تعلیمات مسیح ابن مریم علیہماالسلام ۔۔ڈاکٹر ساجد خاکوانی

’’مسلمان ہوں ، یہودی ہوں ، مسیحی ہوں یاصابی ہوں جوکوئی بھی اﷲ تعالی پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اورنیک عمل کرے ان کے اجر ان کے رب کے پاس محفوظ ہیں اور ان پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ ہی کوئی اداسی وغم‘‘۔
قرآن مجیدکی سورہ بقرہ کی اس باسٹھ نمبر آیت میں اﷲ تعالی نے یہ واضع کیا ہے کہ اﷲ تعالی کی رحمت پر کسی مذہب والوں کی ٹھیکیداری نہیں ، کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والااگر اپنا عقیدہ و عمل درست کر لے تو اس کے لیے اﷲ تعالی کی رحمت کے دروازے کھلے ہیں ۔ اورظاہرہے کہ عقیدہ و عمل کی درستی صرف انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات سے ہی ممکن ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام بنی اسرائیل میں اﷲ تعالی کے آخری نبی تھے۔ ان کی نانی اماں حضرت حنہ بنت فاقود جوحضرت عمران کی زوجہ محترمہ تھیں قرآن مجید نے سورۃ آل عمران میں ان کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ ان کے ہاں اولاد نہیں تھی، اس بزرگ خاتون نے منت مانی کہ  اگر ان کے ہاں بچہ ہوا تو وہ اسے ساری عمر کے لیے بیت المقدس میں اعتکاف بٹھا دیں گی۔ بنی اسرائیل کی شریعت میں یہ عمل جائز تھا جبکہ شریعت محمدی ﷺ میں اس کی اجازت نہیں اور یہ عمل منسوخ ہوگیاہے۔
عموماََاس طرح کی منت کے بعد بیٹا پیدا ہوا کرتا تھا لیکن حضرت عمران کے ہاں بیٹی پیداہوگئی۔ انہوں نے اس کا نام مریم رکھا اور بڑی ہونے پر بیت المقدس کے ایک کونے میں اعتکاف کے لیے بٹھادیا۔ بیت المقدس میں مرد لوگ ہی اعتکاف کیا کرتے تھے اور جب ایک خاتون بھی وہاں اسی مقصد کے لیے داخل ہوگئیں تو متولیوں کے درمیان کرہ اندازی ہوئی کہ کون اس نوواردخاتون کی سرپرستی کرے گا۔ کرہ فال حضرت زکریاعلیہ السلام کے نام نکلا جواﷲ تعالی کے برگزیدہ نبی ہونے کے علاوہ حضرت مریم علیہا السلام کے رشتہ میں خالو بھی لگتے تھے۔ یہ صبح شام بی بی پاک مریم علیہا السلام کے پاس آتے اور ان کی جملہ ضروریات پوری کرتے اور دیکھتے کہ ان کے پاس بے موسمے پھل دھرے ہیں ۔ استفسارپروہ بتاتیں کہ اﷲ تعالی انہیں کھلاتا پلاتا ہے۔ حضرت زکریاعلیہ السلام کے ہاں اولاد نہیں تھی، انہوں نے دعا کی کہ اگر اس بیٹی کو بے موسمے پھل مل سکتے ہیں تو مجھے بھی تو اس پیرانہ سالی میں بے موسمی اولاد مل سکتی ہے۔ چنانچہ اﷲ تعالی نے انہیں  بیٹا عطا کیا۔
حضرت مریم علیہا السلام کوحضرت جبریل   علیہ السلام نے خوشخبری دی کہ ان کے ہاں ایک بیٹا ہوگا، بی بی پاک مریم علیہا السلام نے پوچھا ایسا کیونکر ہو سکتا ہے جبکہ مجھے تو کسی مرد نے چھوا بھی نہیں ، حضرت جبریل علیہ السلام نے جواب دیا کہ اﷲ تعالی جیسا چاہتا ہے ویسا ہی کرتا ہے۔ بچے کی پیدائش کے لیے بی بی پاک مریم ساتھ کے گاؤں سدھارگئیں ۔ اس گاؤں کانام ’’ناصرہ‘‘تھاجہاں حضرت عیسی علیہ اسلام پیدا ہوئے۔ بائبل مقدس نے اسی گاؤں کی نسبت سے حضرت عیسی کو یسوع ناصری کہا ہے اور قرآن مجید نے بھی اسی گاؤں کی نسبت سے مسیحیوں کونصاری کہاہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش کے وقت بھی حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور بی بی کے سر کی طرف زمین پراپناپر مارا جس سے صحت بخش پانی کا ایک چشمہ پھوٹ نکلاجسے بی بی پاک نے نوش جان فرمایا اور ساتھ ہی حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا کہ اس درخت کو ہلائیے، کھجور کے درخت سے کھجوریں ٹپکیں تو زچگی کے  وقت بی بی پاک نے وہ کھجوریں بھی تناول فرمائیں ۔ بی بی پاک مریم علیہا السلام نے پوچھا کہ   میں اپنی قوم کو کیا جواب دوں گی کہ یہ کس کا بچہ ہے؟حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا کہ آپ اشارے سے کہنا کہ میں چپ کے روزے سے ہوں اور یہ بچہ جواب دے گا۔
بی بی نے پوچھایہ بچہ کیا بولے گا؟حضرت جبریل علیہ السلام نے پھر پہلے والا جواب دیا کہ اﷲ تعالی جیسا چاہتا ویسا ہی کرتا ہے۔ بی بی پاک مریم علیہا السلام جب بچہ اٹھائے بیت المقدس پہنچیں تولوگوں نے کہا بی بی آپ تو نبیوں کے خاندان سے ہویہ کیاپاپ کر آئی ہو؟
انہوں نے اشارے سے کہا کہ میں چپ کے روزے سے ہوں اور یہ بچہ جواب دے گا۔
لوگ جیسے ہی بچے کی طرف متوجہ ہوئے تو پنگھوڑے میں موجود حضرت عیسی علیہ السلام بول اٹھے’’میں اﷲ کا بندہ ہوں ، اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور مجھے اپنا پیغمبر بنایاہے، اور اس نے مجھے بابرکت کیا ہے جہاں بھی میں ہوں ، اور اس نے مجھے نماز اور زکوۃ کا حکم دیا ہے جب تک بھی میں زندہ رہوں ، اور اس نے مجھے اپنی والدہ کا خدمت گاربنایا ہے اورمجھے سرکش و بدبخت نہیں کیااور مجھ پر میری پیدائش کے دن اور میری موت کے دن اور جس دن کہ میں دوبارہ زندہ کیا جاؤں ، سلام ہی سلام ہے’’۔ قرآن مجید نے ان کا یہ قول سورۃ مریم کی آیا ت30تا 33میں بیان کیا ہے۔
توحید کا درس حضرت عیسی علیہ السلام سمیت سب انبیاء کا اولین درس ہے۔ سب آسمانی کتب کابھی سب سے پہلا سبق توحید کا ہی سبق ہے۔ قرآن نے بھی اہل کتاب سے یہی کہا کہ آؤ ایک ایسی بات کی طرف جوہمارے اور تمھارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اﷲ تعالی کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے۔ کسی کو اﷲ تعالی کا ساجھی قرار دینا، اس کا ہم سرقراردینا، اس جیسا قرار دینا یا اس کی ذات کا حصہ یا اس کے اختیارات میں برابر کاقرار دینا، یا کسی کے بارے میں سمجھنا کہ وہ اﷲ تعالی پر کوئی دباؤ یا زبردستی استعمال کر سکتا ہے سب توحید کے برخلاف ہے اور شرک میں داخل ہے۔ اﷲ تعالی نے کسی کواپنا بیٹا قرار نہیں دیا کیونکہ بیٹا کمزوری ہوتا ہے اور اﷲ تعالی ہر کمزوری سے پاک ہے۔ اور یہی عقیدہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کابھی تھا۔ انجیل مقدس آج بھی شرک سے پاک ہے۔ انجیل کے علاوہ بائبل میں جو انسانی کلام ہے اس میں لوگوں کی طرف سے حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں وہ کچھ کہا گیا ہے جو تعلیمات انبیاء علیہم السلام کے بالکل خلاف ہے۔ پوری بائبل میں حضرت عیسی علیہ السلام نے کہیں بھی خود کو خدا یا خدا کا بیٹا نہیں کہا۔ ہر نبی نے توحید کی تعلیم دی،
ایک وقت تھا جب لوگ سونے چاندی اور پتھروں کے بنے ہوئے بتوں کی پوجا کرتے تھے وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے نئے نئے خدا تراش لیے ہیں دولت، دنیا، اولاد، شہرت، مذہب، اقتدار، پیٹ کی خواہش اور پیٹ سے نیچے کی خواہش، رنگ، نسل، علاقہ اور نہ جانے کتنے کتنے خدا ہیں جو ایک ایک انسان کے سینے میں براجمان ہیں اور دن رات وہ ان کی پوجا میں مصروف ہے، حضرت عیسی علیہ السلام سمیت سب انبیا کی یہ تعلیمات ہیں کہ صرف ایک خدا کا پجاری ہی نجات کا مستحق قرار پائے گا۔ پچیس سال کی عمر میں حضرت عیسی علیہ السلام پرنزول وحی کا آغاز ہوا اور انجیل جیسی شاندار کتاب ان پر نازل کی گئی۔ آپ علیہ السلام کو بہت سے معجزے بھی عطا کیے گئے۔ آپ مردے کو اﷲ تعالی کے حکم سے زندہ کر دیتے تھے۔ روایات میں لکھا ہے کہ آپ علیہ السلام کے معجزے کے نتیجے میں حضرت نوح علیہ السلام کابیٹا بھی زندہ ہوا، اسے فوت ہوئے اگرچہ ہزاروں سال بیت چکے تھے لیکن اس نے کہا کہ موت کی کڑواہٹ ابھی بھی میرے حلق میں موجود ہے۔ آپ علیہ السلام کوڑھ کے مریض پر ہاتھ پھیرتے جاتے، جہاں جہاں سے یہ مقدس ہاتھ گزرتا وہاں وہاں سے مریض کی جلد ایسے ہوجاتی کہ جیسے کوڑھ جیسا موذی مرض کبھی تھا ہی نہیں ۔ پیدائشی اندھے کی آنکھوں پر اپنا دست مبارک پھیرتے تو اﷲ تعالی کے حکم سے اسے بینائی جیسی نعمت مل جاتی۔ حضرت عیسی علیہ السلام مٹی سے پرندے بناتے اور ان میں پھونک مارتے تو وہ اﷲ تعالی کے حکم سے زندہ ہوکر اڑنے لگتے۔
لوگوں کے اسرارپر ’’مائدہ‘‘نامی دسترخوان بھی آپ علیہ السلام کے معجزے کے نتیجے میں شروع ہواجس پر بعض اوقات ہزاروں لوگ ایک وقت میں کھانا کھاتے لیکن وہ کھانا کبھی بھی ختم نہ ہوتا، جب لوگ بچابچاکر گھرلے جانے لگے تواﷲ تعالی نے ’’مائدہ‘‘ختم کردیا۔ آپ علیہ السلام لوگوں کو بتادیتے کہ کیا کھاکر آئے ہیں اور گھرمیں کیاکیا غلہ رکھادھراہے۔ ان سب معجزات کے ساتھ آپ علیہ السلام لوگوں کو باور کراتے کہ یہ سب کچھ اﷲ تعالی کے حکم سے ہی ہے اور اس کائنات کا اول و آخر حکمران اﷲ تعالی ہی ہے جو ہر طرح کے شرک سے پاک ہے۔ علمائے بنی اسرائیل نے اس نوجوان نبی کے خلاف اعلان بغاوت کیاکیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام ان کے گمراہ عقائد اور سیاہ اعمال پرانہیں سرزنش کرتے تھے اور اصلاح احوال کے لیے انہیں تبلیغ کرتے تھے۔ قرآن مجید نے یہودیوں پر جو الزامات لگائے ہیں ان میں سرفہرست انبیاء علیہم السلام کاقتل ہے۔
چنانچہ یہودیوں کے ان علماء نے حسب سابق حضرت عیسی علیہ السلام کے قتل پر اجماع کیا اور بادشاہ سے کہا ایک ڈاکوکوآزاد کردواورحضرت عیسی علیہ السلام کو پھانسی دے دی جائے۔ اس وقت حضرت عیسی علیہ السلام کی عمر مبارک چالیس سال تھی جب آپ کے ایک مقدس ساتھی نے آپ کی جگہ پھانسی پر چڑھنا قبول کر لیااور آپ علیہ السلام کو آسمانوں پر زندہ اٹھا لیا گیا۔ لوگوں نے اس مقدس ساتھی کو حضرت عیسی سمجھ کرپھانسی دے دی۔ آسمانی کتب نے خبر دی ہے کہ قیامت کے نزدیک ایک بار پھر حضرت عیسی علیہ السلام دنیا میں امتی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے لیکن ان کی ذہنی عقلی اور روحانی سطح تو بہرحال ایک نبی کی ہی ہوگی، اس وقت جب زمین ظلم سے بھر چکی ہوگی۔ روایات میں موجود ہے کہ وہ شریعت محمدی ﷺ نافذ کریں گے اور کم و بیش چالیس سالوں تک پوری دنیا میں حکومت کریں گے اور مدینہ منورہ میں حجرہ عائشہ رضی ا ﷲ عنہا کے اندر جہاں ایک قبر کی جگہ ہنوز خالی ہے اس انسان عظیم الشان کو دفنادیا جائے گاکیونکہ ہر انسان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور صرف خداوند کریم  ہے جوہمیشہ زندہ  اور باقی رہے گا!
بشکریہ مضامین!

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply