علی ابن ابی طالب ؑ شہیدِ عدل/ تحریر : میثم اینگوتی

کائنات کا نظام عدل کے ستون پر کھڑا ہے ۔ کائنات میں بڑے بڑے سیاروں سے لے کر چھوٹے چھوٹے ذرات تک، سب میں عدالت کار فرما ہے اور اگر ان میں سے کسی میں بھی عدالت کا توازن ذرا سا بگڑ جائے تو نظام ہستی میں گڑ بڑ ہوگی۔ انسان کا اپنا وجود اور وجود کا سارا سسٹم ، خدا کے نظام توازن اور تعادل کا بہترین مظہر ہے۔ بدن کے اسی متوازن نظام میں خلل پیدا ہو جانے کی صورت میں انسان مختلف قسم کی بیماریوں اور مہلک امراض میں مبتلا ہوتا ہے۔ جب کائنات کا نظم و ضبط عدالت اور توازن کے بغیر نہیں چل سکتا تو پھر اتنا بڑا انسانی سماج اور پورا نظامِ حیات، عدالت اور توازن کے بغیر کیسے چل سکتا ہے؟۔لہذا ایک پُرامن ، خوشحال اور فلاحی معاشرے کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ انسانی سماج اور نظام بھی عدالت کے مضبوط ستونوں پر استوار کیا جائے تاکہ معاشرہ  بد امنی اور شورش سے پاک رہے۔ ۔ عدالت کا قیام انسانی سماج کی اولین ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ نے انبیاء و رسل کو بھی عدل و انصاف کے قیام کے لئے مبعوث فرمایا ۔

” لقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُـمُ الْكِتَابَ وَالْمِيْـزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ سورہ حدید:25″
ترجمہ : بتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں۔

اہلِ لغت نے عدل کے بہت سے معانی لکھے ہیں اور لغوی لحاظ سے اہم ترین معانی یہ ہیں:مساوی ہونا، برابری، توازن ، بدلہ یا فدیہ ، درمیانی حد کا خیال رکھنا وغیرہ ۔ قرآن مجید میں عدل کا لفظ انہی مختلف معانی میں استعمال بھی ہوا ہے ۔ یاد رہے کہ قرآن مجید میں عدل کے لئے قسط کا لفظ بھی زیادہ استعمال ہوا ہے ۔

اسلام کی نظر میں عدالت کا معاملہ بنیادی انسانی حقوق میں سے ہے ۔ عدالت کے معاملے میں مسلم غیر مسلم ، امیر غریب اور چھوٹے بڑے کی کوئی تمیز روا نہیں رکھی گئی ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ۔
” يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا كُـوْنُـوْا قَوَّامِيْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّـٰهِ وَلَوْ عَلٰٓى اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِـدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ ۚ اِنْ يَّكُنْ غَنِيًّا اَوْ فَقِيْـرًا فَاللّـٰهُ اَوْلٰى بِـهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْـهَوٰٓى اَنْ تَعْدِلُوْا ۚ وَاِنْ تَلْوُوٓا اَوْ تُعْـرِضُوْا فَاِنَّ اللّـٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْـرًا ۔ (سورۃ النساء135)
ترجمہ: اے ایمان والو! انصاف کے سچے داعی بن جاؤ اور اللہ کے لیے گواہ بنو اگرچہ تمہاری ذات یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اگر کوئی امیر یا فقیر ہے تو اللہ ان کا بہتر خیرخواہ ہے، لہٰذا تم خواہش نفس کی وجہ سے عدل نہ چھوڑو اور اگر تم نے کج بیانی سے کام لیا یا(گواہی دینے سے) پہلوتہی کی تو جان لو کہ اللہ تمہارے اعمال سے یقیناً خوب باخبر ہے۔

بلا تفریق مذہب و مسلک ، رنگ و بو ، نسل و زبان عدالت انسانی سماج کی بنیادی ضروریات ہیں، اور معاشرے کے تمام افراد پر لازم ہے کہ وہ عدل  کے قیام کے سلسلے میں اپنا انفرادی گروہی اور اجتماعی فریضہ سر انجام دیں ۔ عدل کی ضرورت انسانی زندگی کے کسی ایک پہلو تک محدود نہیں ہے،بلکہ عدل زندگی کے تمام انفرادی اور اجتماعی پہلوؤں کو گھیرے  ہوئے  ہے۔ عدالت کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام اشیاء اور اشخاص کے درمیان برابری اور مساوات کا برتاؤ  کیا جائے، جو ایک مرتبہ اور منزلت رکھتے ہوں۔عدل کا موضوع تفصیل طلب اور وسیع ہے لیکن میں موضوع کے مطابق عدل مولائے کائنات حضرت علی ؑ کی نظر میں کچھ معروضات پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ آپ ؑ ارشاد فرماتے ہیں۔
” العَدلُ يَضَعُ الاُمورَ مَواضِعَها” ترجمہ: عدل امور کو ان کی جگہوں پر رکھ دیتا ہے” عدل کی ضد ظلم ہے اور قرآن مجید میں کئی جگہوں پر ظلم اور ظالم کی مذمت کی گئی ہے ۔ امیرالمومنین نے ظالم کے مقابلے میں ہمیشہ مظلوم کی حمایت کی اور اپنی آخری وصیت میں ارشاد فرمایا ۔ ” کونوا لظالم خصما وّ للمظلوم عونا ”

امیرالمومنین ؑ کی حیات طیبہ عدل کے قیام کی عملی تفسیر ہے ۔ آپ کی زندگی کے ہزارہا واقعات تاریخ میں موجود ہیں کہ آپ نے عدل کے حوالے سے ذرہ برابر کوتاہی برداشت نہیں کی ۔ آپ ؑ نے جب خلافت ظاہرہ قبول کی تو اس کی وجہ بھی یہی قرار دی کہ علی ؑکو اقتدار اور تخت و تاج کی ہوس نہیں بلکہ  میں  چاہتا ہوں کہ عدل قائم کروں اور ظلم کا راستہ روک لوں۔

ایک دفعہ ابن ِعباس سے فرمایا کہ میری اس پھٹی ہوئی جوتی کی کیا قیمت ہے ؟ فرمایا کچھ بھی نہیں ۔ عرض کیا تمھاری اس حکومت کی قیمت بھی میرے نزدیک اس جوتی سے زیادہ نہیں ۔ میں نے اس کو اس لئے قبول کیا ہے تا کہ ظلم کا راستہ روک لوں۔

تاریخ بشریت میں علی ابن ابی طالبؑ کی عدالت کی نظیر دھونڈنے سے نہیں ملتی ۔ علی ؑ نے عدل و انصاف کا صرف نعرہ بلند نہیں کیا بلکہ عملی طور پر دکھایا کہ عدالت کیا ہوتی ہے اور عدالت کس کو کہتے ہیں ۔ ایک دفعہ ارشاد فرمایا : ” واللہ !اگر مجھے سات اقلیم اس شرط پر دیئے جائے کہ میں ایک چیونٹی کے منہ سے جو کا ایک چھلکا چھین لوں تو میں انہیں ٹھوکرمار سکتا ہوں، لیکن اس حد تک بھی بے عدالتی اور ظلم نہیں کر سکتا “۔

مولائے کائنات کی شخصیت اور عدل  لازم و ملزوم نظر آتے  ہیں ۔ آپؑ نے امور ریاست سے لے کر اختیارات اور عہدوں کی تقسیم اور بیت المال کے معاملات تک ہر قدم پر عدالت کو پہلی ترجیح دیں۔ اپنے گورنر ابولاسود دوئلی کو صرف اس لئے معزول فرمایا کہ تمھاری آواز مدعی کی آواز سے بلند ہوتی ہے۔ اقلیتوں کے حقوق بارے علی ؑ کی پاکیزہ سیرت آج قابل تقلید ہے ۔ مالک اشتر کے نام خط میں لکھا کہ ” لوگ تمھارے بھائی ہیں یا دینی رشتے سے بھائی ہیں یا وطنی رشتے سے بھائی ہیں۔ مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ علی کے دور خلافت میں اقلیتیں خوشحال تھیں ان پر کسی بھی طرح کا ظلم نہیں ہوا۔ بیت المال کی تقسیم کے حوالے سے اتنا سخت موقف تھا کہ اپنے چچا زاد بھائی عقیل کے ہاتھ میں انگارہ دے کر فرما یا تم دنیا کی آگ سے  ڈرٹے ہو اور مجھے جہنم کی آگ کی طرف لے جاتے ہو۔ جب شورش ہوئی اور ہر قماش اور طرح کے لوگ علیؑ کی پاکیزہ حکومت اور عدالت کے مقابل آئے اور روڑے اٹکائے تو مشورہ دیا گیا کہ ان کو ذرا ڈھیل دی جائے ،تھوڑا سا کمپرومائز کیا جائے اور مصلحتاً خاموشی اختیار کی جائے تو آپؑ نے دوٹوک موقف پیش کرتے ہوئے فرمایا۔ ” اتامرونی ان اطلب النصر بالجور..” “کیا تم لوگ مجھے مشورہ دے رہے ہو کہ میں ظلم و جور کے سہارے فتح و کا میابی حاصل کروں۔ ”

عدالت کا احترام کیا ہوتا ہے اور کیسے کیا جاتا ہے یہ بھی امام عدل علیؑ نے دنیا کو دکھا دیا ۔ مشہور واقعہ ہے اور تاریخ کی کتابوں میں یوں درج ہے۔ حضرت علیؑ کی زرہ گم ہوگئی تھی ۔ ایک دن آپؑ نے زرہ کو ایک یہودی کے پاس دیکھا تو آپؑ نے اس یہودی سے مطالبہ کیا کہ یہ میری زرہ ہے مجھے واپس کرو۔ اس پر اس نے کہا کہ زرہ تو میرے پاس ہے، آپ کا اس پر دعویٰ ہے تو ثابت کریں۔ (کیونکہ اصولی و قانونی طور پر چیز اس کی ملکیت سمجھی جاتی ہے جس کے پاس وہ چیز موجود ہو، مگر یہ کہ کوئی دلیل ایسی ہو جس سے معلوم ہو کہ چیز اس کی نہیں)۔حضرت علی(ع) اس کو لے کر قاضی کے پاس چلے جاتے ہیں۔ زمانہ بھی حضرت علی(ع) کی خلافت کا تھا۔ قاضی کے پاس جا کر آپ نے شکایت کی کہ یہ زرہ میری ہے، میں نے کسی کو بیچی نہیں، اور گمشدہ تھی، اب اس یہودی کے پاس سے نکلی ہے۔ قاضی نے یہودی کی طرف رخ کیا اور کہا کہ خلیفۂ مسلمین کا یہ دعویٰ ہے، اب تمہارا کیا خیال ہے۔اس پر اس یہودی نے کہا کہ زرہ میری اپنی ہے، ممکن ہے کہ خلیفہ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہو۔ قاضی نے پھر امام علی(ع) کی طرف رخ کیا اور کہا کہ یہ شخص انکار کر رہا ہے کہ زرہ آپ کی ہے، اب آپ پر ہے کہ آپ اپنے دعویٰ کے اثبات کے لئے گواہ پیش کریں۔ اس پر امام علی(ع) مسکرائے اور فرمایا کہ تم صحیح کہہ رہے ہو، اس صورتحال میں گواہ لانے کی ذمہ داری میری ہے لیکن میرے پاس کوئی گواہ نہیں۔قاضی نے یہ سنا تو یہودی کو زرہ واپس کر دی اور فیصلہ امام علی(ع) کے خلاف سنا دیا۔ یہودی نے اپنی زرہ اٹھائی اور چل دیا لیکن کچھ قدم چل کر واپس پلٹا اور کہا: “یہ طرز حکومت عام لوگوں کی طرح نہیں ہے، یہ انبیاء کی حکومت کی مثل ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

امیرالمومنین ؑ نے انسانی سماج کے استحکام اور نظام کی پائیداری کے حوالے سے عدل کی اہمیت اور ضرورت کو  یوں بیان فرمایا ہے ۔ ” کفر کا نظا م چل  سکتا ہے لیکن ظلم کا نہیں چل سکتا ” معروف عیسائی مصنف جارج جرداق نے اپنی مشہور زمانہ کتاب کے آخر میں علی ابن ابی طالب کی مظلومانہ شہادت کی وجہ بیان کرتے ہوئے کمال کا جملہ لکھا ہے ” قتل علی ابن ابی طالب لشدۃ عدلہ ” علی ابن ابی طالب اپنے عدل میں شدت کی وجہ سے قتل کئے گئے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply