پاکستانی سیاست؛عقل بڑی کہ بھینس؟-نذر حافی

چیف جسٹس نے الیکشن کرانے کا فیصلہ سنا دیا۔ پاکستانی سیاست میں مزید ہلچل آگئی۔ اس سیاسی ہلچل کو اب ہر طرف سے دین کا ٹچ لگانے کی ضرورت ہے۔ مولوی بھائیوں کے پاس ایک لفظ ہے “عقیدہ”۔ دنیا میں آج تک جتنی ہلچل عقیدے کے نام پر ہوئی ہے، اتنی کسی اور نام پر نہیں ہوئی۔ حتیٰ  کہ حلوے اور بریانی کا بھی عقیدے سے گہرا تعلق ہے۔ عقیدے کی دوڑ میں تو مفتیانِ دین نے قائداعظم کو بھی کافرِ اعظم کہہ کر پیچھے دھکیل دیا تھا۔ پہلے پہل ہم نے یہ سمجھا تھا کہ عقیدہ انسان کو درست اور غلط نیز حق اور باطل کا فرق سمجھاتا ہوگا۔ جلد ہی ہمارے میٹھے میٹھے بھائیوں اور کھٹے میٹھے علما  نے ہمیں یہ سمجھا دیا کہ عملاً ایسا کچھ بھی نہیں۔ عقیدہ تو موم کی ناک کی طرح ہے، جدھر چاہو موڑ لو۔ نسخہ بہت آسان ہے۔ تجوریوں کے منہ کھولو، دسترخوان بچھاؤ اور عقیدے کی ڈگدگی بجاؤ۔ ۔ قائداعظم کے مقابلے میں عقیدے کی ڈگڈگی بجنے کا یہ نتیجہ ہے کہ آج بھی تیس کروڑ کے لگ بھگ مسلمان ہندوستان میں ہی غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یعنی پاکستان بننے کے باوجود برِّصغیر کے اکثر مسلمان جوں کے توں غلام ہی ہیں۔ جب دروازے کو اندر سے دیمک لگی ہو تو اُسے باہر سے دھکا دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی دین کا ٹچ لگانے اور عقیدے کی۔ کسی کو زِچ کرنا ہو تو عقیدے کی بات چھیڑ دیجیے، کسی کو مروانا ہو تو عقیدے کو بیچ میں لے آئیے، کسی کو دیوار سے لگانا ہو تو عقیدے سے استفادہ کیجیے، کسی پر ایف آئی آر درج کرانی ہو تو عقیدے کا پتہ کھیلیے، کہیں بلوہ کرانا ہو تو عقیدے کا سہارا لیجیے۔ حد ہوگئی کسی کو اپنی طرف جذب کرنا ہو تو یہ کہہ دیجیے کہ جو ہماری بریانی کی پلیٹ کھائے گا، اُسے ثواب ملے گا اور اگر کسی کو کسی سے دور کرنا ہو تو یہ کہہ دیجیے کہ اگر فلاں کی بریانی کی پلیٹ کھائی تو مُشرک اور گنہگار ہو جاؤ گئے۔ یہ بھی ایک عُقدہ ہی ہے کہ کسی کا بھی عقیدہ کمزور یا مضبوط نہیں ہوتا، دراصل سارا کھیل طاقت اور پیسے کا ہے۔

آپ کے گھر میں اناج ہے، جیب میں پیسہ ہے، حکومتی اثرورسوخ ہے، پروپیگنڈہ مشینری ہے، افرادی قوّت ہے اور سرکاری مشینری آپ کی پُشت پر ہے تو آپ کا عقیدہ پختہ اور ٹھوس ہے۔ آپ جو بھی کریں، آپ کے ایمان اور عقیدے کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا۔ اگر آپ کا ہاتھ کُھلا ہے، مال و دولت کی فراوانی ہے، عیش و نوش کا عالم ہے اور آپ کو امارت و طاقت حاصل ہے تو پھر آپ کیلئے حق و باطل میں کوئی فرق نہیں۔ اگر آپ صاحبِ زر ہیں، صاحبِ ثروت ہیں، صاحبِ اقتدار ہیں تو پھر آپ باطل پر ہو ہی نہیں سکتے۔ یہ میں نہیں کہتا، یہ تاریخِ اسلام کہتی ہے، یہ ہمارے مفتیانِ دین کہتے ہیں، یہ اجماعِ اُمّت ہے۔ میں نے اجماعِ اُمّت والے بزرگوں سے سُنا تھا کہ جو صحابہ کو بُرا بھلا کہے، وہ کافر ہے اور پھر میں نے انہی سے یہ سیکھا ہے کہ بے شک آپ جنگِ جمل میں دس ہزار سے تیس ہزار تک صحابہ کرام کو شہید کر دیں، آپ جنگِ صفّین میں ستر ہزار سے ایک لاکھ تک صحابہ کرامؓ کو تہہ تیغ کر دیں، آپ جنگِ نہروان میں چار ہزار افراد کو گمراہ کرکے مروا دیں تو پھر بھی آپ نے کوئی غلطی نہیں کی اور صحابہ کرام ؓکا مقدس خون آپ پر حلال ہے۔

یہ میرے ہاں کے جہلا کا راستہ نہیں بلکہ میرے علما  کا منہج ہے۔ اگر آپ صاحبِ زر اور طاقتور ہیں تو آپ ہی حق ہیں۔ آپ سے خطا سرزد ہو ہی نہیں سکتی، آپ کی غلطیاں بھی نیک اعمال کا درجہ رکھتی ہیں، آپ کی خطا کو علمائے کرام کی طرف سے خطائے اجتہادی کی سند حاصل ہے۔ یہ تصویر کا ایک رُخ ہے، اس رُخ کے بارے میں مرزا غالب کیا خوب فرما گئے ہیں:
یہ اجتہاد عجب ہے کہ ایک دشمنِ دیں
علیؑ سے آکے لڑے اور خطا کہیں اُس کو

مرزا غالب تو فوت ہوگئے، تاہم اُن کی منطق، فلسفہ اور شعور نہ مرسکا۔ منطق، فلسفہ اور شعور ہی تو کُفر ہے، لہذا اُن کے اسلام کی تفتیش ہونی چاہیے۔ ویسے بھی ہمارے ہاں تو مُردوں کے عقائد کی تفتیش ہوتی ہی رہتی ہے۔ راولپنڈی جیل کے ایک فوٹو گرافر نے مسٹر بھٹو کی لاش کا پاجامہ اتار کر اُن کی شرمگاہ کی تصاویر بنائی تھیں۔

تصاویر بنانے کی وجہ اس جیل کے سکیورٹی انچارج کرنل رفیع الدین نے اپنی کتاب ”بھٹو کے آخری ۳۲۳دن “ میں لکھی ہے۔ اُن کے مطابق یہ فوٹو اس لئے بنوائے گئے، تاکہ معلوم ہوسکے کہ ان کا ختنہ ہوا تھا یا نہیں۔؟ جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے جیل حکام کو بتایا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی ماں ہندو تھی، جسے ان کے والد نے زبردستی اپنی بیوی بنایا تھا اور بھٹو صاحب کا اصلی نام نتھا رام تھا۔ تاہم کرنل رفیع الدین نے گواہی دی ہے کہ جب فوٹو گرافر نے بھٹو صاحب کے جسم کے درمیانی حصے کے بہت نزدیک سے فوٹو لئے تو پتہ چلا کہ ان کا اسلامی طریقے سے ختنہ ہوا تھا۔

اب تصویر کا دوسرارُخ بھی ملاحظہ کیجیے۔ بے شک آپ بڑے مومن، متقی اور صالح ہوں، دنوں کو روزے رکھیں، شام کو نمک سے افطاری کریں، بیت المال میں اسراف کو گناہ سمجھیں اور سیاست میں مکاری سے پرہیز کریں۔۔۔ اس طرح کے لوگ ہمارے کام کے نہیں۔ ہمارے سماج میں ایسے لوگوں کا حق پر ہونا یا نہ ہونا برابر ہے۔ ہمارے ہاں رائج سوچ کے مطابق اچھے لوگوں کے مخالفین اور قاتلین کو بُرا یا باطل نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی اُنہیں غلط کہا جا سکتا ہے۔ آپ بے شک بڑے ولی اللہ، امام المتقین اور امام برحق ہوں، لیکن اگر آپ اپنے ہمنواوں پر مال و زر نچھاور نہیں کرتے، اپنی شان و شوکت کا اظہار نہیں کرتے اور بیت المال پر تالہ لگائے بیٹھے ہیں تو پھر ہمارا منہج تو واضح ہے، جہاں کھانا ہوگا، وہیں ہمارا ٹھکانہ ہوگا اور جہاں حلوہ ہوگا، وہیں ہمارا جلوہ ہوگا۔ چودہ سو سال سے جدھر بریانی کی پلیٹ کھڑکتی ہے، اُدھر ہم ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب پاکستان میں الیکشن ہوں یا نہ ہوں، ہم آپ کو ایک راز کی بات بتائے دیتے ہیں۔ ہمیں نہ ہی تو سیاست کے گُر آتے ہیں اور نہ ہی درست و غلط کی پرکھ ہے۔ ہم تو ہر میدان میں صرف علمائے کرام کی تعداد گنتے ہیں۔ جدھر مولویوں کی کثرت ہو، اُدھر سے ہم تِتر بِتر ہو جاتے ہیں۔ یہ ہمارا چودہ سو سالہ تاریخی تجربہ ہے۔ مولوی حضرات اپنے اپنے مفاد کے مطابق، عقیدے کو تو موم کی ناک کی طرح جدھر چاہیں موڑ سکتے ہیں، لیکن عقل و شعور کو نہیں۔ جو عقیدہ، عقل و شعور کی ضِد ہو، وہ کسی عقلمند کا عقیدہ ہو ہی نہیں سکتا۔ عقل و شعور کی طرف داری پر آپ قتل بھی کر دیئے جائیں تو جب بھی یہ سوال ہوگا کہ عقل بڑی یا بھینس؟ جواب یہی آئے گا کہ عقل۔ (عقل و شعور کے حامل علماء سے پیشگی معذرت)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply