ایڈورڈ سعید: ایک تعزیتی خاکہ۔۔فضیل جعفری

  بیسویں صدی میں ایسے بہت کم لوگ  گزرے ہیں جن کا موازنہ ایڈورڈ سعید کے ساتھ کیا جا سکے- ان کی شخصیت حقیقی معانی  میں  ہمہ گیر  تھی- وہ بیک وقت بہت بڑے ادیب تھے اور نظریہ ساز بھی- ایڈورڈ سعید سماجی فلسفی بھی تھے اور ایک ماہر مستشرق بھی- وہ سیاسی تجزیہ کار بھی تھے اور میدان سیاست کے شہسوار بھی-اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے ادب سے لے کر سیاست تک جس میدان میں بھی قدم رکھا ان کی حیثیت مرد میدان والی تھی- جارج بش ہوں یا ایریئل شیرون، بڑے سے بڑا آمر بھی ان سے خوفزدہ رہتا تھا- اسی لیے  عراق جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی سی-این-این اور فاکس جیسے ٹی-وی چینل ان کے لیے   شجر ممنوعہ، بنا دیا گئے  تھے-برطانوی اور امریکی اخبارات نے ان کے انٹرویو اور بیانات شائع کرنے کا سلسلہ بالکل بند کر دیا تھا-

دسمبر (2003) کو 67 سال کی عمر میں انتقال کر جانے والے ایڈورڈ سعید یکم نومبر 1935 کو مغربی یروشلم کے مضافاتی علاقے طالبیہ میں پیدا ہوۓ- ان کے والدین کھاتے پیتے عیسائی  عرب تھے- 1947 میں سعید کے والدین مارٹن بو بر اور دیگر   خاندان کے افراد  کو جبراً  جلا وطن کر دیا گیا- ان کے گھر پر ایک پڑوسی یہودی نے قبضہ کر لیا- سعید نے دراصل اپنی پوری زندگی جلاوطنی میں ہی گزاری- ابتدائی  چند برسوں تک قاہرہ میں رہنے کے بعد  وہ امریکہ چلے گئے – پرنسٹن اور ہارورڈ جیسی مشہور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے اور ہارورڈ سے پی-ایچ-ڈی حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر سعید کولمبیا یونیورسٹی (امریکہ) میں سیاست اور جمالیات کے پروفیسر ہو گئے  اور تا دم آخر اسی سے وابستہ رہے- ویسے Yale اور جان ہاپکنز یونیورسٹیوں میں بھی انہیں وقتاً  فوقتاً  وزیٹنگ پروفیسر کے طور پہ بلایا جاتا رہا- ایڈورڈ سعید کو ادب، فلسفہ، تھیوری اور سیاست وغیرہ کے علاوہ موسیقی سے بھی گہرا شغف تھا-

انہوں نے اپنی تدریسی مصروفیت  کے باوجود نہ صرف جولپرڈ  سکول میں کلاسیکی مغربی موسیقی کی  باقاعدہ  تعلیم حاصل کی بلکہ موسیقی کی تھیوری پر Musical Elaborationism اور Parallels and Paradoxes  نامی  مشہور  کتابیں بھی  لکھیں- موسیقی  سے متعلق  ان  کے  تبصرے  روزنامہ   نیشن،  کے  اتوار  ایڈیشن  میں شائع  ہوا  کرتے  تھے- نادر  روزگار شخصیت کے حامل ایڈورڈ سعید کو انگریزی کے علاوہ عربی، فرانسیسی اور عبرانی زبانوں پر مکمل دسترس حاصل تھی- صیہونیت سے شدید نفرت کی وجہ سے انہوں نے عبرانی زبان میں کبھی نہیں لکھا لیکن وہ فرانسیسی اخبار La Monde اور عربی کے مشہور اخبارات ‘الاہرام، اور ‘الحیات کے مستقل کالم نگار تھے- ان کے بارے میں مشہور آئرش نقاد ‘سیمس ڈین، (Seamus Deane) نے  چند  سال قبل  بالکل  صحیح  لکھا تھا ‘ایڈورڈ سعید ایک ایسے حقیقی دانشور ہیں جو دنیا کے عظیم ترین عالموں  اور  عوام میں یکساں طورسے پسند کیے جاتے ہیں اور سبھی ان کا احترام کرتے ہیں، ڈین کی یہ راۓ ایڈورڈ سعید کی شخصیت، ان کی علمیت اور ان کے نظریات کی آفاقیت کی طرف اشارہ ہے- انہیں محض فلسطینی دانشور کھ کر نہیں ٹالا جا سکتا- سعید کی بے حد مشہور و مقبول کتابوں میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں: Covering the Islam After the Last Sky Blaming the Victims The Question of Palestine The Critical Race Theory The Politics of Dispossession and Peace and its Discontents Representations of the Intellectual The World, the Text and the critics ۔

ہماری  یادداشت  کے مطابق  اس کتاب میں پہلی بار انہوں نے نئی  اصطلاح ‘مابعد جدیدیت، (Post-Modernism ) استعمال کی- اب زندگی کے مختلف گوشوں سے تعلق رکھنے والے شعبوں میں ‘مابعد جدیدیت، نظریات عام ہو گئے  ہیں- لیکن ایڈورڈ سعید کو جس ایک کتاب سے آفاقی شہرت ملی وہ ہے 1978 میں شائع ہونے والی ان کی مشہور معتبر تصنیف ‘Orientalism, دستاویٰزی نوعیت کی حامل اس کتاب میں انہوں نے یہ بتایا کہ فرانسیسی اور برطانوی مستشرقین نے کس طرح ‘مشرق، کی بالکل غلط نمائندگی کی ہے- ایسا  کرتے  ہوۓ  انہوں  نے  مغربی علم کا بھانڈا یہ کہہ  کر پھوڑ دیا کہ مغربی مفکرین مشرقی کلچر اور باشندوں کو سمجھنے کے اہل نہیں ہیں- اگر یہی کتاب کسی امریکہ یا اسرایئل نواز ادیب نے لکھی ہوتی تو اسے یقیناً  نوبل انعام سے نوازا جاتا- ایڈورڈ سعید بھگوا دھاری ناول نگار وی-ایس-نائپال سے کہیں زیادہ اہم تھے- نوبل تو  کیا انہیں امریکہ کا وہ پلٹزر انعام بھی نہیں دیا گیا جو ہر کس و ناکس کو فیاضی سے دیا جاتا ہے اور جس کی حیثیت ہمارے یہاں کے ساہتیہ اکادمی انعام سے زیادہ نہیں ہے- اس کے فوراً  بعد لکھی جانے والی کتاب Culture and Imperialism کو دراصل اسی کتاب کا سلسلہ سمجھنا چاہیے۔

دنیا میں  انصاف پسند ادیبوں، شاعروں اور مفکروں کی کمی نہیں لیکن ایڈورڈ سعید ایسے واحد بڑے ادیب، مفکر، نظریہ ساز اور نقاد تھے جو فلسطینی مسلمانوں کے حقوق کے  لیے  زندگی کے آخری لمحے تک  لڑتے  رہے-۔انہوں نے نہ صرف اپنی شہرہ آفاق تصانیف اور تقریروں کے ذریعے عالم انسانیت کو امریکی،اسرایئلی  جارحیت،  دہشت گردی، منافقت اور بربریت سے واقف کرایا بلکہ فلسطین کی آزادی کے لیے  عملی  طور  پر بھی حصہ لیا- وہ 14 سال تک یاسر عرفات کی اس آزاد فلسطینی کابینہ کے اہم ترین رکن اور صلاح کار رہے جو انہوں نے جلا وطنی میں قائم کی تھی- انہوں نے باربار اس بات پر احتجاج کیا کہ دنیا نے ابھی تک ‘صیہونیت کے مظلوموں، کو پہچانا تھا اور نہ ہی اس حقیقت کا اعتراف کیا تھا- سعید مشرق وسطی میں قیام امن کی کوششوں کو بے ایمانی اور فریب سمجھتے تھے- ان کا ایقان تھا کہ امریکہ کے عیسائی  حکمراں خود مسلمانوں کے دشمن اور صہیونیت کے پرستار ہیں-

یہی وجہ تھی کہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی موجودگی میں جب عرفات نے اسرایئل کے ساتھ اوسلو معاہدے پر دستخط  کیے   تو وہ پی۔ایل۔او۔ سے الگ ہو گئے ۔ان کا اصرار تھا کہ اس معاہدے پر دستخط کے بعد، غیر محسوس طریقے  سے  ہی  سہی، عرفات امریکی سازش کے شریک کار بن  گئے  ہیں۔سعید نے اسی وقت یہ کہہ  دیا تھا اب اسرائیلی  دہشت گردی میں مزیداضافہ ہو جاۓ گا۔قیام امن کے نقشے بناۓ جائیں  گے۔لیکن ان کے نفاذ  کو ملتوی کیا جاتا رہے گا۔انہیں اس بات پر بھی سخت اعتراض تھا کہ اوسلو معاہدے پر دستخط کے دوران امریکی اور اسرائیلی وکلاء تو موجودتھے لیکن کوئی  فلسطینی وکیل نہیں تھا۔بقول ایڈورڈ سعید ‘یاسر عرفات کو اندازہ نہیں کہ اسرائیل کے مظالم کی کوئی  حد مقرر نہیں ہے اور وہ اپنے صہیونی مقاصد کے حصول کے لیے  کسی بھی حد تک جا سکتا ہے، اوسلو معاہدے کی اس شدید مخالفت کے نتیجے میں بعض امریکی حلقوں نے انہیں ‘دہشت گردی کا پروفیسر، (Professor of Terror) کہہ  کر  گالی  دی  لیکن  انہوں  نے اس کی پرواہ نہیں کی۔سعید، یاسر عرفات سے الگ ہو جانے کے باوجود فلسطین کی آزادی کے لیے  کام کرتے رہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

2000 میں جب انہوں نے فلسطینی حریت پسندوں کی ہمدردی میں اور بالکل انہی کی طرح لبنان کی سرحد سے ایک اسرائیلی خیمے کو نشانہ بنایا تو امریکہ کے بااثر حلقوں نے انہیں یونیورسٹی سے برخاست کرانے کی حتی المقدور کوشش کی۔ مگر کولمبیا یونیورسٹی کے ذمے داروں نے یہ کہہ  کر انکار کر دیا کہ پروفیسر سعید نے نہ تو کسی خاص کو نشانہ بنایا تھا اور نہ پتھر سے کسی کو چوٹ لگی تھی۔ چند دنوں قبل مشہور کالم نگار ‘رابرٹ فسک  کو انٹرویو دیتے ہوۓ ایڈورڈ سعید نے کہا تھا کہ “خون کے کینسر سے کمزور ہو گیا ہوں لیکن اپنا کام کیے جا رہا ہوں،میں ابھی مروں گا نہیں”، مگر نواب مرزا شوق لکھنوی نے مثنوی ‘زہر عشق، میں کیا خوب کہا ہے کہ ‘موت سے کس کو رستگاری ہے۔۔!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply