ژاں ژاکس روسو/مبشر حسن

روسو کی پیدائش ہوئی 28 جون 1712ء اور وفات   2 جولائی 1778ء میں، فرانس سے اس کا تعلق تھا “معاہدہ عمرانی” اس کے اہم کاموں میں شمار ہوتا ہے۔

فرانسیسی فلسفی، مصنف اور سیاسی نظریہ ساز ژاں ژاکس روسو عہد روشن خیالی کے نہایت فصیح اللسان اہلِ قلم میں سے ایک ہے۔ وہ جدید فلسفیوں کے درمیان سب سے کم اکیڈمک اور متعدد حوالوں سے مؤثر ترین تھا۔ اُس کی فکر عہد استدلال کے اختتام کی عکاس ہے۔ اُس نے سیاسی اور اخلاقی سوچ کونئی راہوں پر ڈالا اور فنون لطیفہ کے ذوق پر اثرات مرتب کیے۔

روسو 28 جون 1712ء کو جنیوا میں پیدا ہوا اور خالہ کے پاس پرورش پائی کیونکہ ماں زچگی کے دوران ہی مرگئی تھی ۔ 13 برس کی عمر میں اُس نے ایک منبت کار کے پاس کام سیکھنا شروع کیا، لیکن تین سال بعد بھاگ گیا اور ایک دولت مند و مخیر خاتون مادام لوائزے ڈی وارنز کا سیکر ٹری اور مصاحب بنا۔ 1742ء میں وہ پیرس گیا اور موسیقی کے اُستاد کی حیثیت میں روزی کمانے لگا۔ اُس نے سیاسی سیکرٹری کے طور پر بھی کام کیا۔ فرانسیسی فلسفی ڈینیس دیدرو کے ساتھ اُس کی گہری دوستی ہوگئی اور جس نے اُسے فرانسیسی انسائیکلو پیڈیا کے لیے موسیقی پر مضامین لکھنے کو کہا۔ روسو نے میوزک کے ساتھ ساتھ اپنا ایک اوپیرا مکار آدمی (1752ء) بھی لکھا۔ اسے دربار میں اس قدر پسند کیا جانے لگا کہ ایک فیشن اسیل موسیقار کے طور پر آسان زندگی گزار سکتا تھا، لیکن شاید اپنے کیلونسٹ خون کے زیر اثر اُس نے اس طرح کی دنیا وی شہرت کو مسترد کردیا۔ در حقیقت 37 برس کی عمر میں وہ بصیرت حاصل کر چکا تھا۔ اپنی کتاب اعترافات میں وہ بتاتا ہے کہ ایک خوفناک جھماکے کے ساتھ اُس کے ذہن میں خیال آیا کہ جدید ترقی نے انسان کو بہتر بنانے کی بجائے بگاڑ دیا ہے۔ اُس نے اسی بصیرت کی پیروی میں اپنا پہلا اہم مضمون Discourse on Science and Arts (1750ء) لکھا جس میں وہ کہتا ہے کہ کرہ ارض پر انسانی زندگی کی تاریخ انحطاط کی تاریخ ہے۔ یہ تحریر اس کی آئندہ تمام تحریروں کی پیش بندی کرتی ہے۔ وہ زندگی بھر بار بار یہ خیال پیش کرتا رہا کہ انسان فطرتاً اچھا ہے لیکن معاشرے اور تہذیب نے اُسے خراب کر دیا۔ اُس کی مراد یہ نہیں کہ معاشرہ اور تہذیب خلقی طور پر بُرے ہیں، بلکہ ان دونوں نے غلط روش اختیار کر لی اور پیچیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ نقصان دہ ثابت ہوتے گئے۔ اُس سے پہلے کئی رومن کیتھولک مصنفین بھی قرون وسطی کے بعد یورپی ثقافت کے اختیار کردہ رجحان سے نفرت کا اظہار کر چکے تھے۔

موسیقی میں روسو کی حیثیت ایک نجات دہندہ جیسی تھی۔ اُس نے موسیقی میں آزادی پر زور دیا اور کہا کہ اطالوی موسیقاروں کی پیروی کرنی چاہیے۔ اس کام میں اُسے Rameau کی نسبت زیادہ کامیابی حاصل ہوئی۔ اُس نے لوگوں کے رویے بدل کر رکھ دیے۔ اپنے اوپیرا “The Village sage” کی کامیابی کے باوجود روسو نے محسوس کیا کہ وہ تھیڑ کے لیے کام جاری نہیں رکھ سکتا، اور اپنی تمام توانائیاں ادب اور فلسفہ میں لگانے کا فیصلہ کیا۔

جنیوا میں گزارے ہوئے بچپن کے دوران حاصل کردہ کیلونسٹ تعلیمات اپنا رنگ دکھانے لگیں ۔ اُس نے کیتھولک ازم کو مسترد کیا اور پروٹسٹنٹ کلیسا میں دوبارہ شمولیت اختیار کرنا چاہی۔ دریں انشاء اُسے ایک مجبو بہ بھی مل گئی تھی۔ ایک ان پڑھ دھوبن تھریسے۔ وہ اس لڑکی کو اپنے ساتھ جینوا لے آیا، مگر کیلونسٹ برادری میں داخلے کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہوئی۔ اُس کی ادبی شہرت نے اُسے ثقافت کے امین شہر کے لیے قابل قبول بنا دیا تھا۔ اسی زمانے میں روسو نے اپنا دوسرا مضمون Discourse on the Origin and”‏ ‏Foundation of Inequality Among Mankind (1755ء ) لکھا۔ وہ اس مضمون میں دو قسم کی اونچ نیچ  کے درمیان تمیز کرتا ہے۔۔۔ فطری اور مصنوعی۔ پہلی اونچ نیچ  کا ماخذ طاقت ذہانت وغیرہ ہیں۔ جبکہ دوسری اونچ نیچ معاشروں کے دساتیر کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ موخر الذکر قسم کی  اونچ نیچ ہی اُس کا اصل موضوع ہے۔

موزوں ”سائنسی، تفتیشی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے وہ کرہ ارض پر انسانی زندگی کے اولین ادوار کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ اصل انسان ایک سماجی وجود نہیں بلکہ ایک تنہا رہنے والی ہستی تھا۔ اس حد تک وہ ہو بز کے تصور فطرت سے مطابقت رکھتا ہے۔ یاسیت پسندانہ انگلش نظریے کے برعکس روسو نے کہا کہ اصل انسان صحت مندانہ تو انا مسرور اچھا اور آزاد تھا۔ انسان میں برائیاں اُس وقت پیدا ہوئیں جب معاشروں نے تشکیل پائی۔

یوں روسو نے فطرت کو بَری کرتے ہوئے معاشرے کو برائیوں کا مآخذ قرار دیا۔ اُس کے مطابق برائیوں کو جنم دینے والے جذبات فطری حالت میں بمشکل ہی موجود ہیں۔ معاشروں کا آغاز اُس وقت ہوا جب انسانوں نے اپنے لیے اولین جھونپڑے بنائے اور یوں مردوں اور عورتوں کے ایک ساتھ رہنے کی صورت بنی۔ یوں خاندان اور پڑوسی کا تصور پیدا ہوا۔ یہ نوخیز معاشرہ انسانی تاریخ کا عہد زریں تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ محبت کے جذبے کے ساتھ حسد و رشک کا تخریبی جذبہ بھی اُبھر نے لگا۔ پڑوسی آپس میں صلاحیتوں اور کارناموں کا موازنہ کرنے لگے اور نا برابری کی جانب پہلا قدم اُٹھا۔

انسان نے احترام اور ادب کا تقاضا کیا؟ اُن کی معصوم محبت ذات فخر میں بدل گئی کیونکہ ہر انسان کسی دوسرے جیسا بنے کا خواہش مند تھا۔ ملکیت کے آغاز نے نابرابری کی جانب ایک قدم مزید آگے بڑھایا کیونکہ اب جائیداد کو تحفظ دینے کے لیے قانون اور حکومت کا قیام لازمی ہو گیا۔ وہ ملکیت کے مہلک“ تصور پر گریہ کرتے ہوئے اُس دور کا ذکر کرتا ہے جب زمین کسی کی بھی نہیں تھی۔ بعد میں مارکس اور لینن جیسے انقلابیوں کو روسو کے اس نقطہ نظر سے تحریک ملی، لیکن خود روسو کا ہرگز یہ خیال نہیں تھا کہ ماضی کے دساتیر کو کسی بھی طرح غیر مؤثر اور منسوخ کیا جا سکتا ہے؛ کسی عہد زریں کی جانب واپسی کا کوئی خواب اُس کے ہاں نہیں ملتا۔

افلاطون کی طرح روسو کا بھی یہی خیال تھا کہ منصفانہ معاشرہ وہ ہے جس میں ہر کسی کو اپنا درست مقام ملے۔ لہٰذا اس نے معاہدہ عمرانی ” ( دی سوشل کنٹریکٹ 1762ء ) لکھی اور کہا کہ انسان مستقبل میں اپنی آزادی کو بحال کر سکتے ہیں۔ اُس نے جنیوا کو ہی ماڈل بنایا۔۔وہ جنیوا جس کا تصور کیلون نے کیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

معاہدہ عمرانی کا آغاز اس پُر جوش جملے سے ہوتا ہے انسان آزاد پیدا ہوا لیکن وہ ہر کہیں پابہ زنجیر ہے۔ روسو کہتا ہے کہ انسان کو زنجیروں کی ضرورت نہیں۔ اگر ایک مہذب معاشرے یا ریاست کی بنیاد حقیقی معاہدہ عمرانی پر رکھی جا سکے تو انسانوں کو اپنی خود مختاری کے بدلے میں ایک بہتر قسم کی آزادی ملے گی۔ یعنی حقیقی سیاسی یا جمہوری آزادی۔ اس قسم کی آزادی کا راز خود پر لاگو کر دہ قانون کی اطاعت میں پوشیدہ ہے۔
اگر چہ روسو نے انفرادی آزادی کے لیے اور کلیسا و ریاست کی مطلق العنانیت کے خلاف مغربی یورپ کی تحریک میں بھر پور حصہ ڈالا مگر اُس کا ریاست کو لوگوں کے مجرد ارادے کی تجسیم سمجھنے کے تصور اور سیاسی و مذہبی ضوابط کے سختی سے نفاذ پر اصرار کو کچھ مورخین نے استبدادی آئیڈیالوجی کا منبع قرار دیا۔ روسو کے نظریہ تعلیم نے بچوں کی پرورش کے ایسے طریقوں کی جانب مائل کیا جن میں نفسیاتی پہلو غالب تھا اور جرمن معظم فریڈرک فروئیل، سوئس ماہر تعلیم جو ہان ہائنرخ اور جدید تعلیم کے دیگر معماروں پر اثرات مرتب کیے۔ ارسطو کی تحریروں نے انیسویں صدی کی ابتدا میں ادب و فلسفہ میں رومانسٹرم پر بھی عمیق اثر ڈالا۔ بیسویں صدی کے نفسیاتی ادب نظریہ تحلیل نفسی اور وجودیت پر بھی اس کی چھاپ ہے۔ آزاد ارادے پر اصرار از لی گناہ کے عقیدے سے انکار اور تجزیے کے بجائے تجربے کے لیے حصول علم کی حمایت نے بعد میں آنے والے مفکرین کے ذہن میں جگہ پائی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply