پہلی محبت کی مختصر سی روداد/حسیب یوسفزئی

“گودر” کے بغیر پشتو ادب، تاریخ اور سماج ادھورا سمجھیے۔ آپکو خال ہی پشتو کی کوئی ایسی فوک رومانوی داستان ملے گی۔ جس میں گودر کا تذکرہ نہ ہو۔ پشتو شعر و شاعری کی سب سے مقبول صنف ” ٹپیزہ” ہے۔ گودر کو لیکر پشتو میں اَن گِنت  ٹپے کہے گئے ہیں۔

گودر ہوتا کیا ہے؟ یہ ٹھنڈے پانی کا ایک چشمہ ہوتا ہے۔۔ جہاں سے گاؤں کی لڑکیاں اور دیگر خواتین ٹولیوں میں جمع ہو کر پانی بھرنے جاتی ہیں۔ یہ انکے پاس پشتو قدامت پسند سماج میں بڑا اعلیٰ موقع ہوتا ہے کہ اپنی ہم صنفوں کے ساتھ مل بیٹھیں، گپ شپ کریں۔ ہنسی مذاق کریں، اپنی کہیں اور دوسروں کی سنیں۔

پر اس سب سے بڑھ کر یہ موقع عشاق کے لیے بھی کسی نعمتِ عظیم سے کم نہیں ہوتا۔ اس بہانے پریمیوں کو دور سے ہی سہی ایک دوسرے کا دیدار نصیب ہو جاتا ہے۔ممکن ہو تو چھوٹے موٹے تحائف نہیں تو مسکراہٹ کا تبادلہ ۔۔ اور یہی گودر کی وہ شاندار جہت ہے جو اسے پشتون رومانوی آرٹ اور ادب میں ایک مقبول مقام بخشتی ہے۔

یہ ایف ایس سی کی بات ہے،جب آتش جوان تھا،  یہ وہ عمر ہوتی ہے جب آپ عقل سر میں نہیں سینے میں لیکر گھومتے ہیں۔ اس عمر کی دوسری خاص بات یہ ہوتی ہے کہ آپ پر ہر وقت محبت کرنے کا خبط سا سوار رہتا ہے۔ آپکی   خواہش ہوتی ہے کہ آپ کو ایک شدید  قم کی محبت ہو اور ہر حال میں ہو۔۔ آگے پیچھے کی سوچ آپ کو چھو کر بھی نہیں گزرتی۔۔ سو ہم عمر کے  اسی حصّہ میں  تھے۔

میں اپنی گاؤں یاترا پہ تھا۔ میرا یہ گاؤں ضلع شانگلہ کے عظیم فلک بوس پہاڑوں کے عین وسط میں واقع ہے، موسم گرما اور سہ پہر کا وقت تھا۔ میں تھا اور بچپن کا ایک عشق سوختہ سا دوست تھا۔ یہ دن کا وہ حسین سا سمے ہوتا ہے جب گاؤں کی الہڑ دوشیزائیں گودر سے پانی بھرنے جاتی ہیں۔ ہم ایک ڈھلوان  پر ایک بڑے سے چنار کی چھاؤں میں بیٹھے تھے، جہاں سے ہم حسن کی ان دیویوں کی دید سے اپنی تشنہ آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا رہے تھے۔

ایک کے بعد ایک حسینوں کی ٹولی گزرتی جارہی تھی اور ہم بھی دیکھتے جارہے تھے، تاکہ اپنی جمالیاتی حس کو سکون کا سامان متواتر پہنچاتے رہیں۔ یکایک اپنی ہم جولیوں کے  ٹولے میں اس ماہتاب کا ظہور ہوا۔۔ جس نے اردگرد کا سارا سماں ہی بدل دیا۔ کہتے ہیں حسن موضوعی شے ہے۔ یہ دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے۔۔ پر نہیں اسکا حسن معروضی تھا، جسے دیکھ کر مجھ سے انسان پر وجد کی جو کیفیت طاری ہونی تھی سو تو ہوئی۔۔ پر وہ  ایسی  باکمال حسینہ  تھی کہ پھول اور اس پہ منڈلانے والی تتلیاں بھی بھاگم بھاگ اسکا  طواف کرنے لگے۔ اس نے سر پہ خوبصورت سا گاگر لادا ہوا تھا اور ہلکا سا گلابی رنگ کا لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔۔  پُر کشش اور باوقار  چال۔۔ اسکی اتنی دور سے ایک ہی جھلک پا کر مجھے آس پاس کے پہاڑ، قریب بہتی ندی اور پرندوں کی چہچہاہٹ اور بھی حسین لگنے لگی۔۔

اس سے قبل پہلی نظر میں محبت جیسی چیزوں کو میں افسانوی  باتیں سمجھتا تھا۔ پر نہیں، اس ایک واقعہ کے بعد مجھے اس بابت ایمان   آگیا  کہ واقعی پہلی نظر میں محبت ہوسکتی ہے اور ٹوٹ کر ہوسکتی ہے۔۔ کیونکہ خود مجھے جو ہوئی تھی۔

اب تک تو صرف محبت ہی ہوئی تھی۔۔ پر اگلے چند دنوں میں محبوب سے فراق نے نڈھال کر دیا۔ مجھ سے ہجر کی یہ وحشت برداشت نہیں ہوسکتی تھی۔ میں پل پل انکی یاد میں تڑپنے لگا۔ مجھے شدت سے محبت ہوئی تھی۔ اور یہ محبوب کے لیے جاننا لازم تھا۔ اظہار و اقرار کے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا۔ پر یہ ہو تو کس طرح ہو۔ مجھے معلوم نہیں تھا۔ یہ ایک غم تھا۔ جو مجھے دن بدن اندر سے کھائے جا رہا تھا۔ میں نے اس غم کو بھلانے کے لیے رباب کی سازوں میں پناہ لی۔ اس سے بہتر اور کوئی شغل اس کام کے لیے نہیں ہوسکتا تھا۔

یہ اب بالکل وادی سوات کی سر زمین پہ جنم لینے والی پشتو کی اس عظیم داستان رومان ” آدم خان، درخانئی” کا منظر تھا۔ جب آدم خان یہاں رباب کے تار چھیڑتا اور وہاں میلوں دور درخانئی کی دل میں شہنائیاں بجتی۔ اور یوں اس وسیلہ سے بات کسی طرح سے اظہار و اقرار محبت تک پہنچ پائی۔ ہم نے اظہار محبت کیا۔ جو کامیاب ہوا۔ اسکی ہمیں جو خوشی ہوئی۔ اسکی مماثل دنیا جہاں کی کوئی اور خوشی نہیں ہوسکتی۔

جیسا کہ پہلے کہہ چکے ہم اپنی جذبات کی بے انتہا گرمی سے مغلوب تھیں۔ انہی جذبات کے زیر اثر پہلی ہی نظر میں محبت ہوئی۔ دنوں میں اقرار و اظہار ہوا۔ اور اب تمنا تھی کہ محبوب کی سر پہ حیا کا دوپٹہ اوڑھ کر عشق کی خوبصورت سی تکمیل بھی جلد از جلد کر بیٹھے۔ بس اسی فریضہ کو انجام دینے کے لیے والدہ صاحبہ کو اگلے ہی دن کال ملائی۔ علیک سلیک کی۔ اور سیدھا مدعا بیان کیا۔ جواب میں والدہ نے ” اے ستا” ( اے تیری) سے اپنے بیان کی شروعات کی۔ جو پشتو میں ہر قسم کے ادبی و غیر ادبی گالیوں کا تمہید ہوتا ہے۔ اور ایسی بے نقط سنائی کہ الامان الحفیظ۔

پر ہم نے نہ سدھرنا تھا اور نہ سدھرے۔ اور وہی کرنے کی ٹھانی۔ جو عموماً ایسی صورتحال میں ہمارے یہاں کے مایوس نوجوان کرتے ہیں۔ اگلے ہی روز دور کے ایک جانے مانے ” محبوب آپکی قدموں میں” والی سرکار سے مشاورت کرنے انکی آستانہ عالیہ پہ حاضری دی۔ کہ کسی طرح اپنے اور پھر محبوب کے والدین رشتہ کی لئے خوشی خوشی مان لیں۔ یہ ایسے عامل تھیں جو اگرچہ رقم زیادہ لیتے پر کام آپکا گارنٹی سے کرتے۔ اور یہ کہ انکی شہرت کا علاقہ کی طول و عرض میں ڈنکا بجتا تھا۔ مختصراً ہم نے بابا کے حضور زانوئے تلمذ طے کئے اور اپنا مدعا بیان کیا۔

بابا نے بس ایک ہی سوال پوچھا۔

کتنا کماتے ہو؟

ہم نے کہا ” ہیچ”۔

اس پر عامل صاحب نے جو کہا بس وہی سمجھے ہماری اس بے ترتیب روداد عشق کا ” moral” ہے۔۔

بابا نے فرمایا۔

” بیٹے عشق فرمانے میں کوئی حرج نہیں۔ پر یہ کام تبھی کرنا جب تم اسے نبھانے کی سکت رکھو۔ اور یہ سکت تم میں تبھی پیدا ہوگی۔ جب تمہاری جیب بھاری ہوگی ورنہ نامراد ہی رہوگے”۔

عامل صاحب کی بات وزن سے خالی ہرگز نہیں تھی۔ اسکے بعد ہم نے عزم کیا کہ محبت کریں گے اور ضرور کریں گے پر تب تک نہیں۔ جب تک اسے نبھانے کی سکت حاصل نہیں کرتے۔ دوسری لفظوں میں روکھڑا کمانے نہیں لگتے۔ اور تب سے بس ساری کاوشیں اسی سمت میں رواں ہیں۔

باقی مجھے لگتا ہے کہ اس قیمتی نصیحت کا اطلاق ہم سب جوانان ملت پہ ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کیا کہتے ہیں آپ؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply