چوتھے پارے کا خلاصہ

اس پارے میں سورہ آل عمران کی آیت 92 سے اختتام سورت تک ہے، اور سورۃ نساء کی ابتدائی 23 آیات ہیں۔ گزشتہ پارے میں اللہ تعالی نے مفصل کلام انفاق فی سبیل اللہ پر کیا تھا، اس پارے کی کا آغاز پھر انفاق کی ترغیب سے ہوا اور یہ بتایا گیا کہ تم نیکی کے اعلی درجات پہ اس وقت تک نہیں پہنچ سکتے جب تک تم اپنی محبوب چیز اللہ کی راہ میں خرچ نہ کردو۔ یہاں مومنین کو اعلی درجے کی اخلاقی تعلیم دی جارہی ہے، اور مزید خرچ کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے۔ یہ اللہ تعالی کی اپنے بندوں سے بے انتہا محبت ہے کہ یہ نہیں کہا گیا کہ جو پسند ہو وہ سب دے دو پھر ہی نیکی کو پہنچو گے، بلکہ یہ کہا گیا کہ جو پسند ہے اس میں سے کچھ دے دو۔
اس کے بعد یہود کے ایک اعتراض کا جواب دیا گیا کہ محمد علیہ الصلاة والسلام نے بعض وہ چیزیں بھی حلال قرار دے دیں جو حرام تھیں۔ چناچہ اللہ تعالی نے واضح کیا کہ یہ سب اصلا دین ابراہیمی میں حلال تھیں، یعقوب علیہ السلام نے اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے ان کو چھوڑ رکھا تھا۔ محمد علیہ الصلاۃ والسلام نے کوئی حرام چیز حلال نہیں قرار دی۔
اہل کتاب نے تحویل قبلہ پر بھی بیت المقدس کی افضلیت کی بنا پر اعتراض اٹھایا کہ اسے قبلے کے طور پر چھوڑنا اچھا عمل نہیں ہے۔ سو اللہ تعالی نے واضح کردیا کہ اصلا سب سے پہلا قبلہ بیت اللہ ہی ہے جو ایک بابرکت اور امن والی جگہ پر قائم ہے۔ ساتھ ہی ساتھ حج کی فرضیت بھی واضح کر دی گئی کہ ہر صاحب استطاعت پر زندگی میں ایک دفعہ اس گھر کا حج فرض ہے۔
اس کے بعد اہل کتاب سے خطاب کرکے ان کے بعض گمراہ کن اعمال کی طرف توجہ دلائی گئی اور مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی کہ نبی برحق کے ہوتے ہوئے ان کی پیروی مت کرنا ورنہ وہ تمہیں بھی حق سے محروم کردیں گے۔ مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور اسلام پر ہی جان دینا۔ ترک دنیا اللہ سے ڈرنے کا حق نہیں ہے، بلکہ تمام دنیاوی امور میں اللہ کے احکامات کا خیال رکھنا ہی دراصل اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وحدت کی تعلیم بھی دی گئی اور اس کے لیے ہدایت یہ ہے کہ قرآن کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔
اس کے بعد سلسلہ کلام اس اہم چیز کی جانب موڑ دیا گیا جو اصل میں اس امت کی بعثت کا مقصد ہے، کہ تم میں ضرور ایک ایسا گروہ ہو جس کا کام ہی یہ ہو کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرے اور برائی سے روکے۔ جو لوگ یہ کام انجام دیں گے وہی اصل میں کامیاب ہیں۔ اسی عمل کی وجہ سے تمہیں بہترین امت کا خطاب ملا ہے۔ اس ایک خاص جماعت کے علاوہ بھی ہر امتی دین اور بھلائی کا داعی ہونا چاہیے جو اپنے اپنے سرکل میں برائی کے خلاف آگاہی پھیلائے، اور انسانیت کی بھلائی اور خیر خواہی کے لیے اپنے حصے کا کام انجام دے۔
اس کے بعد مسلمانوں کو اہل کتاب کے بارے میں بتایا گیا کہ ان میں کچھ تو وہ ہیں جو اپنے اعمال رذیلہ کے سبب ذلیل ہوئے، لیکن سب ایک جیسے نہیں ہیں ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو حق پر قائم ہیں، راتوں کو اٹھ کر نماز پڑھتے ہیں اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کار خیر انجام دیتے ہیں۔
یہاں کفار کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے کہ آخرت میں ان کے مال اور اولاد ان کے کسی کام نہیں آئیں گے، نہ ہی ان کا صدقہ وخیرات کسی کام کا ہوگا، یہ صرف دنیا کی لذت مین مال خرچ کرتے ہیں۔ لہذا انہیں اپنا رازدار نہ بناؤ۔ یہ مسلمانوں سے حد درجہ کا بغض رکھتے ہیں۔ ضمنا منافقین کے بارے میں بھی بتایا گیا کہ جب تمہیں کوئی بھلائی ملے تو وہ ناراض ہوتے ہیں اور جب تمہیں کوئی برائی پہنچے تو بہت خوش ہوتے ہیں۔ تو صبر و تقویٰ کے ذریعہ سے ان کا مقابلہ کرو۔ اگر تمہارا کردار مضبوط ہے تو تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
اس سورہ میں اللہ تعالی نے بہت مفصل تبصرہ غزوہ احد پر بھی کیا ہے۔ غزوہ احد میں مسلمانوں کو شروع میں فتح حاصل ہوئی تھی، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے روگردانی کرتے ہوئے مسلمان مکمل فتح سے پہلے مال غنیمت سمیٹتے میں لگ گئے، اس بنا پر ان کی فتح شکست میں تبدیل ہوگئی اور بہت سے مسلمان شہید ہو گئے۔ اس موقع پر ایک افواہ یہ بھی پھیلی کہ نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نعوذ باللہ شہید ہوگئے ہیں۔ یہ سنتے ہی بہت سے مسلمان حوصلہ ہار گئے، کچھ تو منہ پھیر کر بھاگ گئے۔ کچھ نے ہتھیار ڈال دیے۔ یہ بات اللہ تعالی کو سخت ناپسند ہوئی۔ چنانچہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو پہلے تو حوصلہ دیا کہ جب بدر میں اللہ تعالی تمھاری مدد کرچکا ہے تو اب کیوں نہیں کرے گا۔ یہ خوشخبری بھی دی گئی کہ تمہارا رب پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا اگر تم اس پر بھروسہ کرو۔ اللہ کی مدد اسی اعتبار سے آتی ہے جتنا جوش و جذبہ ہوتا ہے۔ یہ بھی تعلیم دی گئی کہ کمزور نہ بنو اور نہ ہی دل چھوٹا کرو آخر میں تم ہی غالب ہو گے اگر عہد میں پکے اور ثابت قدم رہے۔ حالات ایک جیسے نہیں رہتے بلکہ کبھی ایک غالب آتا ہے کبھی دوسرا۔ اگر اب تمہیں زخم لگا ہے تو بدر میں وہ بھی منہ کی کھا چکے ہیں۔
اس شکست کے ذریعے تمہارا امتحان مقصود تھا کہ تم میں سے ایمان والے خالص ہوجائیں اور منافقین ظاہر ہوکر الگ ہوجائیں۔ آزمائشیں ہی انسان کو خالص کرتی ہیں۔ لہذا اگر تم سمجھتے ہو کہ جنت میں یونہی داخل ہو جاؤ گے تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔ اللہ نے ابھی تمہارا مزید امتحان لینا ہے۔ یہ بھی تنبیہ کی گئی کہ محمد علیہ السلام تو فقط ایک رسول ہیں تو کیا اگر وہ شہید ہوگئے یا نہ رہے تو تم دین سے ہی پھر جاؤ گے۔ تم ایک لیڈر کی خاطر نہیں لڑ رہے بلکہ اللہ کے اس کلمے کی خاطر جہاد کے لئے آئے ہو جو اس نے دنیا میں بھیجا ہے۔ اللہ کی راہ میں تم سے پہلے بھی بہت لوگ نبیوں کے ساتھ مل کر اللہ کی راہ میں لڑے ہیں۔ وہ بھی اللہ سے مدد مانگتے تھے تو ان کو دنیا اور آخرت دونوں میں اچھا بدلہ ملا۔ اللہ نے تو اپنا وعدہ سچا کر دکھایا تھا لیکن تم مال کی محبت میں ڈگمگا گئے۔اللہ اپنے بندوں سے یہ چاہتا ہے کہ وہ دنیا کی چیزوں پر غم نا کریں۔
احد میں چونکہ بہت سے مسلمان شہید ہوگئے تھے تو منافقین نے یہ بات پھیلا دی کہ اگر یہ لوگ اپنے گھروں میں ہوتے تو زندہ رہتے اور اس آزمائش سے بچ جاتے۔ اللہ تعالی نے یہاں اس کی بھی نفی کی اور کہا کہ جو لوگ اس جنگ میں آنے پر تنگی محسوس کر رہے تھے ان کو بتا دو کہ اگر وہ اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن کی قسمت میں شہید ہونا تھا وہ اپنے گھروں میں بھی مارے جاتے۔ منافقین کو بھی اللہ تعالی نے یہ کہہ دیا کہ کہ اگر یہی سچ ہے تو تم اپنے آپ کو موت سے بچا کر دکھاؤ۔ پھر مسلمانوں کو تسلی دلائی کہ یہ شہادت عام موت نہیں بلکہ ایک بہتho اعلیٰ مرتبہ ہے۔ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اللہ کے راستے کی موت ہی بہترین منزل ہے۔ شہداء کے انعامات کا تذکرہ کیا گیا کہ وہ زندہ ہیں، رزق بھی پاتے ہیں اور جو ان کے بقیہ مجاہد ساتھی ہیں ان کے بارے میں خوش بھی ہوتے ہیں کہ وہ بھی عنقریب اس رتبے کو حاصل کریں گے۔
جنگ احد کے بعد یہ خبر مشہور ہوئی کہ دشمن پھر پلٹ کر حملہ کرنے والا ہے۔ چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ پھر لوگوں کو حکم دیا کہ مقابلے کے لئے نکلیں۔ اس موقعہ پر کسی نے بھی بزدلی نہیں دکھائی اور زخموں سے چور چور بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور مقابلے کے لئے “حسبنا الله ونعم الوكيل” کہتے ہوئے تیار ہوگئے۔ اللہ تعالی کو ان کا یہ عمل بے حد پسند آیا۔
مومنین کو حوصلہ دیا گیا کہ یہ کافر تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ان کو جو ڈھیل مل رہی ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے گناہوں میں بالکل جب غرق ہوجائیں پھر ایک ہی دفعہ قیامت میں پکڑے جائیں۔
احد پر تبصرہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے درمیان میں سود کی حرمت کا بھی ذکر کیا۔ سودی لین دین انسان مال کی محبت میں کرتا ہے، یہ مشکل بھی مال کی محبت کی وجہ سے آئی تھی۔ مسلمانوں نے مال غنیمت کی وجہ سے رسول اللہ کے احکام کو نظر انداز کردیا تھا۔ اس لئے یہ واضح کیا گیا کہ مال کی محبت تباہی لاتی ہے۔
جنت اور اللہ کی مغفرت کی طرف دعوت دی گئی اور مومنین کی چند صفات انفاق سے متعلق بیان کی کہ وہ ہمیشہ اللہ کی راہ میں کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں، سخت غصہ کو ضبط کرتے ہیں، عفو درگزر کرتے ہیں، جب ان سے کوئی غلط کام ہوجائے تو استغفار کرتے ہیں۔ خوشخبری بھی دی گئی کہ جو اللہ سے مغفرت کے طلبگار ہوتے ہیں اور اپنی غلطیوں پر اصرار نہیں کرتے اور مذکورہ بالا تمام خصوصیات کو اپناتے ہیں ان کو وہ جنت ملے گی جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ مومنین کی صفات یہ بھی ہیں کہ وہ کھڑے بیٹھے اور لیٹے اللہ تعالی کو یاد کرتے ہیں اس کا ذکر کرتے ہیں اور آسمان اور زمین کی تخلیق میں غوروفکر کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ سب بے مقصد نہیں ہے۔
اللہ تعالی نے نبی کریم کی بعض وہ صفات بھی بیان کی جو ایک صحیح لیڈر میں ہونی چاہیے: تواضع، اپنے ساتھیوں کا خیال رکھنا، اہم کام مشورہ سے انجام دینا، اللہ پر توکل کرنا۔ اس سے یہ امر بھی واضح ہوا کہ اپنے امور باہمی مشورے سے طے کرنا پسندیدہ امر ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ رسول کا بھیجنا تم پر اللہ کا انعام ہے۔
خیانت سے خبردار کیا گیا کہ جو خیانت کرے گا وہ قیامت کے دن اس کا حساب دے گا۔ بخل کی ممانعت کی گئی اور یہ بتایا گیا کہ جو جس چیز میں بخل کرے گا اسی کا طوق قیامت کے دن اسے پہنایا جائے گا۔
یہ بھی بتا دیا گیا کہ ہر کوئی موت کا مزہ چکھے گا تو اصل کامیابی یہ ہے کہ آگ سے بچ کر جنت میں داخل ہو جاؤ۔ یہ بھی بتا دیا گیا کہ دین کا راستہ آزمائشوں کا راستہ ہے، اس کے لیے ہمت درکار ہے۔ بڑے دل والے ہی بڑے کام کرتے ہیں۔ اس سفر میں تقوی اور صبر بہترین مددگار ثابت ہوں گے۔ منافقین کی صفت بتائی گئی کہ دوسروں کے کام کا کریڈٹ لیتے ہیں۔
اس کے بعد خاتمہ سورت کی آیات ہیں جس میں چند دعائیں سکھائی گئی۔ اور یہ تسلی دی کی کسی کا عمل ضائع نہیں ہوگا۔ مرد یا عورت جو بھی بھلا کام کرے گا جنت میں جائے گا۔ اللہ تعالی کی طرف سے ان کے لئے بہترین ضیافت تیار ہے۔
یہ بھی تسلی دی گئی کہ کافروں کو دنیا میں پھلتا پھولتا دیکھ کر افسردہ نہ ہو۔ دنیا تو عارضی ٹھکانہ ہے اور ان کا عیش و عشرت بھی بس چند روزہ ہے۔ مومن کا اجر ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ اہل کتاب کے مسلمانوں کی تحسین کی گئی اور تسلی دی گئی کہ ان کا اجر بھی اللہ کے پاس ہے۔ پس اے مسلمانو صبر کرو، مضبوطی سے مقابلہ کرو، تقویٰ سے کام لو تکلیف دہ حالات میں بھی اللہ کی اطاعت پر جمے رہو، یہی اصل میں فلاح کے کام ہین۔
اس کے بعد سورۃ النساء شروع ہوتی ہے۔ اس کا آغاز تخلیق انسان اور اس کے بڑھنے کے طریقہ کار سے ہوا۔ اس سورت میں بہت سے احکام گھریلو زندگی سے متعلق آئے ہیں۔ سب سے پہلی ہدایت یہ کی گئی کہ یتیموں کے مال کی حفاظت کرو۔ جب وہ بڑے ہو جائیں اور ان کو سمجھ بوجھ حاصل ہوجائے تو ان کا مال واپس کردو۔ اس سے پہلے ان کی ضروریات پوری کرتے رہو بلاضرورت ان کے مال سے اجرت مت لو۔ جب مال واپس کرو تو گواہ بنا لو تاکہ بعد میں دقت نہ ہو۔ یہ بھی تنبیہ کی کہ یتیم کا مال کھانا ایسا ہی ہے جیسے اپنے پیٹ میں آگ بھرنا۔
اس کے بعد وراثت کے احکام ذکر ہوئے اور واضح حکم آیا کہ مرد عورت سب کا وراثت میں متعین حصہ ہے۔ بعض رشتہ داروں کے حصے تفصیل سے بیان کئے گئے۔ یہ بھی حکم دیا گیا کہ اگر تقسیم وراثت کے وقت کچھ مسکین رشتہ دار ایسے بھی آجائے جن کا حصہ نہ ہوں تو انہیں بھی کچھ دے دو۔ اولاد میں مرد کا حصہ وراثت عورت کے حصے سے دوگنا ہے۔ لیکن یہ کوئی دائمی اصول نہیں ہے۔ بعض صورتوں میں عورت کا حصہ زیادہ ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ وراثت کی تقسیم میت کے ذمے واجب الادا قرض کی ادائیگی اور وصیت کو پورا کرنے کے بعد ہوگی۔ اس حکم کی اہمیت کے پیش نظر وراثت کے قانون کو اللہ کی حدود قرار دیا گیا۔ چناچہ جو اس پر عمل کرے گا جنت پائے گا اور جو اس سے پہلو تہی کرے گا جہنم پائے گا۔
مرد کو ایک سے زائد چار شادیوں تک کی اجازت دی گئی لیکن عدل کی شرط کے ساتھ۔ اس کے بعد معاشرے کو زنا اور بدکاری سے روکنے کے لئے بعض احکام بیان کئے گئے ہیں۔ یہ بتایا گیا ہے کہ عورت کا جرم اگر چار گواہوں کے ذریعے ثابت ہو جائے تو اس جرم کی پوری سزا اس پر نافذ کرنی چاہیے۔ اسی طرح بدکار مرد کے لیے بھی سخت سزا کا حکم ہے۔ توبہ کا دروازہ پھر بھی کھلا رکھا گیا ہے لیکن توبہ وہی قابل قبول ہے جو نزع کی کیفیت سے پہلے کی گئی ہو۔ زنا کا جرم ثابت ہونے کے لیے شہادت کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔
اس کے بعد نکاح اور مہر سے متعلق بعض احکام بیان کئے گئے ہیں اور مردوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ عورتوں کے مہر خوش دلی سے ادا کرو۔ اگر تم بیوی سے علیحدہ ہورہے ہو تو اس سے مہر واپس نہ لو چاہے ڈھیروں ڈھیر بھی دیا ہو۔ یہ بھی تاکید کی گئی عورتوں سے بھلے طریقے سے پیش آؤ۔ اس میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ اپنی بیوی سے بے وفائی مت کرو۔ پھر ان تمام عورتوں کا ذکر ہے جن سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ تمام احکام جو اس سورت میں آئے ہیں وہ معاشرے کی اصلاح سے متعلق ہیں اور ان کا سلسلہ پانچویں پارے تک چلا جاتا ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply