ظاہر،باطن اور کردار/ڈاکٹر اظہر وحید

”سر! کیا پہلے ظاہر کی اصلاح ضروری ہے یا باطن کی؟ کیا ظاہر و باطن کے یکساں ہونے کی کوشش میں اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے بُرا بیان کر دینا چاہیے؟ جیسا کہ ایک انسان لوگوں میں اچھا ہو اور خلوت میں بُرا ہو اور جب لوگ اس کی عزت کریں، اسے اچھا سمجھیں تو کیا اسے معذرت کر لینی چاہیے اور صاف صاف بتا دینا چاہیے کہ وہ درحقیقت کیسا ہے، اور اگر وہ اس بات کو مخفی رکھے تو کیا یہ منافقت نہ ہو گی؟“
یہ ایک سوال موصول ہوا ہے، ایک نوجوان کی طرف سے۔ یہ راولپنڈی کا شہزاد ہے جو مصر میں جامعہ ازہر میں زیرِ تعلیم ہے۔ سوال انتہائی اہم ہے۔ اس سوال ہی کی بنیاد پر ایک راہرو کے سفر کی سمت متعین ہوتی ہے۔ اسی اشکال کے حل کے ساتھ مشروط ہے، انسان کی راہِ فکر و عمل …… اسی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ انسان آنے والے دنوں میں کس منزل کا مقیم ہو گا…… آیا وہ اسی عالمِ رنگ و بو میں مخلوق کے حوالے ہو کر رہ جائے گا یا پھر اس کا باطنی حوالہ حریمِ ذات ہو گا، اور وہ باطن میں کسی مقامِ قرب پر فائز ہو گا۔
اگر فکر کے موقلم کو ذرا سی جنبش دی جائے تو قرطاس پر تصویر سامنے آ جاتی ہے۔ سنتے ہیں کہ ایک درویش سے کسی نے دین کی حقیقت کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا کہ میں نے جتنا بھی غور کیا ہے مجھے سارا دین ایک حدیث سے سمجھ میں آ جاتا ہے …… اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے۔
نیت کا تعلق انسان کے باطن کے ساتھ ہوتا ہے، اور اعمال کا ظاہر کے ساتھ…… یعنی ظاہر کے تمام اعمال کی قدر و قیمت باطن کے میزان سے متعین ہو رہی ہے۔ اگر باطن صاف ہے، نیت کھری ہے، ارادہ فی سبیل اللہ ہے تو عمل مقبولِ بارگاہ ہے، اس کے برعکس اگر نیت میں ظاہر پرستی ہے، دکھاوا ہے، مخلوق سے داد اور عقیدت کا خراج وصول کرنے کی ہوس ہے، کسی ادارے یا حکومت میں منصب کی تمنا ہے…… خواہ وہ دینی ہی کیوں نہ ہو…… تو سمجھ لینا چاہیے کہ نیت خالص نہیں، جان لینا چاہیے کہ ہمارے تمام بظاہر دینی کام، مشقتیں اور ریاضتیں دراصل ہمارے اپنے اہداف کی تکمیل تک پہنچنے کے ذرائع ہیں …… ”ذرائع ہیں“ کی ترکیب کافی نرم ہے، یہاں بے لاگ انداز کی ترکیب ”حربے ہیں“۔
باطن کے مصفا ہونے کا نام ہی تزکیہِ نفس ہے۔ جسم روح کی سواری ہے، اور روح نفس کی…… اصل ڈرائیور نفس ہے۔ یہ نفس ہے جو امارگی میں گم ہوتا ہے اور نفس ہی ہے جو لوّامہ کے مراحل سے ہوتا ہوا، مطمئنہ کی منزل پر فائز ہوتا اور پھر حالتِ تسلیم و رضا میں اپنے رب کی ندا سنتا ہے کہ ”داخل ہو جاؤ میرے بندوں میں، اور داخل ہو جاؤ میری جنت میں“ جنت اس مقام کا نام ہے جہاں رب اپنے بندے سے راضی ہو جاتا ہے اور بندہ اپنے رب سے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کی ایک دعا یاد آ رہی ہے، اور آپؒ کے ان دعائیہ الفاظ کی تفہیم ہو رہی ہے ”یااللہ! ہمیں ایسی زندگی دے کہ تو بھی ہم سے راضی ہو اور ہم بھی تجھ سے راضی رہیں“۔
قرآن میں جو مقاصدِ بعثتِ رسالت گنوائے گئے ہیں، وہ چار ہیں …… تزکیہ، علم الکتاب، تلاوتِ آیات اور حکمت…… اور ان میں سرِ فہرست تزکیہ ہے۔ تزکیہ ہو گا تو کتاب سے تمسک ممکن ہو گا، یہاں جس کتاب کی بات ہو رہی ہے وہ کتابِ مکنون ہے، جسے صرف پاک ہی مس کر سکتے ہیں۔ تزکیہ ہو گا تو آیات کی، رب کی نشانیوں کی تلاوت ممکن ہو سکے گی، رب کی نشانیوں پر تفکر و تدبر ہو سکے گا…… اور تزکیہ ہو گا تو دل کو وہ دروازہ کھلے گا جس میں حکمت داخل ہوتی ہے۔
تزکیہ نیت کا وضو ہے…… تزکیہ نیکی کا ذوق ہے، بلکہ یوں سمجھیں کہ ایک ذوقِ احسان ہے۔ نوافل کا پابند واجب اور فرائض ادا کر چکا ہوتا ہے۔ احساس کی دنیا میں رہنے والا قانون کی شقوں کا محتاج نہیں رہتا۔ جسے ایک چڑیا کا غم ستائے دیتا ہو، وہ انسانوں کے غم سے کیسے غافل رہ سکتا ہے۔ ”قلِ العفو“ کے کلیے پر کاربند اپنی گٹھڑی میں مال ہی نہیں رکھتا، اور مال جمع نہ کرنے والے کے سامنے زکوٰۃ کے مسائل کا کیا بیان؟
وضو پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے جاتا ہے، لیکن وضو کی پہلی شرط بھی پاکیزگی حاصل کرنے کی نیت ہے۔ باطن کی صفائی کا نام طہارت ہے…… ظاہرکی صفائی کو نظافت کہتے ہیں۔ یہ طہارت ہے جو نصف ایمان ہے…… ظاہر ہے ایمان کا تعلق باطن سے ہے، قلب سے ہے اور پھر روح کی گہرائیوں سے ہے۔ زبان پر حق الیقین ایسا پاک کلمہ ہو اور باطن میں تشکیک کی نجاست میں آلودہ ہو تو ایسی صورتحال ہی کا نام منافقت ہوتا ہے۔
ظاہر پرستی کی لپک بہت آسانی سے منافقت کی کھائی میں لڑھک جاتی ہے۔ اخلاص اکیلا اور تنہا کافی ہوتا ہے۔ منافقت کو جتھے بازی اور تنظیم سازی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اخلاص کا خوگر تزکیہ طلب کرے گا۔ طہارت کی طلب صرف ایک سچے طالب ہی کو لاحق ہوتی ہے۔ اپنے رب سے سچے دل سے جو چیز طلب کرو، وہ مل جاتی ہے۔ مسجدِ قبا کے دروازے پر سورۃ توبہ کی ایک آیت مرتسم ہے، مفہوم جس کا یوں ہے کہ جو اللہ سے پاکیزگی طلب کرتا ہے، اللہ اسے پاکیزگی عطا کرتا ہے۔ پس! غور طلب بات یہ ہے کہ جو بھی نامناسب بات ہمارے باطن کا حصہ بن چکی ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ ہماری طلب میں شامل تھی۔ زبان کی طلب اور دل کی طلب میں فرق ہوتا ہے۔ اقبالؒ بھی اس معاملے میں بلند آہنگ ہیں:
زبان نے کہہ بھی دیا لاالٰہ تو کیا حاصل
دل و نگہ جو مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
یاد رہے کہ مسلمان کا آسان فہم مطلب تسلیم میں آنا ہے…… اور تسلیم دل کی تسلیم کو کہتے ہیں۔ زبان سے کہہ دینا کہ مانتا ہوں، اور پھر مان کر نہ دینا…… منافقت کے ڈھکوسلے ہیں۔
باطن جب ظاہر میں نظر آنے لگے تو اسے ہی کردار کا نام دیا جاتا ہے۔ باطن کی کوئی خوبی یا خامی جب تسلسل سے ظاہر میں دکھائی دینے لگے تو اسے ہی کردار کے طور پر جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ تقدیر کردار کے حوالے سے متعین ہوتی ہے۔ کرگس کا مقدر مردار خوری ہے، کردار کا شاہین بلند نگاہی کے مقدر تک پہنچے گا۔ اب سوال کے دوسرے حصے کی طرف آتے ہیں کہ اگر انسان فی الاصل نیک نہ ہو لیکن نیک مشہور ہو تو ایسے میں وہ کیا کرے، کیا وہ اپنی بدی کا اعتراف و اعلان کرے؟ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو کیا وہ منافقت کا مرتکب ہو گا؟
انسانی معاشرے میں جس طرح چہرے پہچان ہیں، قوم اور قبیلے پہچان کا ذریعہ ہیں، اس طرح مقاماتِ عزت کی تقسیم بھی امرِ خداوندی ہے۔ بعض لوگ نیک نام مشہور ہو جاتے ہیں، اور بعض بدنام…… نیک و بد کی اصل حقیقت ہمارے باطن میں دریافت ہوتی ہے…… اور نیک و بد ہونا فی الحقیقت باطن ہی سے متعلق ہے۔ بسا اوقات ایک کم عمل شخص بھی نیک نام معروف ہو جاتا ہے اور بعض اوقات ایک نیک آدمی ملامت کی وادی سے گزرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
ایک حدیثِ پاک ہے، جس میں آئینہ دیکھنے کی دُعا تعلیم فرمائی گئی۔ مفہوم جس کا یہ ہے…… اے اللہ! جس طرح تُو نے میری صورت خوبصورت بنائی ہے، اس طرح مری سیرت بھی خوبصورت بنا دے۔ اس دعا کے الفاظ میں آپ کے سوال کا جواب موجود ہے۔ اگر ہمارا ظاہر مخلوق میں نیک معروف ہے تو ہماری دعا اور کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہمارا باطن بھی نیک خو ہو جائے۔ برائی ایک بُو ہے، نیکی خوشبو ہے۔ بُو کو دبانے کا حکم ہے اور خوشبو کو پھیلانے کا!! جس کا ظاہر خوبصورت ہو اور باطن خوبصورتی سے دور ہو، اسے چاہیے کہ باطن کو ظاہر کے مطابق خوبصورت اور خوشبودار کرے۔ باطن کی بدصورتی کا اعلان…… اور یوں سر عام…… اعلانِ شکست ہے۔ اندر کی لڑائی میں لڑتے لڑتے شہید ہو جاؤ لیکن کبھی شکست تسلیم نہ کرو!!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply