• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • 2017ء کے دھرنے، الیکشن 2018ء اور نون لیگ کا مخدوش مستقبل۔۔ٹی ایچ بلوچ

2017ء کے دھرنے، الیکشن 2018ء اور نون لیگ کا مخدوش مستقبل۔۔ٹی ایچ بلوچ

یہ پانامہ کیس اور اس سے پہلے مہینوں پر محیط دھرنوں اور احتجاج کا نتیجہ ہے کہ آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے میاں شہباز شریف کپتان ہوں گے۔ 2017 ایک ہنگامہ خیز سال رہا، جس کے دوران قوم نے کئی سیاسی اتار چڑھاؤ دیکھے۔ پاناما کا ہنگامہ سارا سال جاری رہا، جس کے نتیجے میں نواز شریف اگلے الیکشن سے آؤٹ ہوگئے اور ان کے بھائی شہباز شریف کےلیے وزارت عظمیٰ کی راہ ہموار ہوگئی۔ سیاسی منطر نامے میں یہ کوئی بنیادی تبدیلی نہیں، لیکن نئی جہت ضرور ہے، اس سیاسی میچ میں سپریم کورٹ نے امپائر کا کردار ادا کیا، امپائر کی انگلی اٹھی اور نواز شریف پوری کابینہ سمیت آؤٹ ہوگئے۔ لیکن حنیف عباسی کی عدالت میں دائر درخواست پر عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف کیس میں جہانگیر ترین کو تاحیات نااہل قرار دے دیا گیا، جس سے پی ٹی آئی کی اے ٹی ایم مشین بند ہوگئی، اس کے اثرات بھی ہونگے۔ 2018ء میں مسلم لیگ کے نئے کپتان شہباز شریف اور عمران خان کے درمیان ہوگا۔ پاناما لیکس میں انکشاف ہوا تھا کہ شریف خاندان کی آف شور کمپنیاں ہیں، جن کے ذریعے انہوں نے اربوں روپے کا ٹیکس چوری کیا اور منی لانڈرنگ کی۔ 2017 کے پہلے 7 ماہ کے دوران سپریم کورٹ میں نواز شریف کے خلاف مقدمہ چلتا رہا۔

پہلے 20 اپریل کو سپریم کورٹ کی 5 رکنی بنچ نے فیصلہ سنایا جس میں 2 ججز نے نواز شریف کو نااہل کرنے کی سفارش کی، تاہم تین ججز نے مزید تفتیش کرانے کا فیصلہ کیا۔ عدالت نے نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے اثاثوں کی چھان بین کےلیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا۔ اس جے آئی ٹی کے سامنے نواز شریف، ان کے بچے مریم، حسین اور حسین، داماد کیپٹن (ر) صفدر اور سمدھی وزیر خزانہ اسحاق ڈار پیش ہوئے۔ 28 جولائی کو وزیراعظم نواز شریف کو نااہل کردیا جس کے نتیجے میں وہ عہدے سے فارغ ہوگئے۔ عدالت نے قومی احتساب بیورو کو شریف خاندان اور اسحاق ڈار کے خلاف کرپشن کے ریفرنسز (مقدمات) درج کرنے کا حکم دیا۔ 22 اگست کو کلثوم نواز کو کینسر ہوا، جو لندن کے اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ناقدین نے اس موقع پر انہیں اس بات پر تنقید کا نشانہ بنایا کہ 3 بار برسراقتدار رہنے کے باوجود وہ ملک میں ایک ایسا اسپتال نہیں بنواسکے، جہاں اپنا اور اپنے اہل خانہ کا علاج کرواسکیں۔ نواز شریف کی نااہلی کے نتیجے میں لاہور میں ان کی نشست این اے 120 خالی ہوگئی، جس پر 17 ستمبر کو ضمنی الیکشن ہوا۔ سیاسی جوڑ توڑ اور ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے بعد نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز یہ الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوگئیں۔

سال کا سب سے مشہور جملہ مجھے کیوں نکالا رہا۔ یہ جملہ زبان زد عام ہوگیا اور شاید پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کےلیے ایک محاورہ بن چکا ہے۔ کیوں نکالا کا سوشل میڈیا پر بھی خوب چرچا ہوا اور صارفین نت نئے لطیفوں سے بہت محظوظ ہوئے۔ نواز شریف کی نااہلی کے نتیجے میں مسلم لیگ کی حکومت ختم ہوگئی۔ وزرات عظمیٰ کا قرعہ فال نواز شریف کے دیرینہ وفادار ساتھی شاہد خاقان عباسی کے نام نکلا اور نئی کابینہ تشکیل دے گئی، جس میں چوہدری نثار کی چھٹی ہوگئی، جو تاحال اپنی قیادت سے ناراض اور تنہا نظر آتے ہیں۔ یکم اگست کو شاہد خاقان عباسی نے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ 15 دسمبر کو سپریم کورٹ نے سال کے دوسرے اہم ترین مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کو اہل اور جہانگیرترین کو نااہل قرار دیا۔ مسلم لیگ نے الزام لگایا کہ سپریم کورٹ نے جہانگیر کی قربانی دے کر اپنے لاڈلے کو بچالیا۔ 15 دسمبر ہی کو سپریم کورٹ نے مشہور حدیبیہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے کیس دوبارہ کھولنے کی نیب اپیل مسترد کردی، جس کے نتیجے میں حدیبیہ کا باب ہمیشہ کےلیے بند ہوگیا۔ ایک مشہور صحافی نے اپنے کالم میں لکھا کہ عدلیہ نے 2018 کے الیکشن کا اسٹیج شہباز بمقابلہ عمران تیار کردیا۔ حدیبیہ منی لانڈرنگ کا مقدمہ تھا جس میں شہباز شریف مرکزی ملزم تھے اور کیس ختم ہونے پر انہوں نے سکھ کا سانس لیا۔ چند روز بعد 21 دسمبر کو نواز شریف نے اعلان کردیا کہ مسلم لیگ (ن) کے اگلے وزارت عظمیٰ کے امیدوار شہباز شریف ہوں گے۔

ختم نبوت(ﷺ) کے قانون میں ترمیم:
پاناما لیکس کے فیصلے کے نتیجے میں نواز شریف وزارت عظمیٰ کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ کی صدارت سے فارغ ہوگئے، کیونکہ انتخابی قوانین کے تحت نااہل شخص پارٹی کا صدر بھی نہیں ہوسکتا۔ اس پابندی کو ختم کرنے کےلیے مسلم لیگ نے 2 اکتوبر کو قومی اسمبلی میں الیکشن اصلاحات بل 2017 منظور کیا، جس میں نااہل شخص کے پارٹی صدر بننے پر عائد پابندی ختم کردی گئی۔ تاہم اس بل کی منظوری کی آڑ میں (ن) لیگ نے انتخابی امیدوار کے کاغذات نامزدگی کے حلف نامے سے چھیڑ چھاڑ کی اور ختم نبوتﷺ سے متعلق الفاظ کو تبدیل کرکے قادیانیوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی۔ یہ بل قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں ایوانوں سے منظور ہوگیا۔ لیکن بات کب تک چھپی رہ سکتی تھی اور آخرکار کھل ہی گئی جس پر ملک بھر میں خوب ہنگامہ اور شورشرابا ہوا۔ ناقدین کے مطابق یہ اقدام کرکے مسلم لیگ نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری جو اس کے سیاسی تابوت میں آخری کیل بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ ملک بھر میں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنے کے بعد (ن) لیگ نے ختم نبوتﷺ سے متعلق ترمیم واپس لے لی اور حلف نامے کو اس کی اصل شکل میں بحال کردیا گیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق (ن) لیگ کو اپنے اس اقدام کے اثرات اگلے الیکشن میں نظر آسکتے ہیں کیونکہ اس نے اپنے ایک بڑے ووٹ بینک کو خود اپنے ہاتھوں ختم کردیا جس کا خمیازہ اسے نشستوں میں کمی کی صورت میں بھگتنا پڑ سکتا ہے۔

حکومت نے شدید احتجاج کے باعث ترمیم کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کےلیے ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی بنائی لیکن تاحال ذمہ داروں کے نام سامنے نہیں آسکے۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے پولیس اہلکار ممتاز قادری کی پھانسی کے خلاف ایک تحریک چلی تھی، جو این اے 120 کے الیکشن میں ایک سیاسی جماعت تحریک لبیک کے روپ میں سامنے آئی۔ ختم نبوتﷺ ترمیم کرنے پر تحریک لبیک نے اسلام آباد میں 20 روز تک دھرنا دیا اور وزیر قانون زاہد حامد کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ احتجاج کی وجہ سے دارالحکومت کے شہریوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت دھرنا مظاہرین کے خلاف کارروائی سے بچنے کی کوشش کرتی رہی۔ یہ دھرنا حکومت کے گلے میں اٹکی ایسی ہڈی بن گیا جو اُگلی جائے نہ نگلی جائے۔ 3 بار آپریشن کی ڈیڈلائن دے کر مؤخر کی گئی لیکن بالآخر 21 ویں روز 25 نومبر کو حکومت کے حکم دھرنا ختم کرنے کےلیے آپریشن شروع کردیا گیا۔ شدید خونریزی کے باوجود یہ آپریشن ناکام ہوگیا جبکہ بڑی تعداد میں مظاہرین جاں بحق اور زخمی ہوئے۔

آپریشن کے منفی اثرات مرتب ہوئے اور ملک بھر میں جگہ جگہ احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 3 نومبر 2007 کے بعد ملکی تاریخ میں 10 سال کے دوران دوسری بار نومبر کے مہینے میں ہی تمام ٹی وی چینلز کی نشریات بند کردی گئیں اور سوشل میڈیا پر بھی پابندی لگادی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت بھی مشرف کے وزیر قانون زاہد حامد تھے اور انوشہ رحمان وزیر کے منصب پر فائز تھیں جب کہ دانیال عزیز بھی قومی ادارے کے سربراہ تھے۔ لیکن یہی تینوں چہرے اس بار مشرف کے کٹر حریف نواز شریف کے ساتھ کھڑے تھے۔ آرمی چیف کی مداخلت پر یہ نشریات بحال ہوئیں۔ اس آپریشن سے حکومت کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوگئی۔ آخرکار فوج بیچ میں آئی اور اس کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں دھرنا ختم ہوگیا جب کہ وزیر قانون زاہد حامد کو مستعفی ہوکر گھر جانا پڑا۔ دھرنا کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے فوج سے متعلق سخت ریمارکس سے ملکی حالات میں بھونچال آگیا۔ ہائی کورٹ نے حکومت اور دھرنا قیادت کے درمیان فوج کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے پر برہمی کا اظہار کیا۔

اس موقع پر کئی لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھا کہ یہ کون سی جماعت ہے، جس نے نہ صرف تین ہفتے تک حکومتی رٹ کو ملک کے دارلحکومت میں سرعام چیلینج کیا، بلکہ دو ماہ قبل سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے اپنے حلقے میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں تیسری پوزیشن بھی حاصل کی۔ جب سینیٹ میں آرمی چیف نے بریفنگ دی، تو انہیں اس بات کا جواب دیتے ہوئے کہنا پڑا کہ اگر ثابت ہو جائے کہ دھرنوں کے پیچھے فوج تھی تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے۔ اس جماعت کی مقبولیت اور اس کے مرکزی سیاست کے دھارے میں شامل ہونے کے تانے بانے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل سے ملتے ہیں جنھیں ان کے اپنے ہی سیکورٹی گارڈ اور بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے پولیس کمانڈو ممتاز قادری نے جنوری 2011 میں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد ممتاز قادری کےحق میں بریلوی جماعتوں اور علما نے کافی آواز بلند کی اور ان میں سب سے نمایاں آواز لاہور سے تعلق رکھنے والے 52 سالہ علامہ خادم حسین رضوی کی تھی جنھوں نے ممتاز قادری کی حمایت، احمدیہ جماعت اور ختم نبوت کے مسئلے کے بارے میں اپنی تقاریر سے کافی شہرت حاصل کی۔

فروری 2016 میں ممتاز قادری کو حکومت نے پھانسی کی سزا دی تو خادم حسین رضوی نے اسلام آباد میں ڈی چوک پر چار روزہ مظاہرہ کیا۔ اِس سال ممتاز قادری کی برسی پر ہونے والے عرس کے موقع پر حکومت پنجاب نے خادم حسین رضوی کو اسلام آباد جانے کی اجازت نہیں دی۔ مارچ میں مولانا خادم رضوی نے اپنے پیروکاروں کو کہا کہ آپ محنت کریں اور حضور کا دین 2018 میں تخت پر لائیں، کام ہو جائے گا، یہ باتیں طاقت سے ہوں گی، میں تعداد کا قائل نہیں ہوں لیکن ان کو تعداد دکھانی ہوگی۔ اس خطاب کے صرف چھ ماہ بعد لاہور کے حلقہ 120 کی خالی نشست پر ستمبر کے ضمنی انتخابات میں حیران کن طور پر انہوں نے تیسری پوزیشن حاصل کر کے یہ واضح کر دیا کہ خادم حسین رضوی کی تقریر بے معنی نہیں تھی۔ پشاور کے حلقہ 4 کے ایک ایسے علاقے سے تقریباً 10 ہزار ووٹ حاصل کیے، جو روایتی طور پر کبھی بھی بریلوی مکتبہ فکر کا گڑھ نہیں رہا۔ ان کے مقابلے میں جماعت اسلامی جس نے 2013 میں 16 ہزار ووٹوں کے ساتھ تیسری پوزیشن حاصل کی تھی، ضمنی انتخاب میں صرف سات ہزار ووٹ لے کر چھٹے نمبر پر چلی گئی۔

مسلکی جماعتیں، سیاسی اہداف کیساتھ:
تحریک لبیک پاکستان کے علاوہ حلقہ 120 میں جماعت الدعوۃ کی نئی سیاسی جماعت ملی مسلم لیگ کے حمایتی امیدوار نے بھی تقریباً 6 ہزار ووٹ حاصل کیے، لیکن اس کے بعد پارٹی کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس اپنی رجسٹریشن کرانے میں دشواریاں درپیش آگئیں اور فی الوقت یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرسماعت ہے۔ ان دونوں مذہبی جماعتوں کی کارگردگی کو دیکھتے ہوئے اور ساتھ ساتھ تحریک لبیک پاکستان کے اسلام آباد میں تین ہفتے تک جاری رہنے والے کامیاب دھرنے کے بعد مبصرین کہہ رہے ہیں کہ انتہائی دائیں بازو کی سوچ کی حامل جماعتوں کی ایسی متاثرکن کارکردگی 2018 میں ہونے والے عام انتخابات کو کیسا رنگ دے گی، یہ دونوں جماعتیں انتخابات میں خاطر خواہ کارکردگی تو شاید نہ دکھا سکیں لیکن زیادہ بڑا خدشہ ہے کہ ان کے مرکزی دھارے میں شامل ہونے سے قومی بیانیہ سخت گیر ہو جائے گا جو کہ پورے معاشرے پر منفی اثرات قائم کرے گا۔

ان دونوں ضمنی انتخابات اور پھر نومبر میں اسلام آباد میں ہونے والے دھرنے کے تناظر میں بات کرتے ہوئے تجزیہ نگار عامر رانا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماضی میں دیو بندی مکتبہ فکر کی جماعتوں کو ملک میں سیاسی طور پر واضح برتری حاصل تھی اور ان کے مقابلے میں بریلوی جماعتیں تتر بتر تھیں۔ ان حالات میں 2011 میں سلمان تاثیر کا قتل بریلوی جماعتوں کے لیے ایک ایسا نکتہ بن گیا جو ان کو سیاسی دھارے میں دوبارہ شامل کرنے کا ذریعہ بن سکتا تھا، یہ دونوں جماعتیں انتخابات میں خاطر خواہ کارکردگی تو شاید نہ دکھا سکیں لیکن زیادہ بڑا خدشہ ہے کہ ان کے مرکزی دھارے میں شامل ہونے سے قومی بیانیہ سخت گیر ہو جائے گا جو کہ پورے معاشرے پر منفی اثرات قائم کرے گا، ان دونوں ضمنی انتخابات اور پھر نومبر میں اسلام آباد میں ہونے والے دھرنے کے تناظر میں بات کرتے ہوئے تجزیہ نگار عامر رانا نے بی بی سی کو بتایا کہ ماضی میں دیو بندی مکتبہ فکر کی جماعتوں کو ملک میں سیاسی طور پر واضح برتری حاصل تھی اور ان کے مقابلے میں بریلوی جماعتیں تتر بتر تھیں۔ ان حالات میں 2011 میں سلمان تاثیر کا قتل بریلوی جماعتوں کے لیے ایک ایسا نکتہ بن گیا جو ان کو سیاسی دھارے میں دوبارہ شامل کرنے کا ذریعہ بن سکتا تھا۔

تحریک لبیک کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت نے معاشی بہتری، خارجہ پالیسی، تعلیم اور صحت جیسے مختلف مسائل کو بہتر بنانے کا وعدہ کیا ہے اور اس کے لیے ان کی حکمت عملی واضح ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، اسی سے تمام مسائل کا حل پیدا ہوگا، دین میں کونسی چیز نہیں ہے؟ کیا دین نے سڑکیں نہیں دیں؟ کیا دین نے پُل نہیں دیے؟ دین نے کیا نہیں دیا ہے؟ دین ہی سب کچھ دے گا اور اس میں تو کوئی شک ہی نہیں ہے۔ اس سے پہلے یہ نعرہ، دعوت اور انقلاب کی بات صرف مولانا فضل الرحمان اور جماعت اسلامی تک محدود تھے، جن کا تعلق دیوبندی مسلک سے ہے۔

سول ملٹری تعلقات اور دھرنے:
لیکن یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کا ناموس رسالت اور دین کی سربلندی کے لیے لگایا گیا نعرہ دیگر مذہبی جماعتوں کی موجودگی کے باوجود زیادہ بااثر کیوں ثابت ہوا اور کہیں اس کے پیچھے مذہب کے علاوہ دوسرے عوامل تو شامل نہیں ہیں؟۔ یہ سوال زیادہ تر لبرل طبقے کی طرف سے اٹھایا جاتا ہے، جنہیں اب قدامت پسند اور مذہبی رجحانات کی حامل نون لیگ کا ووٹ بنک ٹوٹنے کی فکر لاحق ہے، البتہ نون لیگ کا موجودہ ورژن اب قابل قبول ہے، نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا میں بھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ نون لیگ کے سابق سرپرست سعودی شاہی خاندان کی طرف سے سعودی عرب میں ہونیوالی لبرل اصلاحات اور نواز شریف کی طرف سے قادیانیوں کو مسلمان کہنے والے صوبائی وزیر قانون کی حمایت ایک ہی سلسلے کی کڑی ہوں۔ لیکن فوج کے متعلق یہ سوالات دوبارہ اس وقت سامنے آئے جب اسلام آباد میں جاری دھرنے کو ختم کرنے میں فوج نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔ کیونکہ لیگی حکومت یہ چاہتی تھی کہ فوج دھرنے والوں کیخلاف کاروائی کرے، جس سے فوج کی بدنامی ہو، لیکن جنرل قمر جاوید باجوہ نے حکومتی مطالبے کے باوجود دھرنا دینے والوں کے خلاف کاروائی کرنے سے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ فوج اپنوں کے خلاف کاروائی نہیں کرتی۔

اس کے بعد خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے اہم ترین عہدے داران میں سے ایک میجرجنرل فیض نے حکومت اور تحریک لبیک کے اراکین کے درمیان مرکزی ثالث اور ضامن کا کردار ادا کیا اور پھر اس کے بعد سوشل میڈیا پر جاری ویڈیو میں دیکھا گیا کہ پنجاب رینجرز سے تعلق رکھنے والے اعلی افسر نے دھرنے کے مظاہرین میں نقد 1000 روپے تقسیم کیے۔ اس بارے میں تحریک لبیک کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی نے ان شکوک کو قطعی طور پر غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی کو پنڈی یا کسی ادارے سے کوئی آشیرباد نہیں حاصل ہے اور ان کے تمام تر وسائل اور فنڈز چندے اور اعانت کی مدد سے اکٹھے کیے گئے تھے، فوج نے اس مسئلے میں پہلے ہی موقف دے دیا اور وہ کبھی بھی ناموسِ رسالت اور ختم نبوت پر نہ کبھی پیچھے ہٹی ہے اور نہ قیامت تک ہٹے گی، لیکن فوج کی جانب سے کسی بھی قسم کی پشت پناہی غلط ہے۔ لیکن فوج مخالف تجزیہ نگار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے اس بارے میں بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک نئی پارٹی، خاص طور پر ایک مذہبی پارٹی کا اس قدر تیزی سے مقبولیت حاصل کرنا فوج کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

اسی طرح نیوز ویک پاکستان سے تعلق رکھنے والے سینئیر صحافی اور مصنف خالد احمد کہتے ہیں کہ حلقہ 120 کی انتخابی مہم کے دوران پاکستان مسلم لیگ نواز کے کئی کارکنان کو مبینہ طور اٹھایا گیا لیکن واپس آجانے کے بعد ان میں سے کسی نے بھی میڈیا پر بات نہیں کی حالانکہ جماعت کے عہدے داران ٹی وی پر آکر یہ شکایات کرتے رہے کہ پارٹی کے لوگوں کو اٹھایا گیا، ان واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کسی قسم کی آرکسٹریشن کی گئی ہے اور فوج تو پہلی ہی بیان دے چکی ہے کہ وہ دائیں بازو کی پرتشدد تنظیموں کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کی خواہش مند ہے۔ ایسا کرنا حافظ سعید کی جماعت اور دوسروں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔

مریم کو پنجاب میں لانے کیلئے نواز شریف کی حکمت عملی:
نون لیگ اور شریف خاندان میں اختلافات پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی جانب سے وزارت عظمیٰ کے لیے شہباز شریف کا نام اس لیے لیا جا رہا ہے کہ وہ خود وزیراعظم نہیں آ سکتے، دوسرے وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ آئندہ الیکشن میں نون لیگ قومی اسمبلی میں اتنی سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی کہ وہ شہباز شریف کو منتخب کروا سکے۔ ساتھ ہی نواز شریف یہ سمجھتے ہیں کہ پنجاب میں نون لیگ کیلئے اپنا وزیراعلیٰ لانے کے امکانات اب بھی ہیں، اس لیے انہوں نے شہباز شریف کا نام لیکر پنجاب میں حمزہ شہباز اور انکے والد، دونوں کیلئے راہیں مسدود کر دی ہیں، جس سے نواز شریف کی دختر مریم نواز کی راہ ہموار ہو گئی ہے، نون لیگ سے متعلق سارے فیصلوں کا اختیار اب بھی نواز شریف کے پاس ہے، نواز شریف کا مقابلہ اب صرف عمران خان سے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ، شہباز شریف، حافظ سعید، خادم رضوی، طاہرالقادری، چوہدری نثار، چوہدری برادران، زرادری، ایم ڈبلیو ایم جیسے گئی گروہوں اور طاقتوں کیساتھ ہے۔ الیکشن 2018ء کی جنگ میں نواز شریف کیساتھ مریم نواز، پرویز رشید، رانا ثناء اللہ اور انکے ہندوستانی دوست ہیں۔ جہاں تک شہباز شریف کے مستقبل کا تعلق ہے، انہیں اسٹیبلشمنٹ کیساتھ چلنا ہوگا، وہ چلیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن انکی کامیابی یقینی نہیں، کیونکہ طویل انتظار کے بعد 5 دسمبر کو پنجاب حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ بھی جاری کردی ہے، گو یہ رپورٹ بظاہر ڈاکٹر طاہر القادری کی امیدوں پر پوری نہیں اتری، لیکن انہوں نے اس بات کا اظہار نہیں کیا اور شہباز شریف سمیت پوری حکومتِ پنجاب کو مستعفی ہونے کے لیے 31 دسمبر تک کی مہلت دی ہے، تمام اپوزیشن جماعتوں، نون لیگ کے مخالف بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ دھڑوں نے سانحہ ماڈل ٹاون پر شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے استعفے اور انکے خلاف کاروائی کے مطالبے پر عوامی تحریک کی حمایت کا اعلان کیا ہے، شہباز شریف کو اکاموڈیٹ کرنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہ کیس رکاوٹ بن سکتا ہے، یہ ممکن ہے کہ مسلم لیگ نون میں حکومت کے خاتمے کیساتھ نواز شریف تنہا رہ جائیں اور بچی گچھی طاقت شہباز شریف کے ہاتھ لگ جائے۔ لیکن نون لیگ کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور انہیں عربی دوستوں کی سرپرستی بھی حاصل نہیں، لیکن کھربوں کے حساب سے لوٹی گئی ملکی دولت کی واپسی شاید ایک خواب رہے۔

بشکریہ اسلام ٹائم

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply