ٹک ٹاک پر برطانیہ میں بھاری جرمانہ

(فرزانہ افضل) ٹک ٹاک پر برطانیہ میں بچوں کے قوانین کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
برطانیہ کے انفارمیشن کمشنر آفس( آئی  سی او) نے ٹک ٹاک کو بچوں کے ڈیٹا کا غلط استعمال کرنے پر 12.7 ملین پاؤنڈ کا جرمانہ عائد کیا ہے۔
آئی  سی او نے منگل 4 اپریل کی صبح جرمانے کا اعلان کیا ، کیونکہ ٹک ٹاک بچوں کے ڈیٹا کے غلط استعمال کی متعدد خلاف ورزیوں کا مرتکب  ہوا ہے۔ ٹک ٹاک ایپ چین کے ملک میں بنائی گئی ہے اور وہ اس کے مالک ہیں۔ یوکے کے انفارمیشن کمشنر جان ایڈورڈ نے میڈیا کو بتایا کہ برطانیہ میں بچوں کی نا  صرف جسمانی بلکہ ڈیجیٹل حفاظت کے لیے قوانین موجود ہیں جن کی ٹک ٹاک نے خلاف ورزی کی ہے ۔برطانیہ میں ٹک ٹاک ایپ استعمال کرنے کی کم سے کم عمر 13 سال ہے ۔

ای سی او کے دعوے کے مطابق اس وقت برطانیہ میں اندازاً 1.4 ملین یعنی 14 لاکھ بچے جو 13 سال سے کم عمر کے ہیں ٹک ٹاک پر رجسٹرڈ ہیں۔ ان بچوں کو نا مناسب طریقے سے اس پلیٹ فارم تک رسائی دی گئی اور ان کے والدین سے رضامندی حاصل نہیں کی گئی اور نہ ہی ان کی عمر کا کوئی چیک کیا گیا ہے ۔ جس میں ٹک ٹاک نے اپنا ذاتی ڈیٹا اکٹھا کیا اور اس کو استعمال کیا۔ یہ بات بچوں کے ذاتی تحفظ کو شدید خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ بچوں کے ڈیٹا اور انکی پروفائل استعمال کر کے انہیں ٹریک کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہوگا۔ ہو سکتا ہے ایپ استعمال کرنے کے دوران انکے اگلے سکرول پر کوئی نامناسب اور نقصان دہ مواد ان تک پہنچایا جائے۔ اور یہ تمام ڈیٹا چائنا کمیونسٹ پارٹی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔

آئی  سی او کمشنر نے مزید کہا کہ ٹک ٹاک کو ان تمام معاملات کو بہتر جاننا چاہیے تھا، انہوں نے یہ جاننے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے ،کہ  کون ان کی ایپ استعمال کر رہا ہے ۔ ہمارا یہ فیصلہ ان کی ناکامیوں کے سنگین اثرات کی عکاسی کرتا ہے ،ٹک ٹاک کے مالکان نے اس فیصلے سے اختلاف کیا ہے اور یہ کہ وہ اس حوالے سے  اقدامات کریں گے۔

آسٹریلیا نے اپنے پورے ملک میں گورنمنٹ کے تمام آلات سے ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ آسٹریلیا ،امریکہ، کینیڈا، ناروے، نیوزی لینڈ، یورپی یونین نے ٹک ٹاک کو جزوی طور پر بین کیا ہے۔ جب کہ افغانستان اور بھارت دونوں نے ٹک ٹاک پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے ۔ یوکے خارجہ امور کے آفس نے کہا ہے کہ ٹک ٹاک کو برطانیہ میں بین کرنا اس مسئلہ کا حل نہیں ہے، بلکہ بچوں کی ڈیجیٹل دنیا میں حفاظت پر سنجیدگی سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

آجکل بچہ بچہ سمارٹ فون لے کر گھوم رہا ہے اور اکثر تو والدین بھی فخر محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بچوں کو مہنگے سے مہنگے فون کی سہولت دے رکھی ہے۔   اور یہ فخر بھی کہ ہمارے سال ڈیڑھ کے بچے بھی فوراً لاگ اِن کر لیتے ہیں اور مطلوبہ ایپ پر گیمز آن کر لیتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے فون پر گیمز کھیلتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ شاید یہ والدین کا اپنے بچوں کو مصروف رکھنے کا ایک طریقہ ہے کہ بچے ان کو تنگ نہ کریں۔ اور بچوں کو کتابیں، کھلونے اور تعلیمی گیمز خرید کر دینے کا خرچہ بھی کافی حد تک کم ہو گیا ہے۔ کتاب پڑھنے کا رجحان تو بالکل ناپید ہو کر رہ گیا ہے۔

پندرہ یا بیس سال پہلے تک جب سمارٹ فونز اتنے عام نہیں ہوئے تھے تو کھلونوں اور کتابوں کی دکانوں پر خاصا رش ہوتا تھا مگر اب جب ہم شاپنگ مالز میں جاتے ہیں تو میں غور کرتی ہوں کہ کتابیں اور کھلونوں کی دکانیں خالی پڑی ہیں۔ اگر اس بات کا جواب ہم یہ دیں کہ آن لائن شاپنگ کا رجحان بہت عام ہو گیا ہے تو اس کے باوجود بھی   گھروں میں بچے کھلونوں کی بنسبت اسمارٹ فونز سے کھیلتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

والدین کو چاہیے کہ نا  صرف اپنے بچوں کے سمارٹ فونز اور لیپ ٹاپ کے استعمال پر مکمل پیرنٹل کنٹرول رکھیں۔ بلکہ بچوں کو کتابیں اور تعلیمی کھلونے خرید کر دیں، ان کے ساتھ وقت گزاریں ان کے ساتھ مل کر یہ ساری سرگرمیاں کریں۔ تاکہ بچوں کی ذہنی نشونما صحت مندانہ طریقے سے ہو،اور وہ سوشل میڈیا کے نقصان دہ اثرات سے محفوظ رہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply