سپریم کورٹ میں کیا ہورہا ہے؟/محمد مشتاق

سوائے اس کے کچھ نہیں کہ چیف جسٹس یہ بات نہیں سمجھ پارہے کہ “یونٹی آف کمانڈ”، “چین آف کمانڈ” اور “چیف تیرے جاں نثار” کا دور گزر چکا ہے۔ یہ ججز ہیں، کور کمانڈرز نہیں جو آرمی چیف کے حکم پر آمنّا وصدّقنا کہیں گے۔ افتخار محمد چودھری صاحب کے دور سے پیدا ہونے والا غلط نظریہ دم توڑ چکا ہے اور اس نے چیف جسٹس کو عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کردیا ہے، اور شاید کسی حد تک ان کی انا بھی زخمی ہوچکی ہے جس کی وجہ سے وہ ایسے اقدامات اٹھارہے ہیں جن کی کوئی تُک نہیں بنتی اور وہ ان سے بہتر اقدامات اٹھا کر وہی نتائج حاصل کرسکتے تھے جو وہ چاہتے ہیں۔

دیکھیں، اگر ان کی خواہش یہ تھی کہ بنچ ایسا ہو جس پر ان کا کنٹرول رہے، تو وہ جسٹس امین الدین خان کی معذرت کے بعد کسی ایسے جج کو شامل کرسکتے تھے جن کے متعلق انھیں یقین یا غالب گمان ہو کہ وہ ان کے ساتھ اختلاف نہیں کریں گے۔ سپریم کورٹ میں ایسے کئی ججز یقیناً موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے اس آپشن کو کیوں استعمال نہیں کیا اور پانچ رکنی بنچ ہی کیوں تشکیل نہیں دیا؟

مجھے تو اس کی وجہ سوائے اس کے اور کچھ معلوم نہیں ہورہی کہ اس صورت میں کیس کی از سرِ نو سماعت ہونی تھی کیونکہ نئے جج کی شمولیت کے بعد ضروری ہوتا کہ وہ پورا کیس سن کر اپنی رائے قائم کرتے، لیکن اس مشکل سے بچنے کا یہ راستہ تو اور مسائل کا باعث بنا کہ آپ نے 5 رکنی بنچ کو 4 رکنی کرکے چلانے کی کوشش کی۔

پھر کل جسٹس امین الدین خان کی معذرت کے بعد جو حکم نامہ جاری کیا، اس میں ان کی معذرت کے علاوہ اپنی اور اپنے ساتھ 2 ججوں کی رائے کا ذکر تو کیا، لیکن جسٹس جمال مندوخیل کا ذکر نہیں کیا۔ کیوں؟ اگر وہ ان کا ذکر کرتے، ان کی رائے کا  ذکر کرتے، خواہ وہ اختلافی رائے ہو، تب بھی اس کا کیا اثر ہونا تھا؟ اکثریت تو پھر بھی چیف جسٹس کے پاس ہونی تھی۔ لیکن انھوں نے جسٹس مندوخیل کو “کالعدم” کیا، تو اس کے بعد جسٹس مندوخیل کے پاس بنچ سے الگ ہونے کے سوا کیا راستہ تھا؟

اس کے بعد پھر چیف جسٹس کے پاس آپشن تھا کہ وہ 2 ایسے جج بنچ میں شامل کرتے جو ان سے اختلاف نہ کرتے، یا چلیں 1 اختلاف کرنے والے جج کو بھی شامل کرتے، یا اگر 2 ہی اختلاف کرنے والے شامل کرلیتے، تب بھی کیا فرق پڑتا؟ اکثریت تو چیف جسٹس کے پاس ہی ہونی تھی۔ ہاں، اس صورت میں بھی کیس کی سماعت از سرِ نو شروع ہونی تھی۔ تو کیا وہ اسی سے گریز کی راہ اختیار کرنا چاہتے ہیں؟

یہ گریز ویسے قابلِ فہم بھی ہے کیونکہ ان کی رائے یہ ہے کہ یہ معاملہ جلد نمٹانے کا ہے اور آئین کی رو سے مقرر کردہ 90 دن کا وقت ختم ہونے والا ہے، لیکن جمعہ کی نماز کے بعد شروع ہونے والی سماعت سے تو لگتا ہے کہ اب شاید سماعت میں وقفہ دینا ہی ہوگا۔ اور 2 دن کی چھٹی کا وقفہ تو شاید ویسے بھی بننے والا ہے۔

ایک اور اقدام آج انھوں نے یہ اٹھایا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین کے عدالتی حکم نامے کو انتظامی حکم نامے کے ذریعے کالعدم کرنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ چیف جسٹس کے پاس اس سے بہتر آپشن موجود تھے۔ بھئی سب سے پہلی بات تو یہ کہ 2 ججز کا فیصلہ 5 یا 4 یا 3 ججز پر ماننا لازم نہیں ہوتا، پھر یہ کہ ایک بنچ دوسرے بنچ کو سماعت سے روک نہیں سکتا، پھر یہ کہ کیا واقعی اس بنچ نے آپ کو سماعت سے روکنے کا حکم دیا تھا یا یہ مشورہ تھا جسے آپ نظر انداز کرسکتے تھے، جب تک اس کے متعلق باقاعدہ درخواست دائر نہ کی جاتی اور اس صورت میں اس درخواست پر فیصلہ کرکے آپ باقاعدہ عدالتی حکم کے ذریعے اسے کالعدم کرسکتے تھے۔
لیکن معاملہ وہی ہے کہ یونٹی آف کمانڈ، چین آف کمانڈ اور چیف تیرے جاں نثار کے مائنڈ سیٹ سے نکلنا بہت مشکل ہے۔ جب تک ہمارے فاضل جج صاحبان اختلافِ راے کو برداشت کرکے اس کے ساتھ چلنے کا بھولا ہوا سبق واپس یاد نہیں کریں گے، بحران جاری رہے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دو باتیں مزید:
ایک یہ کہ کوئی سجاد علی شاہ پارٹ 2 نہیں ہوگا، ان شاء اللہ۔ اختلاف کرنے والے ججوں میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جسے کوئی رفیق تارڑ خرید لے گا۔ ان میں ہر ایک کی اپروچ سے، جوریس پروڈنس سے، آراء سے، فیصلوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، لیکن ان میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو آئین و قانون کی حدود سے باہر ذاتی پسند و ناپسند کی بنا پر کھیل کھیلنا چاہتا ہو۔
دوسری بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت نے اگر اس باقی بچنے والے 3 رکنی بنچ پر عدم اعتماد کا اظہار کرکے فل ٹاس پر چھکا مارنے کا موقع ضائع کیا، تو اس کے بعد اسی محاورے پر عمل کرے کہ لڑائی کے بعد یاد آنے والا مُکا اپنے منہ پر مارنے کےلیے ہوتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply