اُمِّ فیصل (11)-مرزا مدثر نواز

ہاجرہ کی ساری زندگی مصائب‘ دکھوں‘ تکالیف‘ غموں و پریشانیوں میں گزری۔ بیٹے کی نوکری کے بعد معاشی مشکلات کچھ کم ہوئیں لیکن تھوڑے عرصہ بعد ہی شوگر جیسی بیماری تشخیص ہو گئی۔ دن بدن جسم کمزور و لاغر ہونے لگا‘ علاج معالجہ بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا لیکن بیماری کنٹرول نہ ہو سکی اور پھر اچانک 1992میں 55سال کی عمر میں اس دنیا کو چھوڑ کر دوسرے جہاں کو روانہ ہو گئی۔آبائی جائیداد میں سے ہاجرہ اور دوسری بہنوں کو کفن تک نصیب نہ ہوا۔
؎ ایک کے گھر کی خدمت کی اور ایک کے دل سے محبت کی
دونوں فرض نبھا کر اس نے ساری عمر عبادت کی (زہرا نگاہ)

آج کے دور میں ہر گھر میں ایک دن میں تین نہیں تو دو دفعہ تازہ ہنڈیا ضرور بنتی ہے جبکہ نوّے کی دہائی یا دو ہزار کے اوائل تک مڈل یا لوئر کلاس گھرانوں میں صرف ایک دفعہ شام کو تازہ ہنڈیا بنتی اور وہ بھی زیادہ تر دال ہی ہوتی۔ گوشت مہینہ میں ایک یا دو دفعہ ہنڈیا کی زینت بنتا اور وہ بھی ایک خاندان کے لیے آدھاکلو یا تین پاؤ۔ فیصل کو آج بھی بچپن میں دھنیا و پودینہ   ،ٹماٹر، پیاز کی چٹنی‘ تلی ہوئی ہری مرچ‘ تلے ہوئے یا تازہ پیاز‘ نمک و سرخ مرچ میں پانی ملا کر ان کے ساتھ دوپہر یا شام کا کھانا یاد ہے۔ گھر کے حالات دیکھتے ہوئے زبیدہ کی اولاد نے بھی کبھی کوئی فرمائش نہ کی بلکہ جو کھانے کو ملا‘ کھا لیا اور جو پہننے کو ملا‘ پہن لیا۔ 90کی دہائی میں بچوں کے لیے سکول میں پوزیشن لینے یا پاس ہونے پر ایک اچھا وِلز یا ہیرو کا سنہری کیپ والا پین یا گھڑی پرکشش تحفہ ہوتا‘ اس کے علاوہ نیا سائیکل بھی بچوں کی خوشی کو دوبالا کرنے کے لیے کافی ہوتا۔ فیصل جب چھٹی کلاس پہنچا تو اسے بھی نئے سائیکل کی شکل میں تحفہ ملا‘ وہ اپنے دونوں بھائیوں کو سائیکل پر بٹھا کر چار کلومیٹر دورواقع سکول لے کر بھی جاتا اور واپس بھی لاتا۔ یونیورسٹی میں ہر بھائی کو 100روپے ماہانہ جیب خرچ ملتا اور انہیں کبھی بھی اس سے زیادہ مانگنے کا خیال نہ آیا۔زبیدہ نے 24سال سلائی مشین چلائی اور اپنے خاوند کا ہاتھ بٹایا جبکہ دونوں میاں بیوی نے گھر اور بچوں کی تعلیم کے اخراجات پورے کرنے کے لیے 15سال تک عیدین پر بھی اپنے نئے کپڑے نہیں سلوائے اور نہ ہی نئے جوتے خریدے۔ یحییٰ کو سادات آٹوز والے شاہ جی اپنے پرانے کپڑے اور جوتے دے دیتے جبکہ زبیدہ کو اس کی ماں کپڑے و جوتے لے کر دے دیتی۔
؎ زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے!
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے (خواجہ میر درد)
؎ موت تو نام سے بدنام ہے
ورنہ تکلیف تو زندگی بھی دیتی ہے

یحییٰ نے ریلوے میں اٹھارہ سال ملازمت کی اور اسٹینو گرافر کی پوسٹ تک ترقی حاصل کی۔ 1999میں وزارت پرائیوٹائزیشن میں خالی پوسٹس کا اعلان ہوا تو محکمانہ توسط سے اپلائی کیا اور اسی سکیل (13) میں پرائیوٹائزیشن کو جوائن کیا۔ وزارت میں ترقی حاصل کرتے کرتے سینئر پرائیویٹ سیکرٹری (سکیل بی پی ایس19) تک پہنچا اور اسی سکیل میں ریٹائرڈ ہوا۔ پرائیوٹائزیشن کو جوائن کرنے کے لیے یحییٰ اور اس کے خاندان کو لاہور سے راولپنڈی ہجرت کرنا پڑی۔ یہاں بھی یحییٰ نے ایک وکیل کے پاس بطور کمپیوٹر آپریٹردوسری ملازمت کی جو 2008تک جاری رہی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی یحییٰ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پی اے کی ملازمت کر رہا ہے کیونکہ ایک مصروف و ہنگامہ خیز زندگی گزارنے کے بعد سستی و کاہلی و کسلمندی ختم ہو چکی ہے‘ لہٰذا فراغت اسے پسند نہیں۔
یحییٰ اور اس کا خاندان 1998میں راولپنڈی شفٹ ہوا تو زبیدہ کے آبائی گھر کے فرسٹ فلور پر رہائش اختیار کی‘ زبیدہ کسی کرائے کے گھر میں رہائش اختیار کرنا چاہتی تھی لیکن والدین کے بے حد

اصرار پر صرف اس شرط پر مانی کہ وہ رہنے کا کرایہ ادا کریں گے۔ لاہور والا گھر اب مکمل طور پر کرائے پر دے دیا گیا جو انہوں نے 2004میں اپنی بڑی بیٹی کی شادی کے اخراجات پورے کرنے کے لیے بیچا۔ شادی کے اخراجات کے بعد جو پیسے بچ گئے‘ ان سے راولپنڈی کے علاقہ کھنہ پل میں ایک پانچ مرلہ گھر خریداجس سے حاصل ہونے والے کرایہ نے بچوں کی تعلیم کے اخراجات پورے کرنے میں کافی مدد کی۔ راولپنڈی میں کچھ عرصہ زبیدہ اپنے والد کے گھر بطور کرایہ دار رہی‘ بعد میں اس کے والد نے راولپنڈی کے علاقہ لالہ زار میں اپنی بیٹی کو پانچ مرلہ کا پلاٹ لے کر دیا تو یحییٰ نے دفتر سے قرض لے کر وہاں اپنا گھر بنایا اور پھر آہستہ آہستہ پلاٹ کی رقم بھی اپنے سسر کو واپس کی۔لالہ زار والا گھر آج بھی یحییٰ کی ملکیت ہے اور کرایہ پر دیا ہواہے جبکہ کھنہ پل والا گھر 2014میں بیچ کر اسلام آباد کے علاقہ سی بی آر ٹاؤن میں ایک زیر تکمیل گھر خریدا گیا جس کو مکمل کرنے کے بعد وہ آج بھی وہاں رہائش پذیر ہیں اور ایک خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply