• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • معلومات کا سیلاب اور شخصی آزادی /ڈاکٹر مختیار ملغانی

معلومات کا سیلاب اور شخصی آزادی /ڈاکٹر مختیار ملغانی

انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے جس دور میں انسان قدم رکھ چکا ہے، اس سے نہ صرف سماجی و معاشی بلکہ اخلاقی اقدار بھی بہت حد تک بدل چکی ہیں اور بد قسمتی یہ کہ اس کے منفی یا مثبت اثرات کو ناپنے کا کوئی سیاسی یا نفسیاتی پیمانہ دریافت نہیں ہو سکا، معیشت انڈسٹریل ، پوسٹ انڈسٹریل اور کنزیومرازم سے ہوتی ہوئی اب کریڈٹ اور فنانس انسٹیٹیوٹس کے نرغے میں آن پہنچی ہے، بینک کل تلک آپ کو رقم ادھار میں دیتے تھے کہ آپ گھر ، گاڑی، کاروبار یا، ضروت کی دیگر اشیاء خرید سکیں، لیکن معمہ یہ ہے کہ آج کریڈٹ کے نام پر جتنی رقوم بینک اور دوسرے مالی ادارے فرد کو سودی قرض پہ دینے کو تیار ہیں، وہ انسان کی ضروری اشیاء کی خرید اور استعمال سے کہیں زیادہ ہیں، یہ بات واضح ہے کہ معیشت کی یہ شکل فرد کی آسانی یا معاشی سرکل چلانے کیلئے نہیں بلکہ غیر معمولی پروجیکٹس کو انجام دینے کیلئے ہے، مریخ کا سفر، انرجی کے مختلف ذرائع کی دریافت و ایجاد اور مصنوعی ذہانت اسی زمرے میں آتے ہیں۔ اس کا سیدھا اثر حیوانِ ناطق کا اس کے ماحول کے ساتھ تعلق پر پڑا ہے۔

داخلی آزادی انسانی فیکٹر کا اہم ترین عنصر ہے، بشریت گھومتی ہی اسی  آزادی کے گرد ہے، یہ داخلی آزادی صرف اظہارِ رائے یا ذاتی پسند ناپسند تک محدود نہیں، بلکہ انسان خود کو ناطق محسوس کرے، عقلی لطافت سے بہرہ ور ہو اور اپنے ماحول کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کی خواہش اور کوشش کرتے ہوئے زندگی و سماج میں بہتری لانا ہی آزادی کا نام ہے, یہی آزادی فرد کو دوسرے جانداروں سے ممتاز کرتی ہے، دوسرے تمام جاندار اپنے ماحول کے ساتھ عمل اور ردِ عمل کے فلسفے پر زندہ ہیں، بیرونی محرک پر مناسب ردِ عمل دینا ہی ساری کہانی ہے، جانور نہیں جانتا کہ محرک اس پر اثر انداز ہے اور اس کے اندر قدرت نے محرک کے جواب کیلئے انسٹینکٹس رکھ چھوڑے ہیں ، یعنی کہ عمل اور ردِ عمل میں کوئی ہچکچاہٹ ، کوئی اجنبیت ، کوئی غیر مانوسیت نہیں، انسان واحد جاندار ہے جو جانتا ہے کہ ماحول اس پر کس طرح اثرانداز ہورہا ہے اور اسے کب اور کیسا ردعمل دینا ہے، دینا بھی ہے یا نہیں، اس عمل اور ردِ عمل کے درمیان ایک فاصلہ، ایک اجنبیت ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ بیرونی ماحول کو جوابی کاروائی کا حق فرد محفوظ رکھتا ہے لیکن انتخاب اور سوچ بچار کے بعد ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر ایسا کوئی مرکز موجود ہے جو بیرونی معلومات، بیرونی تجربے سے پاک رہتا ہے، یہ معلومات یہ تجربہ انسان کے حواسِ خمسہ، شعور و عقل پر اثرانداز ہوتا ہے لیکن گہرائی کی ایک سطح ایسی ہے جہاں بیرونی فیکٹر نہیں پہنچ پاتا جبکہ دوسرے جانداروں کے پورے ظاہر باطن کو یہ بیرونی فیکٹر اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ انسان کی شخصیت میں موجود اس مرکز کو جرمنی کے خداشناس Meister Eckhart نے خاموش کمرے کا نام دیا ہے۔

آپ نے بھول بھلیوں (labyrinth) والا کھیل دیکھا ہوگا، جہاں ایک طرف سے اگر پانی چھوڑا جائے تو چھوٹی چھوٹی دیواروں کے درمیان بنے راستوں سے پانی پوری تصویر پہ پھیلتا چلا جاتا ہے لیکن عین وسط میں ایک چھوٹا سا کمرہ ایسا ہوتا ہے جو چاروں طرف سے ان چھوٹی دیواروں سے ڈھکا ہے ، پانی وہاں تک رسائی حاصل نہیں کر پاتا اور یہ کمرہ بیرونی فیکٹر، پانی، سے محفوظ رہتا ہے، اسی کمرے کو سرِ آدم کا نام دیا جا سکتا ہے، اس کمرے میں خاموشی کا راج ہے، بیرونی شور یہاں داخل نہیں ہو سکتا، یہی خاموشی فرد کو بیرونی فیکٹر پر فوراً  ردِ عمل دینے سے روکتی ہے، اسی مرکز کی بدولت انسان جانتا ہے کہ وہ جانتا ہے جو کہ دوسرے جانداروں میں ناپید ہے، انسان اسی لئے حساس ہے کہ بیرونی عوامل کے شدید ترین دباؤ میں رہنے کے باوجود ان پر کان دھرنے میں جلد بازی نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ جانتا ہے, وہ اپنی سوچ اور ادراک کے عمل کا مطالعہ کر سکتا ہے اور اندرونی و بیرونی دنیاؤں میں واضح فرق رکھتا ہے۔

یہی خاموش کمرہ فرد کو امید اور اچھے مستقبل کی نوید دیتا ہے، تصور کیجیے کہ کوئی حقیر ترین غلام جو کسی فرعون کیلئے دن رات  کام کرتا ہو ،جسے صبح شام پیٹا جاتا ہو، ذلیل و رسوا کیا جاتا ہو، جسے خوراک برائے نام ملتی ہو، جس کے پاس اپنی زندگی تک کا حق نہ ہو، وہی غلام جب گوشۂ تنہائی میں رات کے آخری پہر سستانے کیلئے لیٹتا ہے تو اسے بند و خاموش کمرے سے آزادی ، بحالی و امید کی ایک کرن پھوٹتی نظر آتی  ہے جو اسے اگلے دن کی مشقت  کو جھیلنے میں مدد دیتی ہے، انقلاب و احتجاج، تبدیلی، اور عمرانیات کے ردّوبدل میں بھی اسی خاموش کمرے کا عمل دخل ہے۔

انفارمیشن کے سیلاب نے اس بند کمرے کی دیواروں میں دراڑ ڈال دی ہے ، انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کی اصطلاحات کو جب اکٹھا استعمال کیا جاتا ہے تو جدت کا ایک تصور ذہن میں ابھرتا ہے، لیکن اگر صرف ایک لفظ، انفارمیشن ، کو علیحدہ رکھ کے دیکھا جائے تو یہ بات واضح محسوس ہوگی کہ علم اور چیز ہے جبکہ انفارمیشن مختلف ہے، اسی لئے ہم صرف آج کے دور کو ہی انفارمیشن کا دور کہتے ہیں، گزرے زمانوں کو علم کا دور کہا جاتا جب فرد سکول یونیورسٹی ، مدارس یا پھر سینہ بہ سینہ علوم وفنون کو اپنے روحانی و جسمانی آباء سے حاصل کرتا، ان پرانے وقتوں کو انفارمیشن کا دور ہم نہیں کہتے، یہ بات اشارہ ہے کہ علم اور انفارمیشن میں فرق ہے۔ پرانا دور مفہوم، کنسیپٹ، اصول پر قائم تھا، سمجھ اور پہچان میں بڑا واضح فرق ہے، مرسیڈیز گاڑی پر لگی تین تکون وال علامت کو دیکھ کر کوئی سمجھ بوجھ میں اضافہ نہیں ہوتا، فقط پہچان ہوتی ہے کہ یہ مذکورہ گاڑی کا علامتی نشان ہے، کچھ سمجھے بغیر ہی پہچان ہو جاتی ہے، لیکن اگر افلاطون کے ڈائیلاگز پر ایک نظر ڈالی جائے تو کسی قسم کی کوئی پہچان سامنے نہ آئے گی جب تک کہ اسے پڑھ کر، مفہوم جان کر سمجھ نہ لیا جائے، پہچان تمام حواس کو چیرتی ہوئی سیدھی اندرونی گہرائی تک جاتی ہے جبکہ سمجھ کو تمام حواس، شعور اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت اپنے اندر ہضم کرتے ہیں اس لئے خاموش کمرے کے اندر تک یہ نہیں پہنچ پاتی۔

دوسرا اہم نکتہ یہ کہ پہچان کا تعلق نشان سے ہے، سمجھ بوجھ کا تعلق علامت سے ہے، داڑھی یا پگڑی نشان نہیں علامت ہے، اس کے پیچھے تاریخی، فکری، روحانی مفہوم چھپے ہیں، صلیب بھی علامت ہے ،نشان نہیں کہ یہ اپنے اندر قربانی، کرب و غم کی تاریخ و نفسیات رکھتی ہے، برینڈز کے نشان ہوتے ہیں، مرسیڈیز، آئی فون، رولیکس گھڑی وغیرہ کے اپنے نشانات ہیں جو پہچان دیتے ہیں، یہ پہچان کیا ہے؟ یہ لگژری لائف سٹائل کی پہچان ہے، بات یہیں تک محدود نہیں ، گولڈ لیف خریدتے وقت آپ صرف اچھا تمباکو یا ذائقہ نہیں خرید رہے ہوتے، نہ ہی صرف لگژری لائف سٹائل کا نشان خرید رہے ہوتے ہیں بلکہ گولڈ لیف کے اشتہار میں دکھائے گئے ایکٹر کی جوانمردی اور اس جوانمردی پر فریفتہ حسینہ کی توجہ بھی خرید رہے ہوتے ہیں، صرف پیکٹ نہیں بلکہ تیار کردہ ایک پورا پیکج خریدا جا رہا ہوتا ہے۔ یہ انفارمیشن ہے جسے بغیر تردد سیدھا خاموش کمرے تک پہنچایا جاتا ہے، وہی خاموش کمرہ جو آزادی، امید، تشخص کا مرکز ہے، جو ماضی کے ایک بدترین غلام کے پاس بھی ہوتا تھا، لیکن آج آپ سے پوچھے بغیر پہلے سے سمجھایا گیا مفہوم آپ کے اندر اتارا جاتا ہے، نتیجے میں ہم اس غلام سے بھی کم آزادی رکھتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جانور ہمارے مقابلے میں بہتر پوزیشن میں اس لئے ہیں کہ بیرونی محرک اور جانور کا ردِ عمل خالصتاً فطری ماحول یعنی آرگینک میں پنپ رہے ہیں، جبکہ ہمیں inorganic ماحول میں دھکیل دیا گیا ہے کہ محرک کی بنیاد فطرت نہیں بلکہ ٹیکنالوجی ہے، اب چونکہ انفارمیشن کے اسی سیلاب کے ساتھ ہی فرد کا رزق جوڑ دیا گیا ہے تو اس شک کو تقویت ملتی ہے کہ معیشت کی یہ شکل کنزیومرازم تک محدود نہیں بلکہ شاید اس سے اوپر کئی بڑے پروجیکٹس ہیں جن کیلئے فرد کی آرگینک فطرت کو inorganic میں بدلا جائے، اس کا حل یا تو  ڑ صرف تب ہی ممکن ہے کہ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ اور سیاست اپنی ترجیحات کا رخ بدلے، انفرادی سطح پر یہ چیز ممکن نظر نہیں آتی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply