برطانیہ میں مہنگائی کا بحران اور رمضان/فرزانہ افضل

برطانیہ میں مہنگائی کے بحران نے جہاں ملک بھر کے عوام کی کمر توڑ دی ہے وہاں خصوصاً برٹش مسلم کمیونٹی کے لیے رمضان کے مہینے میں مشکلات اور بھی بڑھ گئی ہیں۔ کورونا جیسی موذی وبا کے دو سالہ دورِ  عذاب سے نکلتے ہی بریگزٹ اور روس/یوکرین کی جنگ کی وجہ سے مہنگائی اور بجلی گیس کے بحران نے آ گھیرا ۔ پٹرول کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور پھر بینک آف انگلینڈ کی شرح سود میں مسلسل اضافہ اور کساد بازاری نے عام آدمی کی زندگی تنگ کر دی ہے۔ ماہِ  رمضان میں مسلم کمیونٹی کے اخراجات قدرتی طور پر بڑھ جاتے ہیں کیونکہ افطار کے اہتمام کے ساتھ ساتھ عید کی تیاریوں میں بھی بہت اخراجات اٹھتے ہیں ۔ سحور اور خصوصاً افطار کا پورے مہینے کے ہر دن باقاعدہ پُر تکلف اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اہل خانہ پورے سال میں صرف اسی مہینے میں ساتھ بیٹھ کر ایک وقت کا کھانا کھاتے ہیں۔ اور پھر پورا دن کے روزے کے بعد بچے اور بڑے سب ہی افطار کی صورت میں انعام کا انتظار کرتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے اس سال مہنگائی کی وجہ سے صورتحال مختلف ہے۔ ایسا  بجٹ لوگوں کو رمضان اور عید کے اخراجات پورا کرنے کے لئے بہت سوچ سمجھ کر بنانا پڑ رہا ہے۔

برطانیہ میں تقریباً چار ملین یعنی چالیس لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ مسلم کمیونٹی پر کیے گئے ایک سروے کے مطابق 41 فیصد افراد نے کہا کہ وہ گذشتہ برس کی نسبت افطار ریسٹورنٹ کی بجائے اپنے گھر میں کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ 42 فیصد نے کہا کہ وہ عید کے تحائف پر 30 پاؤنڈ فی کس سے بھی کم خرچ کریں گے جو گزشتہ برس کی نسبت بہت کم ہے۔ بہت سے افراد قدرے سستے گروسری اسٹورز جیسے لڈل اور آلڈی وغیرہ کا رخ کر رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ رمضان اور عید کے تحائف کی شاپنگ کے لیے سستی ڈیلز اور کم مہنگی برانڈز بھی تلاش کر رہے ہیں ۔ اور بہت دیکھ بھال کر شاپنگ کر رہے ہیں تاکہ کم سے کم بجٹ میں رمضان اور عید کے اخراجات سے نبرد آزما ہو سکیں۔

یوکے میں رہنے والے تقریباً 65 فیصد مسلمانوں نے روزمرہ کے اخراجات اور بلوں کی ادائیگی کے لیے بینکوں سے قرضے لیے ہیں۔ جبکہ نصف سے زائد برٹش مسلم افراد کو گذشتہ برس کم از کم ایک بل ادا کرنے میں مشکل پیش آئی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت سی فیملیز جو مالی مشکلات کا شکار ہیں اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھتے ہوئے اپنے حالات کسی سے  کہنا سُننا  پسند نہیں کرتے ۔ لہٰذا وہ چیریٹی اداروں کی جانب سے پیش کی جانے والی مدد سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جبکہ کچھ افراد رمضان کے مہینے میں اوور ٹائم کرتے ہیں تاکہ مالی طور پر کچھ آسانی ہو سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہاں پر مسجدوں میں باقاعدگی سے مفت افطار کا انتظام ہوتا ہے۔ جہاں روزانہ کی بنیاد پر لوگ افطار کرتے ہیں۔ برطانیہ میں سِکھ کمیونٹی کے گردواروں میں سارا سال مفت کھانا پیش کیا جاتا ہے۔ جہاں پر لوگ بِلا رنگ و نسل اور مذہب جا کر ناشتہ اور کھانا کھا سکتے ہیں۔ ہمارے یہاں کی مسجدوں کو مخیّر حضرات اچھا خاصا سپورٹ کرتے ہیں اور عام لوگ بھی چندہ دیتے ہیں ۔ مفت کھانے کی تقسیم کا سلسلہ اسی طرح سے بغیر کسی مذہبی اور نسلی تفریق کے مساجد میں بھی شروع کیا جانا چاہیے۔ مذہب کی بھلائی کے تقاضے سے زیادہ انسانیت کی بھلائی اور خدمت کے بارے میں سوچنا چاہیے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم سب کو چاہیے کہ زندگی میں سادگی کو اپنائیں۔ افطار کے وقت دس لوازمات کی بجائے کم سے کم اور صحت مند کھانا رکھیں ۔ جس سے آپ کی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ مالی صحت بھی اچھی رہے۔ اور خدا کی عطا کردہ نعمتوں میں اپنے ارد گرد کے ضرورت مند افراد کو ضرور حصّہ دار بنائیے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply