آٹھویں پارے کا خلاصہ

اس پارے میں سورہ انعام کی بقیہ آیات اور سورہ اعراف کی ابتدائی 87 آیات ہیں۔
پچھلے پارے کا سلسلہ کلام آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا کہ یہ مشرکین کسی صورت ایمان نہیں لانے والے اگرچہ آسمان سے فرشتے اتر آئیں یا مردے بات کرنا شروع کردیں، سوائے اس کے کہ اللہ چاہے۔ پھر بتایا کہ ہر نبی کے شیاطین انس و جن میں سے اسی طرح کے دشمن ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کو دھوکے میں ڈالتے ہیں۔ نیز فرمایا کہ اللہ نے ہی یہ کتاب نازل کی، وہی بہترین فیصلہ کرنے والے ہیں اور اللہ ہی کی کہی ہوئی بات سچی اور کھری ہے، وہ ہدایت یافتہ اور گمراہوں کو خوب جاننے والا ہے۔ پھر ذبیحہ سے متعلق احکام دیے گئے اور صرف اللہ کے نام پر کیا ہوا ذبیحہ حلال قرار دیا گیا۔ چناچہ کسی بھی قسم کی قربانی یا نذر و نیاز جو غیر اللہ کے نام پر کی جائے، حرام ھے۔
پھر فرمایا کہ مشرکین کے پاس کوئی بھی نشانی آجائے یہ ایمان نہیں لاتے بلکہ اپنے لیے نبوت طلب کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس منصب کا صحیح حقدار کون ہے۔ جس کو اللہ ہدایت دینا چاہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جس کو گمراہ کرنا چاہے اس کا سینہ تنگ کردیتا ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان کو یہ اختیار نہیں، بلکہ جس کے دل میں طلب ہو اس کے لئے اللہ تعالی ہدایت کا راستہ آسان کردیتا ہے۔ بصورت دیگر انسان کے لئے حق کا راستہ مشکل بنا دیتا ہے۔
۔ اس کے بعد ذکر کیا کہ جس دن یہ اٹھائے جائیں گے اپنے خلاف گواہی دیں گے، ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا جس کے یہ حقدار ہیں، اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتے، وہ بے نیاز و رحیم ہے۔
پھر ان کفار کے بعض غلط تصورات کا ذکر کیا گیا کہ یہ کھیتی اور چوپایوں میں اللہ کے ساتھ شریکوں کا حصہ بھی رکھتے ہیں، شرکاء کے حکم پر اپنی اولاد کو قتل کرتے ہیں، اپنی مرضی سے جانور حلال و حرام قرار دے لیتے ہیں، کچھ کو مردوں کے لیے خاص کرلیتے ہیں صرف عورتوں پر حرام کردیتے ہیں۔ یہ سب ان کے ذہن کی اختراع ہے، اس کا بدلہ اللہ ان کو دے گا، ایسا کرنے والے گمراہ اور ناکام ہیں۔ (پس ثابت ہوا کہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو حرام قرار دینا جرم ہے۔ حرام صرف وہی ہے جس کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے)
پھر فرمایا کہ اللہ نے ہی تمھارے لیے کھجور اور انگور کے باغات بنائے ہیں اور اسی نے تمھیں یہ چوپائے دیے۔ جو اللہ نے دیا ہے اس سے فائدہ اٹھاو، اس کا حق (زكاة) دو اور شیطان کی پیروی نہ کرو۔ بتایا گیا کہ مردار، خون، سور کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر کیا ہوا ذبیحہ حرام ہے۔ یہود کی سرکشی کے سبب ان پر اس کے علاوہ بھی کچھ چیزیں حرام کردی گئی تھیں۔سرکشی اور تکبر سختی کا باعث بنتا ہے۔ پھر فرمایا کہ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو کہ یہ محرمات جو تم نے گھڑے ہیں یہ اللہ کی جانب سے ہیں تو اپنے گواہ اور دلیلیں پیش کرو۔ نیز نبی کو خبردار کیا کہ آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔
اس کے بعد اسلام کے بعض احکام ذکر فرمائے: شرک سے بچو، والدین کے ساتھ احسان کرو، اولاد کو فقر کے ڈر سے قتل نہ کرو۔ اس میں اولاد کو زندہ درگور کرنا، پیدائش کے بعد قتل کرنا اور پیدائش سے پہلے قتل کرنا سب شامل ہے، ناحق کسی کی جان نہ لو، یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاو، ناپ تول میں کمی نہ کرو، عدل کرو چاہے اپنوں کے خلاف ہو، اللہ کے عہد کو پورا کرو اور صراط مستقیم پر چلو۔
پھر موسی علیہ السلام پر نازل شدہ کتاب اور اس کتاب ہدایت کا ذکر کرتے ہوئے اس کے اتباع کا حکم دیا، اور بتایا کہ اللہ کی آیات کی تکذیب کرنے والے سے زیادہ ظالم کوئی نہیں۔ کیا یہ ایمان لانے کے لیے اس دن کے انتظار میں ہیں جب غیبیات سامنے آجائیں گی، اس دن تو کسی کا ایمان لانا اس کو نفع نہیں دے گا۔ اس دن نیکی کا دس گناہ بدلہ دیا جائے گا اور برائی کا اس جتنا ہی۔
پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ واضح کردیں کہ میں سیدھے راستے اور ابراہیم کے دین پر ہوں، میری نماز، قربانی، جینا، مرنا سب اللہ کے لیے ہے۔ سب کو اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے، ہر کسی کو اپنے کیے کا بدلہ ملے گا، کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ آخر میں بتایا کہ اللہ نے تمھیں زمین میں خلیفہ بنایا اور امتحان کی غرض سے ایک دوسرے پر فضیلت دی۔ اللہ جلد سزا دینے والے بھی ہیں اور غفور رحیم بھی ہیں۔
یہاں سورہ انعام اختتام پذیر ہوئی اور سورہ اعراف شروع ہوئی، جس کا افتتاح قرآن مجید کے ذکر اور اس کی پیروی کے حکم سے ہوا۔ پھر فرمایا کہ ہم نے بہت سی بستیوں کو ہلاک کیا، اور جب بھی کسی بستی کو ہلاک کیا اس کے رہنے والوں نے خود اعتراف کیا کہ ہم ہی ظالم تھے۔ ظلم ہمیشہ تباہی اور بربادی کا سبب ہوتا ہے۔ اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا بلکہ انسان کے اپنے اعمال ہی اس کے انجام کا سبب بنتے ہیں۔ روز قیامت سب کے اعمال تولے جائیں گے، جس کے نیک اعمال کا پلڑا بھاری ہوا وہ کامیاب ہوگا اور جس کا ہلکا ہوا وہ ناکام ہوگا۔
پھر ابتدائے تخلیق کا ذکر کرتے ہوئے سیدنا آدم و ابلیس کا قصہ بیان کیا گیا۔ ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے، اسی نے آدم و حوا کو نافرمانی پر اکسایا تھا اور یہ تمھیں بھی سیدھے راستے سے ہٹانے کی کوشش کرے گا لہذا اس سے محتاط رہنا۔
پھر بنی آدم کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اللہ نے تمھارے لیے لباس نازل فرمایا ہے جو تمھارے ستر کو ڈھانپتا ہے اس کا خیال رکھنا اور تقوی کے راستے پر رہنا۔ (اللہ تعالی نے لباس کو زینت کا باعث بنایا ہے، اور زینت اسی میں ہے، بےلباسی کو زینت قرار دینا فطرت سے روگردانی ہے)۔ کفار کے متعلق بھی بتایا کہ یہ بے حیائی کے کام اس دعوے سے کرتے ہیں کہ یہ اللہ کا حکم ہے حالانکہ اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا۔
پھر بنی آدم کو مساجد (نمازوں میں) میں زینت اختیار کرنے کا حکم دیا، اور کہا کہ اللہ کی دی ہوئی طیبات میں سے کھاو پیو اور اسراف سے بچو۔ اس سے ثابت ہوا کہ نیک اور جائز کام میں بھی حد سے بڑھنا اسراف ہوتا ہے۔ یہ بھی واضح کیا کہ ابھی تو یہ نعمتیں سب کے لیے ہیں لیکن روز قیامت صرف مومنین کے لیے ہونگی۔
نیز یہ بھی بتایا کہ اللہ نے بے حیائی، شرک اور اللہ پر جھوٹ گھڑنے کو حرام قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ اللہ نے بنی آدم کو حکم دیا تھا کہ جب بھی میرا رسول آئے تو اس کی پیروی کرنا، جو ایسا کرے گا اس کو کوئی خوف و غم لاحق نہ ہوگا تاہم جو تکذیب کرے گا اس کے لیے آگ کا عذاب ہوگا۔
اس کے بعد اہل جہنم کا ذکر کیا کہ وہ ایک دوسرے پر لعنت کریں گے، اور ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرائیں گے۔ لیکن ان کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے یہ ہرگز جنت میں داخل نہیں ہوسکیں گے۔ جنت کی خوشخبری ان کے لئے ہے جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں۔ اہل جنت کے دل نفرت و کدورت سے پاک کردیے جائیں گے اور وہ اس میں اللہ کے شکر گزار ہونگے۔
اس کے بعد اہل جنت اور اہل دوزخ کی باہمی گفتگو کا تذکرہ کیا، جس میں یہ بھی بتایا کہ دوزخ والے جنتیوں سے پانی مانگیں گے لیکن ان کو انکار کردیا جائے گا۔
اس سب کے بعد فرمایا کہ تمھارا رب اللہ ہی ہے جس نے تمھارے لیے زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے سب پیدا کیا، سب اسی کے قبضہ قدرت میں ہے، وہی ہوا اور بارش بھیجتا ہے جس سے زمین پھل اگاتی ہے۔ لہذا وہی عبادت و دعا کا حقدار ہے۔
آخر پارے میں انبیاء کے قصے ذکر فرمائے کہ کس طرح انھوں نے دعوت دین میں دن رات ایک کردیے لیکن ان کی اقوام نے ان کو جھٹلایا، چنانچہ یکے بعد دیگرے سب کو اللہ کے عذاب نے آپکڑا اور اہل ایمان کو بچا کر سب ہلاک کردیے گئے۔ سیدنا نوح کے قصے سے ابتدا ہوئی، پھر ھود، اور صالح علیہم السلام کا واقعہ آیا جن کی قوم نے نہ صرف تکذیب کی بلکہ ان کے لائے ہوئے معجزے (اونٹنی) کو بھی مار ڈالا۔ پھر لوط علیہ السلام کا قصہ ذکر ہوا جن کی قوم بے حیائی میں عروج پر تھی اور اس کے سبب سخت عذاب کی مستحق ہوئی۔ پھر سیدنا شعیب جن کی قوم ناپ تول میں کمی کرتی تھی، (واضح ہوا کہ ناپ تول میں کمی کرنا کوئی معمولی چیز نہیں ہے، یہ اللہ کے غضب کو دعوت دیتی ہے)۔ ان کا قصہ شروع ہوا جس کا سلسلہ اگلے پارے تک جاتا ہے۔
ان تمام اقوام میں ایک بات کی مماثلت ملتی ہے کہ ان کے سرداروں اور امراء نے تکبر کیا، حق اور اللہ کے نبی کا مذاق اڑایا اور اس کی آیات کا انکار کیا جس کے سبب وہ دردناک عذاب سے دوچار کئے گئے۔ اللہ تعالی امت مسلمہ کو اس چیز سے محفوظ رکھے.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply