تیرہویں پارے کاخلاصہ

اس پارے میں سورہ یوسف کی بقیہ آیات ہیں، اور سورہ رعد و سورہ ابراہیم مکمل ہیں۔
یوسف علیہ السلام کا بقیہ قصہ ذکر ہوا۔ جس میں وہ جیل سے باہر آتے ہیں، ان کے کردار کی سچائی کھل کر سب کے سامنے آجاتی ہے۔ پھر وہ وزیر بنائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد بھائیوں سے ملاقات ہوتی ہے، وہ ان سے معافی مانگتے ہیں اور آخر میں ان کے سب گھر والے ان کے پاس مصر تشریف لے آتے ہیں۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان نفس کی شرارت سے اسی وقت بچ سکتا ہے جب اللہ کی رحمت اس کے ساتھ ہو۔ علماء نے نفس کی تین اقسام بیان کی ہیں۔ 1۔ نفس امارہ: جو برائی کا حکم دیتا ہے، 2۔ نفس لوامہ: یہ وہ نفس ہے جو برائی کرنے کے بعد ملامت کرتا ہے۔ 3۔ نفس مطمئنہ: یہ وہ نفس ہے جو اپنے رب سے راضی ہو اور وہ اس سے راضی ہو۔ یہ نیکی کے کاموں پر مطمئن رہتا ہے۔ چناچہ نیکی اور خیر کے کام انسان کے نفس کو مطمئنہ بناتے ہیں۔
اس کے علاوہ یوسف علیہ السلام کے قصے میں سیکھنے کی جو باتیں ہیں، ان میں یہ ہے کہ اپنی تعریف کرنا ناپسندیدہ عمل ہے۔ لیکن بوقت ضرورت اپنے خوبی بیان کرکے ذمہ داری اٹھانا پسندیدہ کام ہے۔ نیکی اور صبر کا اجر کبھی زائل نہیں ہوتا۔ اسباب اختیار کرنے کے باوجود بھروسہ اللہ پر ہی ہونا چاہیے۔ صبر جمیل وہ صبر ہوتا ہے جس میں شکوے شکایتیں نہ ہو اور بار بار مصیبت کا ذکر نہ کیا جائے۔ تاہم مصیبت پر آنسو بہانا صبر اور تقوی کے منافی نہیں۔ اللہ کی رحمت سے مایوسی کفر ہے۔ تقوی اور صبر کامیابی کی کنجی ہے یوسف علیہ السلام کے قصے میں صبر، عفودرگزر، احسان اور تقوی نمایاں ہیں۔ خطاکار سے درگزر کرنا انبیاء کی صفت ہے۔ تکمیل نعمت کے لیے اچھے خاتمے کی دعا کرنی چاہئے۔ واقعے کے اختتام پر واضح کیا گیا کہ یہ غیب کی خبریں اس لیے دی گئی تاکہ سمجھدار لوگ ان سے عبرت حاصل کریں، لیکن بہت سے لوگ اس سے نصیحت حاصل نہیں کرتے۔ نبوت مردوں میں رکھی گئی اور نبی ہمیشہ اپنی قوم میں سے ہی آتا ہے۔ پچھلی قوموں کے انجام سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔
سورۃ کے اختتام پر قرآن کریم کی تعریف کی گئی کہ یہ قرآن پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے۔ ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔
*سورۃ الرعد*
یہ مدنی سورت ہے۔ پچھلی سورت کا اختتام بھی قرآن کے ذکر سے ہوا تھا اور اس کا آغاز بھی قرآن کی حقانیت کے ذکر سے ہوا۔ اس سورت میں جا بجا تخلیق کائنات کی نشانیاں تفصیلا بیان کی گئی ہیں۔ ان کے ذریعہ سے توحید، قیامت اور دوبارہ زندہ ہونے پر ایمان کی طرف دعوت دی گئی ہے۔ کافر مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا انکار کرتے ہیں چناچہ کفر کے باطل خیالات ذکر کرکے ان کا بطلان ظاہر کیا گیا۔ امید اور خوف میں اعتدال رکھنا چاہیے اور امید کو مقدم رکھنا چاہیے۔ اللہ سے حسن ظن رکھنا چاہیے۔
ایک اہم بات یہ بتائی گئی کہ ہر شخص کے آگے پیچھے اللہ کی طرف سے نگہبان ہوتے ہیں جو اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ قدرت کا یہ اصول بھی بتایا گیا کہ اللہ اس وقت تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ لوگ خود اپنی حالت میں تبدیلی لانے کی صلاحیت اور اس کے لئے کوشش نہیں کرتے۔
ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ یہاں تک کہ بجلی کی کڑک اور چمک بھی اللہ کی تسبیح کرتی ہے۔ اس کا گرنا بھی اللہ کے حکم سے ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ کو پکارنا ہی حق ہے۔ آسمان اور زمین کی ہر چیز طوعا وکرھا اللہ کو سجدہ کرتی ہے۔ آسمان سے برستی بارش بھی اللہ کی نشانی ہے۔ اللہ تعالی مختلف مثالوں سے اپنے بندوں کو یہ بات سمجھاتا ہے کہ وحی الہی کا نزول بارش کے نازل ہونے کی طرح ہے۔ جس طرح پانی جسم کے لئے زندگی ہے اسی طرح وحی اور علم روح کے لئے زندگی ہے۔ جو لوگ اللہ کے احکام مان لیتے ہیں ان کے لیے بھلائی ہے اور جو روگردانی کرتے ہیں ان کے لیے برا حساب ہے۔ حق کو نہ ماننے والے اندھے کی طرح ہوتے ہیں۔
عہد کو پورا کرنا، صلہ رحمی، رب کی خشیت، حساب کا خوف، رب کی رضا کے لئے صبر، نماز کا قیام، پوشیدہ اور علانیہ خرچ، برائی کا جواب بھلائی سے دینا مومن کی خصوصیات ہیں۔ بدسلوکی کے جواب میں حسن سلوک کی بہت اہمیت اور اجر ہے۔ ایسا کرنے والوں کے ساتھ جنت میں انکے ایمان والے آباؤ اجداد اور اولاد بھی داخل ہوں گے۔ فرشتے جنت کے ہر دروازے سے ان کے استقبال کو آئیں گے اور سلام کریں گے۔ یہاں پھر ظاہر ہوا کہ صبر کا بدلہ بہترین ہے۔
دوسرا گروہ جو عہد کو توڑتا ہے، قطع رحمی اور فساد کرتا ہے وہ لعنت کا مستحق ہے اور آخرت میں برا ٹھکانا ان کا منتظر ہے۔
یہ بھی بتا دیا کہ رزق کی تقسیم اور اس کی تنگی اور فراخی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہدایت رجوع کرنے والوں کے لئے ہے، اور دل کا اطمینان اللہ کے ذکر میں ہے۔ اس لیے ذکر اللہ پر ثابت قدم رہنا چاہیے۔ اگر ذکر سے دل مطمئن نہ ہو تو ایمان کا جائزہ لینا چاہیے۔
نبی کریم کو بتایا گیا کہ اگر قرآن کے ذریعہ سے کرشمے بھی دکھا دیے جائیں، تو بھی یہ کافر ایمان نہیں لائیں گے۔ ان کے انکار کے سبب عذاب کی وعید سنائی گئی۔
اس سورت کے آخر میں پھر قرآن کریم کی تعریف کی گئی کہ یہ محکم کتاب ہے۔ بتایا گیا کہ معجزہ نبی کے بجائے اللہ کے حکم سے ظاہر ہوتا ہے۔ تقدیر اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ نبی کے ذمہ پیغام پہنچانا اور اللہ کے ذمہ حساب لینا ہے۔ آخری فیصلہ اللہ کا ہی ہوگا۔ موت کے ساتھ ہی سب حقیقت واضح ہو جائے گی۔
*سورۃ ابراهیم*
یہ سورت بھی مکی ہے۔ نیز اس کا آغاز بھی قرآن کی تعریف سے کیا گیا کہ اس قرآن کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو کفر کی تاریکیوں سے نکال کر ہدایت کی روشنی میں لے آئے۔ گمراہ لوگوں کی خصوصیت یہ بتائی کہ وہ آخرت کے مقابلے میں دنیا اور اس کی نعمتوں کو ترجیح دیتے ہیں، اور اللہ کی طرف جانے سے روکتے ہیں۔ پھر رسالت، نبوت اور نبی کی بعض خصوصیات بتائی گئیں۔ نبی ہمیشہ اپنی قوم ہی کی زبان میں بات کرتا ہے اور انہی کی زبان میں کتاب لاتا ہے۔
موسی علیہ السلام کا واقعہ ذکر کیا گیا اور بتایا کہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اپنی قوم کو واقعات عذاب الہی سے عبرت دلاو۔ ان واقعات میں سیکھنے والوں کے لیے لئے بہت سے نشان عبرت ہیں۔ صبر اور شکر کرنے والا انسان ہی عبرت حاصل کرتا ہے۔
پھر نبی کریم کو تسلی دی گئی کہ جس طرح کے اعتراض یہ کفار مکہ آپ پر کرتے ہیں اسی طرح کے اعتراضات سب انبیاء کی اقوام نے کیے۔ اللہ کے غضب اور نافرمانی سے ڈرنا ایمان کی علامت ہے۔ آخر کار رسول ہی فتح یاب ہوتا ہے اور جابر دشمن نامراد ہوتے ہیں۔
جہنم کی ہولناکی بیان کی گئی کہ وہاں پینے کو پیپ کا پانی دیا جائے گا۔ موت ہر طرف سے آئے گی لیکن جہنمی مرے گا نہیں۔ اس دن نجات کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ قیامت کے روز یہ سب آپس میں جھگڑیں گے۔
اس کے بعد شیطان کی تقریر کا ذکر ہے کہ جب سب جنت والے جنت میں اور جہنم والے جہنم میں چلے جائیں گے، تو شیطان یہ کہے گا کہ اللہ کا وعدہ سچا تھا اور میرا وعدہ جھوٹا تھا۔ میں نے صرف بلایا اور بہکایا تھا بات تم لوگوں نے خود مانی تھی۔ آج ہم ایک دوسرے کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ میں اللہ کے شرک کا انکار کرتا ہوں۔ شیطان اپنے سب جرائم کا اقرار اس لئے کرے گا تاکہ اہل جہنم اور زیادہ حسرت اور غم کا شکار ہوں۔
ایمان والوں کو جنت کی بشارت ہے وہاں دعائے ملاقات سلام ہوگی۔
پھر کچھ بات پاکیزہ کلام اور ناپاک شرکیہ کلمات کی گئی۔ پاکیزہ کلام یعنی توحید کو پاکیزہ مضبوط درخت سے تشبیہ دی گئی، جیسے اس کا فیض عام ہوتا ہے اسی طرح مومن کا فیض بھی عام ہوتا ہے۔ مومن کو درخت سے اس لیے تشبیہ دی گئی کیونکہ اس میں تین چیزیں درخت کے مثل ہوتی ہیں۔ دل میں ایمان کی گہری مضبوط جڑیں، زبان سے اس کا اظہار جو درخت کے تنے کے مماثل ہے، اور اعضا سے عمل جو اس کی شاخوں اور پھلوں کے مثل ہے۔ یہاں درخت سے مراد کھجور کا درخت ہے۔ کھجور کا درخت سارا سال ہرا بھرا رہتا ہے اسی طرح مومن کو بھی ہر وقت فیض پھیلانا چاہیے۔ کفریہ کلمات کو جڑی بوٹیوں سے مثال دی گئی۔ جس طرح اس کی بنیاد کمزور ہوتی ہے، اسی طرح کفر کی بنیاد بھی کمزور ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ مومنوں کو اللہ اس کلمہ طیبہ کی بدولت دنیا اور آخرت دونوں میں ثابت قدم رکھتا ہے۔ ظالم کو اللہ بھٹکا دیتا ہے اور حق سے محروم رکھتا ہے۔
ایمان والوں کو نماز ، پوشیدہ اور اعلانیہ انفاق کا حکم دیا گیا ۔ بتا دیا گیا کہ قیامت کے دن کوئی خرید و فروخت ہوگی اور نہ کوئی دوستی کام آئے گی۔ پھر بتایا کہ سمندروں میں کشتیوں کے چلنے، دریا، سورج، چاند، رات اور دن کے آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں پائی جاتی ہیں۔ بتایا گیا کہ اللہ کی نعمتیں بے حساب ہیں ہے کوئی ان کا حساب نہیں رکھ سکتا۔
ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں کا ذکر کیا گیا۔ انبیاء کا اخلاق یہ ہے کہ وہ نافرمانوں کے لئے بھی دعا کرتے ہیں۔ابراہیم علیہ السلام نے صالح اولاد پر اللہ کا شکر ادا کیا، نماز کی توفیق مانگی اور مغفرت طلب کی۔
مومنوں کو تسلی دی گئی کہ اللہ کافروں سے غافل نہیں ہے۔ ان کو مصلحت کی وجہ سے مہلت دی جا رہی ہے۔ جہنم کی ہولناکی بہت سخت ہو گی۔ اس دن عذاب کو دیکھ کر یہ نافرمان مہلت مانگیں گے۔ لیکن اللہ بہت زبردست انتقام لینے والا ہے۔
پھر تفصیل سے قیامت کی ہولناکی بیان کی گئی۔ فرمایا گیا *”جس دن یہ زمین آسمان تبدیل کر دیئے جائیں گے، اور لوگ اکیلے زبردست اللہ کے حضور حاضر ہوں گے، اس دن مجرم زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوں گے، تارکول کے لباس پہنے ہوئے ہوں گے، اور آگ ان کے چہروں کو ڈھانپ رہی ہوگی، تاکہ یہ اپنے اعمال کا بدلہ لیں”*
اس سورت کا اختتام بھی قرآن کے ذکر سے کیا گیا۔ قرآن کے نازل کرنے کا مقصد تبلیغ ہے۔ یہ اللہ کی توحید کا اعلان کرنے اور خبردار کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے تاکہ دانشمند لوگ اس سے عبرت حاصل کریں اور نصیحت لیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply