کروموسوم اور جینز کی دنیا/ثاقب الرحمٰن

اپنے آپ کو پہچاننے کا سفر جینز genes سے شروع ہوتا ہے۔ یہ وہ عبارت ہے جو ہمیں بیان کرتی ہے، ہمارا تعارف ہمارا نام، مذہب، ڈگری، تعلیم نہیں ہوتی یہ تمام چیزیں حاصل شدہ acquired ہوتی ہیں۔ہمارا تعارف وہ تمام چیزیں ہیں جو جینز میں درج ہے یعنی ہمارے بالوں کا رنگ، آنکھوں کا رنگ، ہماری جنسی شناخت، جسامت رنگ اور نسل خاندان وغیرہ۔

انسان میں 23 کروموسوم ہوتے ہیں،ہر کروموسوم کا آدھا حصّہ والد اور بقیہ آدھا والدہ سے حاصل شدہ ہوتا ہے۔ پہلے بائیس کروموسوم مرد اور عورت میں بالکل ایک جیسے ہوتے ہیں، تئیسواں کروموسوم الگ ہوتا ہے جو جنسی شناخت دیتا ہے۔ تمام ارتقاء اور میوٹیشن انہی سب کروموسوم میں برپا ہوتا ہے۔ ہم باشعور ہیں کیونکہ ہمارے جینز کی میوٹیشن نے یہ ممکن بنایا۔ کوئی اگر مخنث ہے تو اسی میوٹیشن کی بنا پر ہے۔

مثال کے طور پر کروموسوم نمبر2 میں تقریباً 1490 جینز ہیں اور ان کوڈز میں پروٹین بنانے کا طریقہ کار لکھا ہوا ہے،یہی کروموسوم کمزور ہو یا خرابی پیدا کرے تو ہائی بلڈپریشر اور شوگر کا مرض لاحق ہوتا ہے، آٹزم کا مرض بھی اسی کروموسوم میں تبدیلی یا کمزوری کی بنا پر پیدا ہوتا ہے۔

کروموسوم نمبر 6 میں ہزار سے گیارہ سو جینز ہیں۔اسی کروموسوم میں انسانی دفاعی نظام کا مکمل ڈھانچہ اور ترتیب موجود ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ خون کے سفید خلیے ہمارے جسم کا دفاعی نظام سنبھالتے ہیں۔ حقیقتاً سینکڑوں وائرس، بیکٹیریا اور فنگس انفیکشن روزانہ کی بنیاد پر ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں جنہیں یہ سفید خلیے روک کر فنا کر دیتے ہیں۔ باہر سے حملہ آور ہونے والے جراثیم بھی پروٹین سے بنے ہوتے ہیں اور ہمارا اپنا جسم بھی لاکھوں قسم کے پروٹین سے بنا ہوا ہے تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان سفید خلیوں کو یہ شعور اور یہ پہچان کہاں سے ملتی ہے کہ کون سا پروٹین باہر سے آیا ہے اور کون سا ہمارے اپنے جسم نے بنایا ہے۔۔یہ سفید خلیے ہمارے اپنے جسم کے پروٹین کو کبھی قتل نہیں کرتے۔ یہ پہچان کروموسوم نمبر 6 میں موجود HLA نامی اینٹیجن میں لکھی ہوئی ہے۔ یہ معرفت کا پورا نظام انہی 220 جینز نے سنبھالا ہوا ہے۔اس میں DNA کے دو حصوں DRB1 اور DQB1 کا آن لائن مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

اسی اینٹیجن HLA میں خرابی کی صورت میں کئی خطرناک بیماریاں پیدا ہوتی ہیں جیسے ہیپاٹائٹس بی اور لوکیمیا نامی بلڈ کینسر (جو اتفاق سے مجھے لاحق ہے)۔۔بون میرو ٹرانسپلانٹ کے لئے اس کروموسوم 6 کے اسی حصے HLA کو بہن اور بھائی سے میچ کیا جاتا ہے برابر ہونے کی صورت میں ڈونر سے تقریباً ایک فیصد سٹیم سیل لے کر مریض کے جسم میں ٹرانسپلانٹ کر دیا جاتا ہے۔۔اس کے بعد یہ نئے خلیے نئے جسم میں جا کر سفید خلیے بنانا شروع کرتے ہیں. ایسا بھی ہوتا ہے کہ میچ ہونے کے باوجود یہ سفید خلیے جراثیم کی بجائے نئے جسم کو ہی کاٹنا شروع کر دیتے ہیں، اس سے مریض کی موت واقع ہوتی ہے، ایسا تیس فیصد کیسز میں ہوتا ہے۔

کڈنی ٹرانسپلانٹ کے وقت بھی یہی HLA میچ دیکھا جاتا ہے،تاکہ مریض کا جسم نئی کڈنی کو تباہ نہ کر دے،کڈنی ٹرانسپلانٹ میں غلطی کی گنجائش ہو سکتی ہے لیکن بون میرو سیدھا موت کے گھاٹ اتارتا ہے۔ یہ سب کروموسوم نمبر 6 کے معجزے ہیں، باقی کروموسوم اپنا اپنا کام کرتے رہتے ہیں ہمارے غصے، خراٹے، مزاج، صبر اور آنکھوں کا رنگ بھی یہی طے کرتے ہیں، عنقریب انسان جینز کو اتنا سمجھ سکے گا کہ ایک ناخن لے کر بالوں کا رنگ بتا سکے گا،فی الحال ہم ایک ناخن سے یہ بتا سکتے ہیں کہ یہ انسان سید ہاشمی قریشی ہے، آریا ہے، افریقی ہے یا بنی اسرائیلی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب ہمیں قیامت کا انتظار نہیں کرنا پڑتا،ہمارے جسم کا ایک بال یا کھال کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی ہمارے بارے میں مکمل گواہی دیتا ہے، سارے 23 کروموسوم کا حال بیان کرتا ہے، اور کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔۔ اب اگر اعضاء ملیں اور جنس معلوم نہ ہو رہی ہو تو دارالافتاء کی ضرورت نہیں، اس کے کروموسوم سے پوچھ لیں۔ ہمیشہ سچا جواب ملے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply