طبقاتی تفریق/محمد سعد مکی شاہ

اگر بالفرض آج سے آئندہ دس سال تک کے لئے دنیا بھر کی ٹیکسٹائل اور شوز انڈسٹری کو کُلی طور پر بند کر دیا جائے تو دنیا بھر کے گوداموں میں کپڑے اور جوتوں کے اس قدر سٹاک موجود ہیں کہ دس سال انسانوں کو کپڑے اور جوتوں کی ہرگز کمی نہیں ہوگی ،باوجود اس کے کہ ان دس سالوں میں دنیا کی آبادی میں اضافہ بھی ہونا ہے۔

دنیا بھر میں گندم اور چاول کے اس قدر ذخائر موجود ہیں کہ اگر تین سال کے لئے ان کی کاشت بند بھی کر دی جائے تب بھی تین سال دنیا بھر کی انسانی غذائی ضروریات کے لئے کافی ہے جبکہ فقط امریکہ ہر سال لاکھوں ٹن گندم سمندر برد کر دیتا ہے۔

دنیا بھر کے فوڈ سٹورز میں ہر روز لاکھوں ٹن خوراک ایکسپائر ہو جاتی ہے اور تلف کر دی جاتی ہے۔

اگر دنیا میں موجود 5 افراد پر مشتمل ہر فیملی کو پانچ مرلہ پر مشتمل محدود گھر دے دیا جائے تو دنیا میں ایک تو کوئی بے گھر نہ رہے اور دوسرا مزید ایک سال تک کسی مزید رہائشی مکان بنانے کی ضرورت نہ رہے۔

ہمارے قصبے میں ہر سبزی کی دکان والا روزانہ شام کو ایک ڈیڑھ من گلی سڑی اور باسی سبزی و پھل کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر پھینک دیتا ہے۔

یوں سمجھیے دنیا میں خوراک، لباس اور مکان اضافی تعداد و مقدار میں موجود ہیں مگر انسان بھوک سے مر رہا ہے بلک رہا ہے، اس کا بدن ننگا ہے یا وہ چیتھڑے پوش ہے، ننگے پاوٴں ہے یا کٹے  پھٹے کفُش زیب ِ پا کیے ہوئے ہے، کرائے کے مکان، کھولی، جھونپڑ پٹی، کچی آبادی میں رہتا ہے یا پھر فٹ پاتھ پر سوتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف خوراک اور لباس برانڈڈ، رہائش بصورت محلات دستیاب ہے

سرمایہ دار حکمران طبقے کے چند افراد پر مشتمل خاندان سینکڑوں اور ہزاروں کنال پر محیط محلات میں رہتے ہیں۔

برانڈڈ اشیا ء کے ماڈل ہر نئے سال تبدیل ہو جاتے ہیں۔ الیکٹرانکس اور مکینیکل اشیا ء والوں کے پاس اس کا جواز اپ گریڈیشن ہے جبکہ لوگ انہیں سٹیٹس کی علامت سمجھتے ہیں۔

ذرا جائزہ لیں اس کے اسباب و وجوہات کیا ہیں؟

اس کا جواب ہے منافع اور فقط منافع۔ یہاں زرعی پیداوار اور ہمہ قسم انڈسٹریل پروڈکشن کا اوّل مقصود منافع کا حصول ہے اور یہی انسانیت کی بھوک، ننگ، تذلیل کی واحد وجہ ہے۔ یہاں انسانی ضرورت پر منافع کو ترجیح دی جاتی ہے یعنی پیداوار کا مقصد ہمہ گیر انسانی ضرورت کو پورا کرنا نہیں بلکہ منافع کمانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیلی ویژن، موبائل فون، کار، موٹر سائیکل، لیپ ٹاپ و اِسی قسم کی دیگر پروڈکٹس وغیرہ کی 25000 اقسام، برانڈ، ماڈل، رنگ موجود ہیں اور ہر سال مزید تبدیلیوں کے ساتھ مزید پروڈکشن ہو رہی ہے۔ عامتہ الناس کو اشتہاری تراغیب کے ذریعے ان کا عادی اور غلام بنایا جاتا ہے۔ علم معاشیات کے طلب اور رسد کے قانون کے برعکس، پیداوار طلب سے بیسیوں گنا زیادہ ہے مگر رسد کو منافع کی حرص نے روک رکھا ہے۔

اس منافع کا سرپرست سرمایہ داری نظام ہے جو سرمایہ دار اور جاگیرداروں کا بنایا ہوا ہے جبکہ اس نظام کا اوّل مقصد منافع کمانا ہے یہی لوگ سیاستدان بن کر مقتدر ہیں، یہی صنعت کار ہیں، یہی لوگ سیاستدانوں کے بڑے سپورٹر ہیں، یہی لوگ ہم غریب، مزدور، کسان، مڈل کلاس عوام کے لئے حکومت میں قانون سازی کرتے ہیں یا قانون سازی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

آخر میں آپ سے فقط چند سوال ہیں کہ کیا سرمایہ داری نظام کے یہ نمائندے غریب، مزدور، کسان اور مڈل کلاس کے مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں کہ یہ ان کے حل کے لئے قانون سازی کر سکیں؟

بالفرض اگر یہ فیوڈل لارڈز کسی حد تک ہمارے مسائل کو سمجھتے بھی ہونگے تو کیا یہ قانون سازی ہمارے حق میں بہتر انداز سے کر سکیں گے یا اپنے حق میں؟

سرمایہ دار اور جاگیردار حکمرانوں کی طرف سے اس عظیم طبقاتی تفریق کو قانون سازی کے ذریعے ختم کرنے یا کم کرنے کی کسی کوشش کی کوئی ایک مثال دے سکتے ہیں؟

ایک آخری سوال،

Advertisements
julia rana solicitors london

کیا اب بھی آپ انہی سرمایہ دار، جاگیردار، وڈیرے، پیشہ ور سیاستدانوں کو منتخب کریں گے یا خود بلدیاتی الیکشن میں حصہ لے کر ابتدائی مرحلے میں لوکل سطح پر ہی سہی، اپنی قیادت خود اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں گے ؟؟؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply