دوسرے پارے کا خلاصہ

*سورۃ البقرہ* ایک نہایت جامع سورت ہے۔ اس میں دین کا پورا ضابطہ حیات مسلمانوں کو بتایا گیا ہے۔ اس پارے میں سورۃ البقرہ کی آیات، آیت نمبر 141 سے 252 تک ہیں۔ اس پارہ کا آغاز تحویل قبلہ کے حکم سے ہوتا ہے۔ نبی کریم علیہ صلاۃ والسلام کی شدید خواہش تھی کہ بیت المقدس کے بجائے بیت اللہ کی طرف رخ کرکے عبادت کریں، چناچہ اس سورت میں بیت المقدس کی بجائے کعبہ مشرفہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا، اور ہمیشہ کے لئے بیت اللہ کو قبلہ قرار دے دیا گیا۔ یہ بھی حکم دیا گیا کہ جہاں کہیں بھی ہو نماز میں اپنا چہرہ بیت اللہ کی طرف ہی کرو۔ یہود، کفار اور منافقین نے اس حکم پر سخت اعتراضات کیے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ مشرق اور مغرب سب اللہ ہی کے ہیں تو جس طرف بھی تم رخ کرو وہ اللہ ہی کی طرف ہوگا۔
اس کے بعد اس دعا کی قبولیت کا ذکر ہے جو سیدنا ابراہیم نے مانگی، چنانچہ نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام کی بعثت کا ذکر کیا گیا اور آپ کے چار وظائف بتائے گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہاری طرف مبعوث کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ تمہیں میری آیات پڑھ کر سنائیں، تمہارا تزکیہ کریں، تمہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیں اور تمہیں وہ سب سکھائیں جو تم نہیں جانتے، پس یہی آپ کی امت کا بھی مقصد ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ذکر، شکر اور نماز کی بھی تلقین کی گئی۔ یہ تنبیہ بھی کی گئی کہ تمہاری زندگی میں آزمائشیں آتی رہیں گی تو اصل خوشخبری صبر کرنے والوں کے لیے ہے، اور صبر کرنے والے ہی ہدایت یافتہ ہیں۔ مصیبت کے وقت آخرت کو یاد کرنے کی تلقین بھی ہے، کیونکہ ایسا کرنے سے مصیبت ہلکی لگنے لگتی ہے۔
پھر اللہ تعالی نے مختصرا علم کو چھپانے والوں اور ان کے لیے تیار کردہ وعید کا تذکرہ کیا۔ اس کے بعد اپنی قدرت کی کچھ نشانیاں ذکر کرکے حلال اور طیب کھانے کی ترغیب دی، اور یہ بتایا کہ دنیا میں جو کچھ حلال ہے وہ کھاؤ پیو، اور ساتھ ہی مردار، خون، سور کا گوشت، غیر اللہ کے نام نذر کی ہوئی چیزوں کا حرام ہونا بھی واضح کر دیا۔
اللہ تعالی نے یہ بھی واضح کردیا کہ مخلوق کی محبت اگر حد سے بڑھ جائے تو وہ شرک کی طرف لے جاتی ہے۔ جو سب سے بڑا محبوب ہوتا ہے وہی اصل میں معبود ہوتا ہے، اور ایمان والوں کا اصل محبوب ان کا رب ہوتا ہے۔
پھر آیت البر لائی گئی جس میں نیکی کا ایک جامع تصور دیا گیا، کہ نیکی تو اصل میں یہ ہے کہ عقیدہ درست ہو، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی مناسب طریقے سے ہو، عہد کو پورا کیا جائے اور ہر قسم کے حالات میں صبر کیا جائے، یہی اصل میں نیکی ہے۔ اس آیت میں باقی نیکیوں کو عمومی انداز میں ذکر کیا گیا، جبکہ ایفائے عہد اور صبر کا الگ سے ذکر کیا گیا، جو ان کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
اس کے بعد قصاص کے احکام بیان کئے گئے کہ جان کے بدلے جان ہوگی، اور قصاص کو زندگی سے عبارت کیا گیا کہ اصل میں تمہارے لئے قصاص میں ہی زندگی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ اگر مقتول کے ورثاء راضی ہوں تو خون بہا کی بھی اجازت ہے۔
اس کے بعد وصیت کے احکام آئے، اور اس کو پورا کرنے کی تاکید کی گئی۔ (حدیث مبارکہ کے مطابق ایک تہائی مال میں وصیت کی جاسکتی ہے، بقیہ سارا مال وارثوں کا حق ہے)
اس کے ساتھ ساتھ تفصیل سے روزے کے احکام کا ذکر ہے۔ روزہ ایک فرض عبادت ہے اور یہ آخرت میں کفایت کرنے والا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مریض اور مسافر کے لیے نرمی ہے وہ بعد میں قضا کر سکتے ہیں۔ روزہ تقوی پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کی گنتی پوری کرنا لازم ہے لہذا قضا روزے رکھنا بھی فرض ہے، البتہ معذور جو بعد میں بھی ادا نہیں کرسکتا اس کے لیے فدیہ کی بھی اجازت ہے۔ یہ بھی واضح کردیا گیا کہ رمضان کی اہمیت قرآن کی وجہ سے ہے۔ یہ مہینہ اس لیے اتنا اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اسی مہینے میں قرآن نازل کیا گیا۔
اس کے بعد چند احکام جہاد وقتال کے بارے میں بتائے گئے ہیں۔ یہ واضح کیا گیا کہ فتنہ پھیلانا قتل سے زیادہ برا ہے، قتال تم پر فرض ہے اور یہ کہہ کر ہمت دلائی گئی کہ ہوسکتا ہے کہ جو چیز تمہیں ناپسند ہو وہی تمہارے لیے بہتر ہو اور جو چیز تمہیں پسند ہو وہی تمہارے لیے بری ہو۔ اور یہ خوشخبری سنائی گئی کہ جو بھی ایمان لے آئے اور ہجرت اور جہاد پر عمل پیرا ہو ان کے لئے رحمت کی امید اور مغفرت ہے۔ اور شہید کے درجات کی طرف بھی یہ کہ کر اشارہ کر دیا گیا کہ جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں ان کو مردہ مت کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے۔
یہاں سے حج اور عمرہ کے مفصل احکام آتے ہیں۔ حکم ہوا کہ یہ دونوں اعمال خالصتا اللہ کے لیے کرو، اور یہ حکم دیا کہ حج کے دوران کسی بے حیائی، لڑائی جھگڑے اور گالم گلوچ میں نہ پڑو۔ حج کا سفر نیکیوں کا سفر ہونا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ بخشش مانگنی چاہیے۔
یہ بھی واضح ہوا کہ جنت کا راستہ آزمائشوں سے بھرا ہوا ہے کوئی شخص اس وقت تک کمال کو نہیں پہنچتا جب تک کہ وہ آزما نا لیا جائے۔
اس پارے میں صحابہ کرام کے بعض سوالات کا بھی جواب دیا گیا ہے۔ اس میں انفاق کے مصارف کے بارے میں سوال کا جواب دیا گیا کہ جو بھی تمہارے ضرورت سے زائد ہو وہی خرچ کرو، اس میں سے سب سے بہترین خرچ وہ ہے جو والدین، قرابت داروں، یتیموں مسکینوں اور مسافروں کے لیے اور ان کی مدد کے لیے خرچ کیا جائے۔
اس کے علاوہ شراب اور جوئے کی حرمت کا ذکر کیا گیا۔ یتیموں کی اصلاح اور ان کی دیکھ بھال کی ترغیب دی گئی۔
اس پارے کے آخر میں تفصیل سے بعض احکام نکاح، طلاق، رضاعت، مہر، عورتوں کے بعد مخصوص مسائل، اور عدت کے احکام کا ذکر کیا گیا۔ یہ بتایا گیا کہ مومن مرد اور مومن عورت کا کافر مرد یا کافر عورت سے نکاح اور ازدواجی تعلق قائم نہیں ہوسکتا۔ درمیان میں شوہر اور بیوی کے ایک دوسرے پر جو حقوق ہیں ان کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ احکام کے بیان میں حقوق کا ذکر اس لیے ہوا کہ یہ بات بھی واضح کر دی جائے کہ طلاق کی نوبت
تب ہی آتی ہے جب حقوق پورے طریقے سے ادا نہ کئے جائیں۔ دو طلاقوں کے بعد تو رجوع کیا جاسکتا ہے، لیکن تیسری طلاق فیصلہ کن ہوتی ہے۔ تین طلاقیں ایک ساتھ دینا نامناسب اور شریعت کے خلاف ہے اسی طرح عورت کو اذیت دینے کے لئے بھی طلاق کا استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ اللہ جل شانہ کی جانب سے عورت کو بالکل اجازت ہے کہ وہ عدت کے بعد دوسرا نکاح کرلے۔ اسی طرح بیوہ کے اوپر بھی چار ماہ دس دن عدت کرنا فرض ہے، اور اس دوران شوہر کے گھر میں رہنا اس کا حق ہے۔ عدت کے بعد اس کو دوسرا نکاح کرنے کی پوری اجازت ہے۔
پھر کچھ واقعات کے ذریعہ اہم سبق سکھائے گئے ہیں ان میں ایک واقعہ مردوں کو زندہ کر کے دکھائے جانے کا ہے۔
آخر میں سلسلہ کلام بنی اسرائیل کی طرف دوبارہ موڑ دیا گیا، اور داؤد علیہ السلام کا قصہ، طالوت کی بادشاہت اور جالوت کے لشکر سے مقابلہ کا ذکر کیا گیا۔ اس واقعے کے ذکر سے ایک اہم نکتہ یہ بھی واضح کیا گیا کہ کامیابی کا تعلق وسائل اور اسباب کے بجائے اللہ کی مدد اور اس پر بھروسہ سے ہوتا ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply