• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • تقسیم ِ پنجاب انتخابی مہم کا پُر فریب ایجنڈا /قادر خان یوسف زئی

تقسیم ِ پنجاب انتخابی مہم کا پُر فریب ایجنڈا /قادر خان یوسف زئی

کسی بھی ملک میں جمہوری نظام کے تحت بروقت انتخابات ناگریز قرار دئیے جاتے ہیں، قیام پاکستان کے بعد سے عام انتخابات تنازعات کے ساتھ مقررہ وقت پر نہیں ہو سکے تاہم گذشتہ دو عام انتخابات سیاسی تبدیلیوں کے باوجود بروقت انتقال اقتدار ہوئے، توقع تو یہی کی جا رہی تھی کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تیسری مدت بھی پوری ہوگی اور ملک بھر میں عام انتخابات بروقت ہوں گے۔ جب کہ گمان یہ بھی کیا جا رہا تھا کہ 2023کے عام انتخابات میں عمران خان بھاری اکثریت کے ساتھ دوبارہ کامیاب ہوں گے بلکہ اگلے انتخابات بھی ان کی جھولی میں گریں گے۔ یہ معاملہ اب کوئی ڈھکا چھپا نہیں کہ اس منصوبے کے مخصوص کردار کون کون تھے۔ عوام تو فوجی حکومتوں کے آنے پر بھی مٹھائیاں تقسیم کرتے  رہے  ہیں ، اور پھر جب دل بھر جاتا ہے تو احتجاج بھی کرتے  نظر آتے ہیں، یعنی جیسے  عوام ،ویسی حکومت والا  معاملہ چلتا آرہا ہے۔

پاکستان میں انتظامی طور پر علاقائی عدم مساوات کو دور کرنے اور بہتر حکمرانی کو فروغ دینے کے لئے نئے صوبوں کے قیام کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے، یہ عموماً عام انتخابات کے وقت شدت سے دہرایا جاتا ہے، نئے صوبوں کا قیام کئی سالوں سے پاکستانی سیاست میں ایک  تنازع  رہا ہے۔ اگرچہ کچھ سیاسی جماعتیں اس خیال کی حمایت کرتی ہیں جبکہ دیگر علاقائی اور لسانی تناؤ اور ملک کی تقسیم کے بارے میں خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی مخالفت کر رہی ہیں ،پاکستان مسلم لیگ (ن) نئے صوبوں کے قیام کی سب سے زیادہ آواز اٹھانے والی حامیوں میں سے ایک جماعت  رہی ہے۔ ماضی میں پارٹی جنوبی پنجاب میں بہاولپور صوبہ اور خیبر پختونخوا میں ہزارہ صوبہ بنانے کی تجویز پیش کرچکی ہے۔ ہزارہ صوبہ کی عوامی نیشنل پارٹی نے شدت سے مخالفت کی، جب کہ پاکستان مسلم لیگ ن کا استدلال ہے کہ نئے صوبوں کے قیام سے زیادہ موثر حکمرانی، بہتر نمائندگی اور وسائل کی زیادہ منصفانہ تقسیم ہوگی لیکن پنجاب اور وفاق میں حکومت ہونے کے باوجود اپنے منشور پر عمل نہیں کرسکی۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بھی نئے صوبوں کے قیام خاص طور پر جنوبی پنجاب میں  حمایت کی۔ 2018 کے عام انتخابات کے دوران پارٹی نے اقتدار میں آنے کی صورت میں جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم اقتدار میں آنے کے بعد پارٹی کو اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے میں اہم چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، جس میں دیگر سیاسی جماعتوں کی مخالفت اور اپنی صفوں کے اندر سے مزاحمت بھی شامل تھی ،متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان بھی نئے صوبوں کے قیام کی حامی رہی ہے۔ پارٹی نے جنوبی پنجاب میں سرائیکی صوبہ بنانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے لئے ایک علیحدہ صوبہ بنانے کی تجویز پیش کی، لیکن پیپلز پارٹی صوبہ سندھ کو انتظامی طور پر تقسیم کرنے کی شدید مخالف ہے ،تاہم  نئے صوبوں کی تشکیل اس کے چیلنجوں کے بغیر بننا ممکن نہیں، تحفظات ہیں کہ اس اقدام سے پہلے سے ہی منقسم ملک میں خاص طور پر نسلی اور لسانی خطوط پر مزید تقسیم   ہوسکتی ہے۔ علاقائی اور لسانی اختلافات، سیاسی پولرائزیشن اور غالب سیاسی جماعتوں کی مزاحمت سمیت مختلف عوامل کی وجہ سے اس اکثریت کا حصول مشکل ہے۔

صوبہ پنجاب پاکستان کا سب سے زیادہ آبادی والا اور سیاسی طور پر اہم صوبہ ہے دو علیحدہ صوبوں کے قیام کی ایک اہم دلیل یہ ہے کہ اس سے اختیارات کی مساوی تقسیم ہوگی۔ اس وقت پنجاب قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں رکھتا ہے، جس کی وجہ سے اسے وفاقی حکومت میں غیر متناسب اختیارات حاصل ہیں ،پنجاب میں اکثریتی نشستیں جیتنے سے وفاقی سطح پر کسی جماعت کے حکومت بنانے کے امکانات پر نمایاں اثر پڑتا ہے۔ مثلاً 2018 کے عام انتخابات کے دوران پاکستان تحریک انصاف صوبہ پنجاب میں اپنی نمایاں کامیابی کی وجہ سے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ پارٹی نے پنجاب میں 75 میں سے 141 نشستوں پر کامیابی حاصل کی، جس کے نتیجے میں قومی اسمبلی کی 149 نشستوں میں سے کُل 272 نشستیں حاصل ہوئیں دوسری بات یہ ہے کہ صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ، جو صوبائی اسمبلی کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں، وفاق کے فیصلہ سازی کے عمل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

پنجاب کو انتظامی طور پر دو صوبوں میں تقسیم کرنے کے نعرے کو پہلی بار 1990 کی دہائی کے آخر میں اس وقت تقویت ملی جب پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بہاولپور صوبہ بنانے کی تجویز پیش کی۔اس تجویز کے پیچھے مقصد جنوبی پنجاب کے عوام کی دیرینہ شکایات کو دور کرنا تھا، جو محسوس کرتے تھے کہ انہیں ترقی اور نمائندگی کے لحاظ سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اس تجویز کے حامیوں نے دلیل دی کہ ایک علیحدہ صوبہ بہتر حکمرانی اور وسائل کی زیادہ منصفانہ تقسیم کو ممکن بنائے گا تاہم، اس نعرے کو مقبولیت حاصل کرنے اور کئی انتخابی مہموں میں ایک بڑا مسئلہ بننے کے باوجود، اس تجویز پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہُوا۔ اس کی بنیادی وجہ فیصلہ سازی کے عمل میں شامل پیچیدہ سیاسی حرکیات ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شمالی پنجاب اور جنوبی پنجاب کو دو علیحدہ صوبوں کے طور پر تشکیل دینا کئی سالوں سے پاکستانی سیاست میں ایک متنازع اور انتخابی مہموں کا پُر فریب ایجنڈا رہا ہے۔ صوبہ پنجاب بے پناہ سیاسی اور معاشی طاقت رکھتا ہے اور عام انتخابات اور وفاق کے مجموعی نظام و انصرام پر اثر انداز ہوتا ہے حالیہ سیاسی بحران میں پنجاب کے انتخابات پر سیاسی جماعتوں نے  یہی  موقف اپنایا ہُوا ہے کہ اگر وقت سے قبل اور پورے ملک کے ساتھ پنجاب میں انتخابات نہ ہوئے تو یہ بحران ہر انتخابات میں عدم سیاسی استحکام پیدا کرے گا۔ رائے یہی ہے کہ وفاق میں پنجاب کے اثر و رسوخ کو متوازن رکھنے کے لئے انتظامی طور پر پنجاب کی تقسیم کی بجائے اس کی نشستوں کی تعداد کم کرلی جائے اور دوسرے صوبوں کی نشستیں بڑھا دی جائیں تو اس سے چھوٹے صوبوں کے تحفظات بھی دور ہو سکیں گے۔ ملک کی سیاست اور معیشت پر اس صوبے کے اہم اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور ملک کے مستقبل کے بارے میں کسی بھی بحث میں اس کے کردار پر غور کرنا ضروری ہے۔

Facebook Comments

قادر خان یوسفزئی
Associate Magazine Editor, Columnist, Analyst, Jahan-e-Pakistan Former Columnist and Analyst of Daily Jang, Daily Express, Nawa-e-Waqt, Nai Baat and others. UN Gold medalist IPC Peace Award 2018 United Nations Agahi Awards 2021 Winner Journalist of the year 2021 reporting on Media Ethics

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply