عزت سانجھی ہوتی ہے/ڈاکٹر نوید خالد تارڑ

یہاں پاس ہی ایک ورکشاپ ہے، وہاں جنوبی پنجاب میں خانیوال سے تعلق رکھنے والا ایک بالکل سیدھا سادہ  سا نوجوان لڑکا کام کرتا ہے۔ آتے جاتے مسکراہٹ کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ رمضان شروع ہوا تو مسجد میں بھی ملاقات ہونے لگی۔ وہ جب بھی ملتا مجھے اگلے دن کے روزے گِن کر بتاتا کہ کل اتنے روزے ہو جائیں گے۔ مثلاً  ساتویں روزے  مجھے کہنے لگا کہ کل پورے آٹھ روزے ہو جائیں گے۔

دن بھر ورکشاپ میں کام کرنے کے بعد وہ شام میں وہیں ورکشاپ میں تین چار اور لڑکوں کے ساتھ سو جاتا ہے۔ صبح اٹھ کر وہ سب پھر سے کام کاج شروع کر دیتے ہیں۔ وہ مجھے بتاتا رہتا ہے کہ ورکشاپ میں ساتھ رہنے والے لڑکے اچھے نہیں ہیں اور بلاوجہ مجھ سے اپنے کام بھی کرواتے رہتے ہیں اور کسی نہ کسی بہانے تنگ کرتے رہتے ہیں۔ ساتھ یہ بھی بتاتا ہے کہ میں پچیسویں روزے کو واپس گھر جاؤں گا اور پھر دوبارہ یہاں نہیں آؤں گا۔

ہوا یوں کہ آج شام میں افطاری کے لیے کہیں اور گیا ہوا تھا۔ رات گئے آنلائن بائیک کی رائیڈ لے کر واپس آ رہا تھا تو کمرے تک آنے کے بجائے سڑک پہ ہی اتر گیا کہ آگے پیدل چلا جاتا ہوں۔ اتر کر دیکھا تو بٹوے میں کھلے پیسے نہیں تھے، پیسوں کے لیے ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا تو پاس ہی ایک ہوٹل پہ وہی نوجوان بیٹھا نظر آیا۔
مجھے دیکھ کر وہ فوراً اٹھ کر میری طرف چلا آیا اور پوچھا کہ کیا مسئلہ ہوا۔ میں نے بتایا کہ کھلے پیسے نہیں ہیں تو اس نے فوراً اپنا بٹوہ نکال کر مجھے پیسے دینے کی کوشش کی لیکن میں اسے منع کر کے کہیں اور سے کھلے پیسے لے آیا اور بائیک والے کو دے کر رخصت کر دیا۔

اب اس لڑکے کی طرف متوجہ ہوا اور اس سے پوچھا کہ یہاں ہوٹل پہ بیٹھے کیا کر رہے ہو ، سوئے کیوں نہیں ابھی تک ؟
اس نے بتایا کہ میں تراویح پڑھ کر واپس آیا تو باقی لڑکوں نے اندر سے ورکشاپ کا دروازہ بند کر لیا ہوا تھا۔ اب دو گھنٹے سے دروازہ کھٹکھٹا رہا ہوں ، وہ آگے سے ہنس دیتے ہیں لیکن دروازہ نہیں کھول رہے۔

میں نے پوچھا پہلے بھی کبھی ایسا ہوا ہے ؟
تو کہنے لگا ہاں ایک دفعہ پہلے بھی رمضان میں ایسے ہو چکا ہے کہ میں تراویح پڑھ کر واپس آیا تو انھوں نے دروازہ بند کر لیا تھا۔
میں نے پوچھا پھر ساری رات کیا کرتے رہے تھے ؟
کہنے لگا “پھر سحری تک یہیں ہوٹل کی کرسی پہ بیٹھا رہا تھا۔”

میں نے پوچھا اب وہ لوگ سو گئے ہیں کیا یا جان بوجھ کے دروازہ نہیں کھول رہے؟
کہنے لگا “جاگ رہے ہیں لیکن جان بوجھ کے تنگ کر رہے ہیں۔ آپ کو بتایا تو تھا کہ وہ اکثر ہی تنگ کرتے رہتے ہیں۔”
پھر کہنے لگا ” بس اب تو تین گھنٹے ہی رہ گئے ہیں سحری ہونے میں ، سحری ہو گی تو دروازہ کھول دیں گے۔”

مجھے اور تو کچھ نہیں سوجھا ، اسے ساتھ لے کر اپنے کمرے میں آ گیا کہ سحری تک میرے پاس سو جاؤ۔ پھر چلے جانا۔
کمرے میں آ کر اس نے کہا کہ وہ نیچے کارپٹ پہ سو جائے گا ، میں بستر پہ سو جاؤں۔ لیکن یہ میری غیرت نے گوارا نہیں کیا تو اسے زبردستی بستر پہ سلا دیا۔ اب میں کارپٹ پہ بیٹھا یہ تحریر لکھ رہا ہوں اور وہ بستر پہ سکون سے سویا ہوا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سوچ رہا ہوں ہم لوگ اتنے کم ظرف اور گھٹیا کیوں ہوتے ہیں کہ بلاوجہ دوسروں کو تکلیف دینے میں خوشی اور سکون محسوس کرتے ہیں۔ ہم مذاق اور تذلیل میں فرق کیوں نہیں کر پاتے۔ دوسروں کو اذیت پہنچا کر ہمیں کون سا اطمینان یا فخر ملتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو بڑا بڑا محسوس کرنے لگتے ہیں۔؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply