وہ ، جن کے پاؤں دھونے پر مجھے فخر ہے/رشید یوسفزئی

نماز ظہر کی تیاری تھی۔ گاؤں اور گاؤں کے اندر ، باہر سے کافی غیر مقامی لوگ مسجد آئے تھے۔ نماز کے فوراً  بعد مسجد توغلخیل کوٹ منزرے بابا کے  چھوٹے  سے  بازار میں ضمنی الیکشن کے حوالے سے مسلم لیگ، اے این پی اور جماعت اسلامی کا جلسہ تھا۔ ہم سکول کے طالب علم تھے اور اتنا  بس سمجھ سکے کہ ان تمام پارٹیوں کے  مشترکہ امیدوار مردان سے تعلق رکھنے والے ایک عالم دین مولانا گوہر رحمن ہیں۔

والد اس مسجد کے پیش امام تھے۔ عموماً ایسے مواقع پر مولوی اپنی جائے امامت کسی  کے لیے  نہیں چھوڑتے۔اُس وقت  کافی حیرت ہوئی کہ جب  نماز سے قبل والد نے   مردان سے آ ئے مولوی کو اپنا مصلی پیش کیا۔ مولانا گوہر رحمٰن آگے محراب میں کھڑے ہوئے،امامت کی۔ والد نماز کے بعد مصلی امام نہیں چھوڑتے تھے اور باقاعدگی سے دعا بعد سنت کرتے تھے۔ سو مردان سے آئے یہ امیدوار انتخابات مولانا بھی اسی جگہ باقی رہے۔ ہم کم عمر نمازی جلد ہی نزدیک آکر متجسس کھڑے ہوگئے۔ باقی لوگوں نے سنت نماز ادا کی تو مہمان امام صاحب نے نمازیوں کی  طرف منہ پھیر کر اجتماعی دعا کیلئے ہاتھ اُٹھائے۔ سفید قمیض  کی  دائیں آستین کی کف کا  بٹن کہیں گر گیا تھا۔ سو گھر میں کسی نے سفید کی بجائے ایک بھدا  سا  خاکی بٹن سرخ دھاگے سے ٹانکا   ہوا تھا  جو بہت بُری نظر آرہا  تھا ۔ بائیں آستین کی کف پر بٹن غائب تھا  ،سو پوری آستین کھلی لٹک رہی تھی۔

میرا خیال تھا کہ جماعتِ  اسلامی میں علم ودانش مولانا مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی کیساتھ دفن ہوچکی  ہیں۔ اِدھر تو مودودی و اصلاحی کیا بیضاوی و فخرالدین رازی، راغب اصفہانی و جرجانی، محمود جاراللہ زمخشری معتزلی اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی، کانٹ و ہیگل، مارکس و لینن، ہیوم و بارکلے، ایڈم سمتھ و جان سٹارٹ مل سب ایک ذات میں موجود تھے ۔

 

 

 

مسجد کے بائیں طرف پیش امام کا  چھوٹا  سی کمرہ تھا ، جس میں مہمانوں کیلئے تین چارپائیاں  رکھی  تھیں ۔ ایک طرف والد کی کتابوں کی بڑی الماری تھی۔ کمرے کی  زمین پر پہاڑی گھاس جسے مقامی لوگ “بروزہ یا درب” کہتے تھے ، بچھائی گئی تھی۔ یہ زمان و مکان کی مناسبت سے اعلیٰ ترین کارپٹ تھا ۔

بعد از نماز مولانا گوہر رحمٰن ایک کپ چائے پینے اسی کمرے تشریف لائے ۔ اسی فطری قالین پر بیٹھ گئے۔ میں چائے ڈالنے  کو نزدیک ہُوا تو سفید کپڑوں کے اوپر پہنے ان کے بھورے رنگ کے خستہ و بوسیدہ واسکٹ کی    جیبوں پر نظر گئی۔ کثرتِ استعمال سے موٹے کپڑے کے بٹن اور بخیے اُدھیڑ چکے تھے۔ جگہ جگہ واسکٹ کا  اندورنی استر باہر نظر آرہا  تھا ۔

والد نے گفتگو کا آغاز اپنے اظہارِ حیرت اور سوال سے کرتے ہوئے پوچھا،” حضرت، آپ تو دعا بعد سنت نہیں کرتے ۔ آج تو آپ نے بالکل خلافِ  عادت کام کیا ۔”
مولانا گوہر رحمٰن خفیف مسکراہٹ کیساتھ دھیمے لہجے میں کہنے لگے:”
مولانا ، تم نے سالہا سال  محنت کرکے اپنے مقتدیوں کی عادت بنائی ہے۔ عامی معمولی بات سے بڑا تنازع  پیدا کرتے ہیں۔ اب میں دعا کے بغیر چلا جاتا تو یہ کہتے شاگرد نے کئی سال ایک طرح ریت و روایت بنائی اور اب اس کے استاد نے کچھ اور کیا۔ دُعا بُری بات نہیں اور مصلحت ہر جگہ اولیٰ۔”

یہ شیخ القرآن و الحدیث مولانا گوہر رحمٰن سے ہمارا  اولین تعارف تھا  ،جو مستقبل میں ایک مستقل تلمذ اور عقیدت میں بدل گیا۔

ہم دورہء حدیث مکمل کرچکے تھے۔ درگئی کالج میں انگلش لٹریچر کے طالب علم تھے۔ والد نے جدید دور سے ہم آہنگ قرآنی فہم کیلئے عبدالماجد دریابادی کی اُردو اور انگریزی دونوں تفاسیر مطالعے کیلئے دی    تھیں ،مگر تاکید کر رہے تھے کہ رمضان سے دس دن قبل مولانا گوہر رحمٰن باقاعدہ چالیس روزہ دورہء تفسیر کراتے ہیں، میں اس میں شامل ہوجاؤں۔ درگئی کالج کے مایہ ناز انگریزی استاد پروفیسر محمد حسین استاد کے علاوہ میرے ذاتی سرپرست تھے۔ ان کے توسط سے لمبی چھٹی مل گئی، اور بیگ و بستر لے کر تفہیم القرآن مولانا گوہر رحمٰن کے درس میں شمولیت کیلئے عازمِ  مردان ہُوا۔

مولانا بارے وہی ماضی کی حیرت و تجسس برقرار تھا ۔ زردی مائل سفید یا کریم کلر کا ایک علیشان مدرسہ۔ مین روڈ سائیڈ پر ایک پُرشکوہ مسجد کا  ہال۔ محراب کیساتھ ایک چھوٹی سی کرسی پر وہی مرد درویش چترالی کیپ، پکول ، سادہ واسکٹ اور سفید کپڑے پہنے مسندِ  درس سنبھالے  ہوئے تھے۔ پہلے دو تین دن کے موضوعات تھے: تعارفِ  وحی، نزولِ  قرآن، قرآن اور سائنس، قرآن اور معاشیات ، قرآن فلسفہ جدید، تفاسیر، لغات القرآن، قرآن اور عربی ادب ۔

میرا خیال تھا کہ جماعتِ  اسلامی میں علم ودانش مولانا مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی کیساتھ دفن ہوچکی  ہیں۔ اِدھر تو مودودی و اصلاحی کیا بیضاوی و فخرالدین رازی، راغب اصفہانی و جرجانی، محمود جاراللہ زمخشری معتزلی اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی، کانٹ و ہیگل، مارکس و لینن، ہیوم و بارکلے، ایڈم سمتھ و جان سٹارٹ مل سب ایک ذات میں موجود تھے ۔

میں سوچ رہا تھا یہ مولانا جماعت اسلامی کے  امیر ہیں ، یہ مولانا مودودی کے فکری گائیڈ لائنز سے سر مو باہر قدم زن نہیں ہوں گے۔ اِدھر یہ درویش مولوی اوّل روز ہی ایک نکتہ پر کہنے لگے:” مولانا مودودی رحمہ اللہ نے اس نکتے پر ایک بات لکھی ہے کاش یہ نہ لکھتے۔ یہ ان سے فروگذاشت ہوئی ہے”۔ اور پھر مولانا مودودی پر ایک مدلّل ،منطقی اور بے رحم تنقید کا سلسلہ شروع کیا۔

سلطان عبدالعزیز السعود کے آخری دور میں سعودی علما  مقابر پر عمارتوں اور گنبدوں کے انہدام کیلئے سرگرم تھے۔ سلسلہ انہدام بڑھتے بڑھتے روضہ اقدس اور گنبدِ خضراء تک آگیا۔ مسئلہ تمام عالم اسلام کے احساسات کا تھا۔ کنگ عبدالعزیز نے سعودی علما  کو اس بات پر آمادہ کیا کہ آپ اور گنبدِ  خضراء کے قائم رہنے کے حق میں دیگر علمائے عالم اسلام کا ایک مناظرہ  کرتے ہیں۔ جس کا موقف مضبوط ثابت ہُوا، اسی پر عمل ہوگا ۔ برصغیر کا  وفد علامہ شبیر احمد عثمانی کی سربراہی میں مدینہ منورہ جائے مناظرہ تشریف لے گیا۔ مناظر ہ آخری مراحل میں تھا۔ وہابی علما  جیت رہے تھے۔ آخری روز آلات انہدام کرین وٹریکٹر آگئے ۔ علامہ شبیر احمد عثمانی کی باری تھی۔ بس بات ختم۔۔۔ علامہ تقریر کیلئے اُٹھے۔ کم حسرات دفن فی صدور المقابر کو متن بناکر تقریر شروع کی۔ کعبہ و حطیم کے تاریخی حوالے پر آئے۔۔۔ تاریخ، روایات، نصوص کے انبار لگائے۔ منطقی استدلال و استخراج سے ہر نکتے کو آہنی بنایا،، بادشاہ متحیرّ، وہابی علما  مبہوت۔ علامہ نےبحث سمیٹی تو سلطان عبدالعزیز السعود کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا: “علماؤالہند ہکذا! ہند کے علما  اتنے عظیم ہیں!” علامہ شبیر احمد عثمانی مسلمانانِ  عالم کے دِلوں کا مقدمہ جیت چکے تھے ۔ انہدام کی ساری مشینری واپس چلی گئی۔ آج جو گنبد خضرا چشم عالم کو مسرت و سکون دیتا  ہے یہ انہی  علامہ شبیر احمد عثمانی کی علمی عظمت کی جیت ہے۔

ایک بات پر میں نے فلسفہ تاریخ پرایک ممتاز مغربی فلسفی کا قول نقل کیا کہ “ تاریخ اجتماعی حافظہ ہوتی ہے۔” فرمانے لگے” قطعاً  غلط ۔ تاریخ حافظہ ہوگئی  تو بیڑا غرق ہے۔ حافظہ معروضی حقائق Objective realities اور واقعات کو موضوعی subjective بناکر ان کی مکمل ٹرانسفرمیشن کرتاہے۔ ان پر نفسیاتی کیفیاتی اور ذہنی تعصبات کے رنگ چڑھاتا ہے ۔ جبکہ تاریخ کے  واقعات  ان سے بے نیاز ہونے چاہئیں۔”

 

 

 

 

درس قرآن کے تعارفی ایام میں ، میں مولانا گوہر رحمٰن کو سنتا اور دل ہی دل میں یہیں جملہ دہراتا رہا : علماء المردان ہکذا! علما  البشتون ہکذا! علما  الباکستان ہکذا ! علما  الاسلام ہکذا!

اوّلین روز نمازِ  ظہر سے قبل کھانے کا وقت ہوگیا۔ کوئی اپنے ساتھ کھانے کا کچھ سامان لے آیا تھا۔ کوئی باہر گیا۔ ہم نے تفہیم کے لنگر سے کھانا لینا تھا۔ لنگر کے  نزدیک ایک جگہ بیٹھ گئے تو خود مولانا پر نظر پڑ  گئی۔ ایک کونے میں بیٹھے شلغم کے سادہ پانی والے شوربے کیساتھ روٹی کھا رہے ہیں۔ یہ پاکستان کی مجلس شوریٰ و پارلیمان کے ممبر تھے۔۔ یہ واقعہ بعد میں جماعت ِ اسلامی پاکستان کے موجودہ ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید بختیار معانی  کو سنایا تو انہوں نے  جوابی واقعے کا ذکر کیا، کہ ایک موسمِ  سرما مولانا ان کے ہاں تشریف لائے ۔ سردی تھی تو انہوں نے  گیس سلینڈر سے ہیٹر لگایا۔ مولانا اس پر ہاتھ گرم کر رہے تھے اور دورانِ  گفتگو اسلامیہ انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد میں ان کے زیرِ  تعلیم بیٹے عطاء الرحمٰن کی بات آگئی۔ مولانا یکدم برافروختہ ہوکر فرمانے لگے:” دیکھ بختیار، مجھے کل کسی نے کہا ہے کہ عطاالرحمٰن ہاسٹل میں کھانے میں مرغ کھاتا ہے! ایسی عیاشی میرے بس کی نہیں۔”

کچھ میری مستعدی کچھ والد کی سفارش ،میں آہستہ آہستہ مولانا کے قریبی حلقہ ء تلامذہ میں شامل ہوگیا۔ اس زمانے میں مردان کی  مضافاتی بستی “ہلکی” کے ایک بدمعاش لڑکے گوہر مومند نے بدمعاشی سے مولانا کے ہاتھ پر توبہ کی  تھی اور فی سبیل اللہ مولانا کے ڈرائیور بن گئے تھے۔ مولانا کو جماعت کی طرف سے ایک سرخ ٹوڈی موٹر دی گئی تھی ۔ گوہر اسے چلاتے ۔ ایم اے انگلش کی  کلاسز سے چھٹیاں تھیں  ۔ تفہیمِ  سلام کیلئے حاضر تھا۔ گوہر مومند نے کہا، کل مولانا صاحب چکدرہ تشریف لے جارہے  ہیں۔ کوئی اور ساتھ نہیں، کوشش کرتا ہوں آپ کو ساتھ لینے کی اجازت دیں۔ اجازت ملی تو ساتھ ہولیا۔ موقع غنیمت تھا۔ سارے راستے سوالات کرتا رہا۔ ملاقاتوں کے بعد دریائے سوات کے کنارے آئے۔ ایک پتھر پر بیٹھ گئے۔ پاؤں پانی میں رکھے تو میں نے انکے پاؤں دھونا شروع کیے اور ساتھ ساتھ سوالات کرتا گیا۔ ایک بات پر میں نے فلسفہ تاریخ پرایک ممتاز مغربی فلسفی کا قول نقل کیا کہ “ تاریخ اجتماعی حافظہ ہوتی ہے۔” فرمانے لگے” قطعاً  غلط ۔ تاریخ حافظہ ہوگئی  تو بیڑا غرق ہے۔ حافظہ معروضی حقائق Objective realities اور واقعات کو موضوعی subjective بناکر ان کی مکمل ٹرانسفرمیشن کرتاہے۔ ان پر نفسیاتی کیفیاتی اور ذہنی تعصبات کے رنگ چڑھاتا ہے ۔ جبکہ تاریخ کے  واقعات  ان سے بے نیاز ہونے چاہئیں۔”

جیمز بالڈون کا ایک جملہ کل پرسوں نظر سے گزرا۔ لکھتا ہے انسان   کے گرنے کی حدود ہوتی ہے۔ اس کی پرواز کی حد نہیں ہوتی۔ انسان  فطرتاً عظیم ہے ۔ اس کی رفعتیں اور بلندیاں حد ِ نظر سے اوپر ہیں۔ گوئٹے نے درست کہا تھا انسان کی  خامیاں ماحول کی  دَین ہوتی ہیں ۔ اس کی  خوبیاں اس کی  اپنی  ہوتی ہیں ۔ انسان اوپر چلتا جائے تو حد و پیمانہ غائب ہوجاتے ہیں۔ علم کی عظمتیں، عقل کی رفعتیں، اخلاق کی بلندیاں، قلب و نظر کی  وسعتیں، کردار کی پاکیزگی، ساری انسان کی خوبیاں اور بلندیاں ہیں۔ مولانا گوہر رحمٰن ایک ذات میں ان ساری  عظمتوں، خوبیوں ، رفعتوں کے مجسم پیکر تھے۔

پشتون شاعر و سیاست دان اجمل خٹک سے یارانہ تھا۔ بے نیازی و استغنا میں دونوں ہم مزاج تھے۔اجمل بابا درگئی ملاکنڈ ایک تعزیت سے واپس آرہے تھے۔ مدرسے تشریف لائے۔ دونوں گلے ملے تو خوب ہنسے ۔ مجھے تعجب ہوا  کہ پہلی بار مولانا کو اتنی بے تکلفی سے قہقہے لگاتے سنا۔ اجمل بابا بیٹھ گئے تو مولانا نے کہا ایک منٹ گھر والوں کو آپ کیلئے خصوصی چائے بنانے کا کہتا ہوں۔ واپس آئے گپ شپ شروع ہوئی ۔ تو چند منٹ بعد پھر اُٹھ گئے اور بنفس نفیس چائے لے آئے اور خٹک صاحب کا پیالہ بھر دیا۔ فارسی عربی ادبی مواز نے پر بات شروع ہوئی۔ اجمل خٹک صاحب ایم اے فارسی تھے اور ساتھ ہی عربی ادب نیم ازبر تھی۔ ایک فارسی شعر کہہ کر فرمایا کہ یہ فلاں عربی شاعر کے فلاں شعر سے سرقہ ہے۔ مولانا متفق نہ تھے۔ فرمایا یہ تواُردو  ہے۔ خٹک صاحب نہ مانے تو فرمایا “ اجمل ، سرقہ کی  13  اقسام تو مجھے یاد ہیں۔” اور فرفر سب شمار کرنے لگے۔ دونوں کی ادبیات عربی و فارسی پر دسترس حیران کُن تھی۔ خیال آیا ،اقلیمِ ادب کے دو ڈکٹیٹروں کی محفل میں بیٹھا ہوں۔ پشتون لیڈر اور عالم و سکالرز کبھی ایسے ہوا کرتے!

ان کا  مستغنیٰ اور بے نیازانہ انداز اور رویہ بطور مثال پیش کیے جاتے تھے۔
مولانا جماعت کے صوبائی امیر تھے۔ امیر جماعتِ اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد سوات جا رہے تھے۔ راستے میں مدرسہ تفہیم مولانا سے ایک ضروری بات کرنے رُ ک گئے۔ مولانا درس بخاری میں مصروف تھے۔ قاضی صاحب نے دو تین بار میسج بھیجا کہ دو منٹ دیں پھر میں چلتا ہوں۔ درس میں لاؤڈ سپیکر پر جواب دیا : “قاضی ، بخاری سے بڑے آدمی نہیں ہو۔ چالیس منٹ  کا درس باقی ہے۔ انتظار کرسکتے ہو تو درست۔ نہیں تو اللہ حافظ!” قاضی صاحب چل دئیے اور واپسی ہوئی تو مولانا کو انکی علمی مصروفیات کی بناء پر صوبائی امارت سے الگ کیا۔ جیسے ہی خبر مل گئی۔ ڈرائیور کو کہا فوراً یہ گاڑی لے جاؤ اور منصورہ میں ان کے  حوالے کرو۔ ذمہ داری کے بغیر میں نے جماعت کی گاڑی نہیں لینی!”

کیا دنیا کی سیاسی تاریخ میں کوئی پارٹی ذمہ دار، پارٹی سربراہ کیساتھ ایسا رویہ رکھ سکتا ہے؟

قاضی حسین احمد نے دیگر سیاسی پارٹیوں کے فین فالورز جماعت کے نزدیک لانے اور دیگر پارٹیوں سے روابط مضبوط بنانے اور انٹریکشن پیدا کرنے کی غرض سے پاسبان کا قیام عمل میں لایا۔ پاسبان میں عام جوانوں کی  سرگرمیاں ہوتیں ۔ مولانا اس  ساری ترتیب کے سخت مخالف تھے۔ پاسبان کے ایک جلسے میں قاضی صاحب نے اپنے ساتھ شرکت کیلئے مجبور کیا۔ انتہائی خشمگیں  بیٹھے تھے۔ تقریر کی باری آئی  تو جیسے ہی سٹیج پر گفتگو شروع کی فرمایا
“قاضی اوس ما پہ سپینہ گیرہ گڈئ، قاضی صاحب اب مجھے سفید داڑھی کیساتھ نچوانا چاہتاہے۔”

زندگی میں انسانوں کے ہزاروں   رنگ و روپ  دیکھے۔ سترہ اٹھارہ ممالک میں عالمی سیاسی ، سماجی، علمی شخصیات کے قریبی مطالعے کا  مو قع ملا ،لیکن مولنا گوہر رحمٰن کی  مثال نہ ملی۔

عربی شاعر ابو الطیب احمد المتنبی نے شاید انہی جیسوں بارے کہا تھا:
مضت الدھور و ما اتین بمثلہ ولقد اتی فعجزن عن نظرائہ
زمانے گزر گئے ان کی  مثل نہ آئی  اور وہ آگئے تو زمانہ ان کی مثل لانے سے قاصر رہا  ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مولنا گوہر رحمٰن کے کمالات اور عظمتیں بے شمار تھیں ۔ ہاں ان کا ایک ہی روپ و رنگ تھا: عالمانہ قلندری، بے نیازانہ درویشی کا رنگ ۔
مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ میں نے انکے پاؤں دھوئے۔ یہ میرا سرمایہ تعلیم و عمل ہے۔ ۔  رحمہ اللہ تعالی و الرفع درجاتہ!

Facebook Comments

رشید یوسفزئی
عربی، فارسی، انگریزی ، فرنچ زبان و ادب سے واقفیت رکھنے والے پشتون انٹلکچول اور نقاد رشید یوسفزئی کم عمری سے مختلف اخبارات، رسائل و جرائد میں مذہب، تاریخ، فلسفہ ، ادب و سماجیات پر لکھتے آئے ہیں۔ حفظِ قرآن و درس نظامی کے ساتھ انگریزی اور فرنچ زبان و ادب کے باقاعدہ طالب علم رہے ہیں۔ اپنی وسعتِ مطالعہ اور بے باک اندازِ تحریر کی وجہ سے سوشل میڈیا ، دنیائے درس و تدریس اور خصوصا ًاکیڈیمیا کے پشتون طلباء میں بے مثال مقبولیت رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply