ کھل گئی۔ پہلے پہل تو یوں لگا کہ شاید سامنے والے فلیٹ میں کنسٹرکشن کا جو کام چل رہا ہے، وہاں کوئی ملبہ گرا ہو گا،تاہم جب اس سمت دیکھا تو ایسا کچھ نظر نہیں آیا، جبکہ گولیوں کی تھرتھراہٹ بدستور جاری رہی۔

اس سے قبل بدھ کو رات گئے یہاں کی مسلح افواج نے اچانک ایک بیان جاری کیا تھا جس میں انہوں نے طاقتور پیرا ملٹری فورس “قوات دعم سریع” پر غیر قانونی موبلائزیشن کا الزام عائد کرتے ہوئے اس کے اس اقدام کو ملکی امن و امان کی نازک صورتحال سے کھلواڑ کے مترادف قرار دیا تھا۔اس غیر معمولی اعلامیے کے بعد مختلف ملکی اور غیرملکی قوتیں اس تصفیے کے حل کے لیے متحرک ہوگئیں اور جمعے کے دن فریقین کی جانب سے معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا گیا جس کے بعد شہریوں نے کچھ اطمینان محسوس کیا اور حالات معمول پر آنے کی امید پیدا ہوئی۔ عمومی رائے یہ تھی کہ دونوں فریق اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے براہ راست مسلح تصادم کا محض ڈراوا دے رہے ہیں یعنی یہ ایک بلف ہے اور اصل میں کوئی بھی کشیدگی کو اس سطح پر لے جانے کا خطرہ مول نہیں لے گا۔

بہرحال، ہفتہ کی صبح یہ اندازے غلط ثابت ہوئے اور صبح 7 ساڑھے سات بجے کے قریب واقعتاً لڑائی شروع ہو گئی۔ پہل کس نے کی، اس کی حقیقت تو شاید کبھی معلوم نہ ہوسکے۔دونوں فریق ہی ایک دوسرے پر حملوں میں پہل کرنے کا الزام لگا رہے ہیں، تاہم قرائن سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پہل نیم فوجی تنظیم کی جانب سے ہی کی گئی ہوگی کیونکہ انہوں نے ہی اپنے دستوں کو موبلائز کیا ہوا تھا اور ابتدائی حملوں کے وقت فوج بالکل “آف گارڈ” پائی گئی، جس کی وجہ لڑائی کے ابتدائی گھنٹوں میں ہی دعم سریع ایئر پورٹ، قصر جمہوری اور کچھ دیگر اہم تنصیبات پر قابض ہونے میں کامیاب ہوگئی۔ فوج کو اس اچانک ہوئے ابتدائی حملے سے سنبھلنے میں کچھ وقت لگا جس کے بعد اس نے جوابی کارروائیاں شروع کیں، تاہم تب تک دعم سریع کافی حد تک قیادۃ العامہ (فوج کا ہیڈکوارٹر) کا محاصرہ کر چکی تھی۔ خیر، جیسے جیسے وقت گزرا، فوج کی جوابی کارروائیوں میں تیزی آتی گئی اور طاقت کا توازن بحال ہونے گا۔ اسی دوران مسلح افواج نے اپنی فضائیہ کو بھی متحرک کردیا جس کے پے در پے حملوں کی وجہ سے دعم سریع کے قدم کچھ جگہوں پر اکھڑنا شروع ہوئے۔

اس بیچ فوج نے مختلف سمتوں سے تازہ دم دستوں کی کمک طلب کی اور خرطوم شہر کے داخلی راستوں کا کنٹرول سنبھالنے کی کوششیں شروع کیں تاکہ دعم سریع کی سپلائی لائن کو کاٹا جا سکے، جس کی طاقت کا اصل مرکز مغرب میں دارفور کا علاقہ ہے. دریں اثنا فوج کی طرف سے دعم سریع کے خرطوم شہر میں موجود مختلف معسکرات پر حملے بھی جاری ہیں اور فوج ان کے کئی اڈوں کا کنٹرول سنبھالنے کا دعوی کر رہی ہے۔اس سب کے باوجود لڑائی ابھی تک جاری ہے، اگرچہ ایسے اشارے موجود ہیں کہ دعم سریع کی پوزیشن مجموعی طور پر کمزور ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے 24 گھنٹے کی جنگ بندی پر (جس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا) پہلے اور فوری رضامندی ظاہر کی۔

سوڈانی عوام کی غالب اکثریت اس لڑائی سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے کیونکہ وہ فوج اور دعم سریع دونوں سے ہی نفرت کرتے ہیں۔ عمر البشیر کے 30 سالہ دور، اکتوبر 2021 میں اقتدار پر دوبارہ قبضے اور پھر مظاہرین پر کریک ڈاؤن کی وجہ سے فوج کو ناپسند کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف دعم سریع کی شہرت تو اس سے بھی زیادہ بدتر ہے۔دعم سریع بنیادی طور پر اس کے سربراہ، محمد حمدان دقلو المعروف “حمیتی” کی ذاتی ملیشیا ہے جس کی جڑیں دارفور کی جنگ میں لڑنے والی جنجوید ملیشیا میں پائی جاتی ہی۔ ان پر 2000 کی دہائی کی دارفور جنگ اور اس کے بعد بھی دارفور اور دیگر باغی علاقوں میں انسانی حقوق کی شدید ترین خلاف ورزیوں کا الزام ہے۔علاوہ ازیں سن 2019 کے رمضان قتل عام میں دعم سریع نے کلیدی کردار ادا کیا تھا جس میں 200 سے زائد مظاہرین جاں بحق ہوئے تھے۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھیں کہ عمر البشیر کے ہاتھوں پروان چڑھا حمیتی آج سیکیولر ازم کا چیمپئن بنا دنیا کو سوڈان کی “انتہا پسند اسلامسٹ” فوج سے ڈرا رہا ہے جبکہ اسی دوران اس کی ملیشیا کے لڑاکے شہر میں لوٹ مار اور سویلینز کے گھروں میں گھس کر دہشت پھیلانے میں مصروف ہیں۔

اس تحریر کے قلمبند کیے جانے تک لڑائی جارہے،اور خرطوم شہر ایک بڑے انسانی المیے سے دوچار ہے۔ کئی علاقوں میں چار دن سے بجلی اور پانی کی سپلائی منقطع ہے جبکہ عملاً پورا شہر ہی اپنے اپنے گھروں میں محصور ہے۔ چونکہ یہ لڑائی اچانک شروع ہوئی اس لیے عوام کی اکثریت اس کے لیے قطعاً تیار نہیں تھی اور لوگوں کے گھروں میں راشن،پانی، ایندھن اور دواؤں کا وافر اسٹاک موجود نہیں تھا۔ شدید لڑائی کے سبب باہر جا کر خوراک کا  انتظام کرنا بھی خطرے سے خالی نہیں مگر بہت سے لوگ یہ جوکھم اٹھا رہے ہیں۔سلام ہے مقامی دکانداروں پر کہ انہوں نے موقع پرستی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے انسانیت پر عمل کیا اور اشیاء اپنی اصل قیمت پر فروخت کیں۔ حالانکہ یہ چند دکانیں لوگوں نے حقیقتاً اپنی جان پر کھیل کر کھولی ہوئی ہیں۔

ہسپتالوں کی صورتحال بہت نازک ہے۔ 20 سے زائد ہسپتال بمباری سے متاثر ہونے کی وجہ سے بند ہوچکے ہیں جن میں ملک کا سب سے بڑا بچوں کا ہسپتال بھی شامل ہے۔ آکسیجن اور دواؤں کی قلت کا سامنا ہے جبکہ مسلسل لڑائی کی وجہ سے مقامی اور بین الاقوامی امدادی اداروں کو رسائی میسر نہیں ،اگر جلد کوئی حل نہ نکالا گیا تو خدانخواستہ بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔

غیر ملکیوں کے انخلاء کی کوششوں کا فی الحال کوئی امکان نہیں ، شہر کا ایئرپورٹ لڑائی سے متاثر ہونے کی وجہ سے بند ہے اور خرطوم میں داخلے اور اخراج کا یہی محفوظ ترین راستہ ہے،زمینی راستوں کے ذریعے انخلاء عملاً ناممکن ہے کیونکہ خرطوم شہر ملک کے بالکل وسط میں موجود ہے اور کسی بھی سمت میں بارڈر 1000 کلومیٹر سے کم فاصلے پر نہیں اور مصر کے علاوہ ہر بارڈر اس خانہ جنگی سے پہلے بھی جنگ زدہ تھا، سو زمینی راستے بذات خود نہایت غیر محفوظ ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ہلاک ہونے والے غیر ملکیوں میں اقوام متحدہ کے تین اہلکار اور ایک بھارتی شہری شامل ہیں۔لڑائی کے دوران سفارتی اہلکاروں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔یورپی یونین کے سفیر کی رہائش گاہ پر حملہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ امریکی سفارت خانے کے ایک بکتربند قافلے پر حملہ ہوا،یورپی یونین کا ایک سفارتکار شدید زخمی بتایا جاتا ہے۔

پاکستانی سفارتخانہ کمیونٹی سے مسلسل رابطے میں ہے مگر فی الحال ان کی دسترس میں بھی کچھ نہیں سو ابھی انتظار کرو اور دیکھو والی پالیسی ہی اپنائی جاسکتی ہے، میں یہ تحریر واقعتاً گولیوں اور گولاباری کی گھن گرج میں لکھ رہا ہوں، اوپر جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹر پرواز کر رہے ہیں جن پر زمین سے فائرنگ کی جا رہی ہے،لڑائی میں جنگی طیاروں، ہیلی کاپٹرز، بھاری اینٹی ایئرکرافٹ گنز، ٹینکس، راکٹس اور توپخانہ کا استعمال کیا جا رہا ہے،عملا ً یہ خانہ جنگی دو ملکوں کی لڑائی جیسی دکھائی دیتی ہے،دونوں فریق بھاری ہتھیاروں سے پوری طرح مسلح ہیں اور ان کا استعمال بھی کر رہے ہیں۔سوڈانی فوج کو البتہ فضائی برتری اور ٹینکوں کی مدد حاصل ہے جبکہ دعم سریع، جسے انگریزی میں ریپڈ سپورٹ فورسسز یا RSF کہا جاتا ہے، ان کے پاس فضائی قوت اور بھاری ٹینکس تو نہیں لیکن بکتر بند گاڑیاں اور ملٹی بیرل راکٹ لانچرز میسر ہیں۔

اللہ کا شکر ہے کہ ہماری طرف ابھی تک بجلی، پانی، فون اور انٹرنیٹ کی فراہمی جاری ہے۔ آپ سب سے دعاؤں کی درخواست ہے، دعا کیجئے کہ اللہ تبارک تعالیٰ جلد اس مسئلے کو حل فرما دے اور یہاں موجود سبھی لوگوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، اس بے تکی اور مفاد پرستانہ لڑائی میں اب تک 200 کے قریب شہری جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ 2000 سے زائد زخمی ہیں۔

منگل کی شام 24 گھنٹے کی جنگ بندی کااعلان کیا گیا تھا مگر  اس پر عملدرآمد میں قطعاً ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور فوج کی جانب سے دعم سریع کی پوزیشنز پر حملے جاری رہے،فوج کو بڑی مشکل یہ درپیش ہے دعم سریع والے رہائشی علاقوں میں پوزیشنز لے کر بیٹھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے اسے جوابی کاروائی بہت دیکھ بھال کے کرنی پڑ رہی ہے تاکہ سولینز کو کم سے کم نقصان پہنچے، ویسے تو سوڈانی فوج کا بھی انسانی حقوق سے متعلق ریکارڈ کچھ خاص قابل رشک نہیں مگر حالیہ تنازع میں فوج اپنا تاثر بہتر کر نے کے لیے سویلینز کا نقصان محدود رکھنے پر خصوصی توجہ دے رہی ہے جس کی وجہ سے تا حال فوج کی کاروائیوں میں شہریوں کے نقصان کی خبریں نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ سوشل میڈیا پردعم سریع کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وڈیوز مسلسل گردش کر رہی ہیں، اگرچہ دعم سریع کے راتب خور میڈیا لابسٹس مسلسل اس کے لیڈر کو انسانی حقوق کا علمبردار بنا کر پیش کرنے میں مصروف ہیں۔

بدھ کی شام دوبارہ 24 گھنٹے کی جنگ بندی کا اعلان ہوا اور اس بار کم از کم فجر تک اس پر کافی حد تک عمل درآمد ہوا مگر اس کے بعد فوج نے ام درمان کے مغرب میں موجود دعم سریع کی پوزیشنز کو بھاری توپ خانے سے نشانہ بنایا  ہے  اور علی الصباح جنگی طیاروں کی پروازیں شروع ہوگئیں، دعم سریع فوج کے 2 ہیلی کاپٹر گرانے کا دعویٰ کیا ہے جس کی تاحال تصدیق نہیں کی جا سکی، واضح رہے کہ دعم سریع اس سے پہلے بھی جنگی طیارے مار گرانے کے دعوے کر چکی جو بعد ازاں غلط ثابت ہوئے۔

آخر اطلاعات تک ایئرپورٹ پر قبضے کی لڑائی جاری ہے، اس کے علاوہ خرطوم کے علاقوں خرطوم 2 اور   کافوری میں دعم سریع کی پوزیشن بہتر ہے،دعم سریع بار بار قصر جمہوری پر قبضے کا دعویٰ کرتی ہے مگر اس کی حیثیت محض علامتی ہے کیونکہ سوڈان میں جمہوریت ہے  اور نہ ہی فوج کے سربراہ وہاں رہائش پذیر تھے، وہاں سے کسی حکومتی وزیر یا سینئر اہلکاروں کی گرفتاری کی اطلاع نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ سبحانہ و تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو، آمین یا رب العالمین!

Facebook Comments

محمد احسن سمیع
جانتے تو ہو تم احسنؔ کو، مگر۔۔۔۔یارو راحلؔ کی کہانی اور ہے! https://facebook.com/dayaarerahil

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply