الفارابی/مبشر حسن

ابو نصر محمد الفارابی 870ء میں پیدا ہوئے۔ وہ ارسطوئی مسلمانوں میں سے ایک تھا۔ اسے استاد ثانی کا خطاب دیا گیا، استاد اول ارسطو تھا۔ ایک نسطوری عیسائی یوحنا این حیلان کے ساتھ مطالعہ کرنے کے علاوہ الفارابی نے بغداد میں ایک اور عیسائی گرو ابو بشریتے کے ساتھ ریاضی فلسفہ علم فلکیات اور موسیقی کا بھی مطالعہ کیا۔ متعدد دیگر مسلم فلسفیوں کی طرح الفارابی نے بھی طویل سفر کئے ، علمی مراکز میں گیا اور اپنے دور کے عالموں سے ملاقات کی۔ بغداد میں عرصے تک مقیم اور مصروف جدو جہد رہنے کے بعد الفارابی نے غالباً سیاسی مشکلات کے سبب سے حلب میں سکونت اختیار کی جہاں سیف الدولہ کا عظیم الشان دربار تھا۔ مگر اس نے اپنی زندگی کا آخری حصہ دربار میں نہیں بلکہ کنج عزلت میں گزارا۔

دسمبر 950ء میں اس نے دمشق کی جانب سفر کے دوران وفات پائی۔
اس کی عمر اسّی برس مشہور ہے، ممکن ہے وہ اس سے زیادہ عمر تک پہنچا ہو ۔ الفارابی کے ہم عصر اور ہم مکتب ابو بشریتے نے اس سے دس سال پہلے اور شاگرد ابو ذکریا یحییٰ ابن مدی نے 974ء میں 81 برس کی عمر میں وفات پائی۔ الفارابی کا فلسفہ اسلامی فکر میں افلاطون اور ارسطو کی تعلیمات کے درمیان مصالحت کرانے کی پہلی سنجیدہ کوشش پیش کرتا ہے۔ اسی مقصد کے تحت اس نے افلاطون اور ارسطو کے رسائل پر متعدد تفاسیر اور تشریحات تصنیف کیں۔ ان تفسیروں کے باوجود وہ منطق اور سیاسی فلسفہ پر اپنی کتابوں کی وجہ سے مشہور ہوا۔ اور منطق، اخلاقیات اور مابعد الطبعیات میں اس نے ارسطو کی تقلید کی، جب کہ سیاست میں افلاطون کو فوقیت دی۔ الفارابی کہتا ہے کہ تمام موجودہ مخلوقات واجب اور ممکن ہستیوں میں تقسیم ہیں۔

واجب ہستیاں خود اپنی خوبی میں موجود ہیں اور انہیں اس کے لیے خارجی علت کی ضرورت نہیں۔ ممکن ہستیاں وہ ہیں جو وجود میں تو آسکتی ہیں لیکن آتی نہیں اور انہیں وجود میں آنے کے لیے کسی خارجی علت کی ضرورت ہوتی ہے۔ الفارابی دلیل دیتا ہے کہ اگر کسی موجود چیز کی تمام اتفاقی (غیر ضروری) خصوصیات کو الگ کر دیا جائے تو اس کے جوہر میں باقی کیا بچے گا ؟ چنانچہ الفارابی کے خیال میں تمام اشیائے ہست ایک جوہر پر مشتمل ہوتی ہیں جن کے ساتھ وجود کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ صرف خدا کے لیے ہی جوہر اور وجود بالکل ایک ہیں۔ الفارابی کے مطابق دنیا کی آفرینش یا صدور ایک قدیم معقول کی حیثیت رکھتا ہے۔ خدا اپنا تصور کرتے ہوئے خود میں سے ایک عقل کا صدور کرتا ہے ، عقل اوّل۔ یہ عقل اوّل اپنے خالق کا تصور کرتی ہے تو افلاک کی عقل ثانی پیدا ہوتی ہے۔ لیکن جب عقل اوّل اپنی ذات کا تصور کر کے جوہر بن جاتی ہے تو اس سے اجسام اوّل، یعنی سب سے اونچے افلاک پیدا ہوتے ہیں۔ اور اسی طرح یہ سلسلہ سب سے نچلے فلک یعنی قمر تک آتا ہے۔ سب افلاک مل کر ایک سلسلہ بناتے ہیں جو کہیں سے معطل نہیں، کیونکہ تمام موجودات میں وحدت ہے۔ دنیا کی آفرینش اور بقاء ایک ہی چیز ہے۔ کائنات میں نہ صرف ذات الٰہی کی وحدت کی نقل موجود ہے بلکہ اس کی خوشنما تر تیب میں عدل الٰہی کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔

عقول کے بارے میں ارسطو کے بیان کی اپنے انداز میں تعبیر کرنے والا الفارابی دلیل پیش کرتا ہے کہ ارسطو چار مختلف عقول میں یقین رکھتا تھا۔ مخفی عقل جو انسانی نفس کی استعداد فکر ہے عقل فی  الحقيقت جو قابل محسوس طبیعی دنیا میں ہے: اکتسابی عقل، جو اس کے خیال میں تب حاصل ہوتی ہے جب عقل فی الحقیقت قابل محسوس کا تصور کرتی ہے اور سب سے آخر میں عقل فاعل جو سوچنے کی علت ہے۔

الفارابی اسلام کا شاید سب سے بڑا منطقی ہے۔ وہ تمام ارسطوئی ”نظام منطق“ ‏(Organon) پر ایک وسیع تر تنقید اور تجزیہ کرتا ہے۔ اسکا قیاسی تخفیف کے اصولوں کا تجزیہ اور فرضی و انفعالی قیاسات ( یعنی تردیدی حروف عطف مثلاً لیکن —- بلکہ —- تاہم —- یا اور نہ ہی) پر اصرار استقراء پر بحث اور دلائل میں تمثیل کے ذریعہ درجہ بدرجہ قیاسیت کا استعمال منطق میں اس کی بہت بڑی شراکت داری ہے۔ ان اہم شراکتوں کے علاوہ اس نے مستقبل کے احتمالات اور آئندہ واقعات کے تعین پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی۔ بعد از الفارابی مسلمان منطق دان اس کے زیر اثر رہے، حتیٰ کہ اس کے خیالات کو جوڑنے توڑنے اور ان پر تنقید کرنے والوں نے بھی اکثر اس کی نظروں سے ارسطو کو جانا۔ واضح ترین مثال ابن سینا ہے جو منطق پر الفارابی کے خیالات سے بہت زیادہ متاثر تھا۔ الفارابی کو یقین تھا کہ صرف ایک ہی بنیادی مذہب ہے اور مختلف دیگر مذاہب اس کی ظاہری صورتیں ہیں۔ تمام مذاہب کی صداقت کی توثیق کرتے ہوئے الفارابی کہتا ہے کہ ہر مذہب اپنے مخصوص ماحول میں قابل اطلاق ہے۔ لوگوں کو ان مذاہب کا تنوع نہیں بلکہ اس امر سے لا علمی ایک دوسرے سے الگ الگ کرتی ہے کہ تمام اشخاص حقیقت کے مختلف میدانوں اور روحانی ترقی کے مختلف مدارج میں خدا کی تجسیم ہیں۔

الفارابی کے خیال میں انسان میں معاشرتی زندگی کے لیے اشتیاق موجود ہوتا ہے اور اسے صرف ریاست کے اندر ہی مسرت حاصل ہوتی ہے۔ افلاطون کی پیروی میں الفارابی کا بھی یقین ہے کہ لوگ صرف اور صرف اسی صورت میں خوش ہو سکتے ہیں۔ جب وہ اپنی تخلیق کے وظائف پورے کریں۔ چونکہ انسان اپنی استعداد کار میں بالکل مساوی نہیں ہوتے۔ لہٰذا یہ یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو وہ مقام دے جہاں ان کی حقیقی فطرت کا بہترین استعمال ہو سکے۔

ری پبلک“ میں جس طرح افلاطون نے کہا اسی طرح الفارابی اپنی مثالی ریاست کو انسانی جسم کے نمونے پر ایک فطری ماڈل کے طور پر پیش کرتا ہے، جس میں ذہن روح اور جسم پر مشتمل سلسلہ مراتب موجود ہے۔ اس سلسلے میں ارفع ترین سطح۔۔۔۔ذہن —- زیریں سطحوں  پر غالب ہونے اور ہم آہنگ بنانے کا قدرتی حق رکھتی ہے۔ بالکل اسی طرح حکومت میں پیغمبر اپنی الوہی دانش کے ذریعہ حکومت کرتا ہے۔ اچھی ریاست ایک فطری ریاست ہوتی ہے اور یہ صرف خوش رہنے کی چاہت میں انسانوں کے لیے فطری ہے۔ اس لیے الفارابی کے خیال میں اپنے شہریوں کو خوشی کی ضمانت دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس نے مسرت اور اس کو حاصل کرنے کے موضوع پر بہت زیادہ بات کی۔

الفارابی کے مطابق مسرت کی فطرت کی تین متبادل تفسیریں ہیں : مسرت بطور خالصتاً فطری کار گزاری مسرت بطور عملی کار گزاری اور مسرت نظری و عملی کار گزاری کے ہم آہنگ امتزاج کے طور پر ۔ نظری کمال کو عملی کمال کا ماخذ قرار دیتے ہوئے الفارابی نتیجہ پیش کرتا ہے کہ نظریہ کاملیت کو حقیقت کا روپ دینا فلسفے کا ہدف ہے۔ اس مطابقت میں الفارابی کہتا ہے کہ نظری اور عملی استدلال کی مفاہمت کے ذریعہ ہی انسانی کاملیت کا حتمی مقصد پورا ہوتا ہے۔

الفارابی نے مسرت کا عملی مافیہ ایک اخلاقی فطرت، سچی مسرت کی ذاتی کار گزاری کے طور پر پیش کیا، جو اس کے خیال میں صرف معاشرے کے سیاق و سباق کے اندر رہتے ہوئے ممکن ہے۔ لہٰذا الفارابی نے ایک کامل سیاسی نظام اور اعلی ترین حکمران کی ضرورت پر زور دیا جس کا راستباز کردار شہریوں پر مسرت نچھاور کر سکتا ہے۔ الفارابی کے خیال میں منطقی استعداد کی مکمل ترقی اور فلسفیانہ غور و فکر کے ذریعہ سچائی کا حصول مقصد حیات ہے۔ ایسا صرف ان با نظم معاشروں میں ہی ممکن ہو سکتا ہے جن پر عادل حکمران مقتدر ہوں۔

تاہم عملی قوانین صرف نظری دانش کے ذریعہ ہی بنانا ممکن ہیں۔ اخلاق صرف اس ریاست میں مکمل ہو سکتا ہے جو محض سیاسی ادارہ نہیں بلکہ مذہبی جماعت بھی ہو۔ ریاست کی حالت پر نہ صرف اس کے موجودہ باشندوں کی قسمت کا انحصار ہے بلکہ آئندہ کا بھی۔ ”جاہل ریاست میں باشندوں کے نفس عقل سے محروم رہتے ہیں اور صورتوں کی حیثیت سے فنا ہو کر عناصر میں مل جاتے ہیں تاکہ نئے سرے سے دوسرے انسانی جسموں میں اپنا گھر بنا ئیں۔ خاطی اور بد ” ریاست میں ساری جواب دہی صرف حکمران کے سر ہے۔ آخرت میں عذاب الٰہی اس کا منتظر رہتا ہے۔ اور جن روحوں کو حکمران نے خطا میں جتلا کر دیا ہے ان کا بھی وہی انجام ہوتا ہے جو ”جاہل“ ارواح کا ۔ بقاء صرف نیک اور دانا ارواح کو ہے اور وہی خالص عقل کی دنیا میں داخل ہوتی ہیں۔ زندگی میں ان کے علم کا پایہ جس قدر بلند ہو اتنا ہی بلند مرتبہ ان کو مرنے کے بعد وجود کلی کے مدارج میں حاصل ہو گا۔

اب اگر اہم الفارابی کے نظام پر مجموعی نظر ڈالیں تو وہ ایک مدلل نظام روحانیت ہے: بلکہ زیادہ صحیح نام اس کے لیے عقلیت ہے جسمانی اور محسوس چیزوں کا مبداء عقل کا تخیل ہے۔ اسے تصور بھی کہا جا سکتا ہے۔ حقیقی وجود صرف عقل کا ہے، لیکن اس کے مختلف مدارج ہیں۔ بسیط صرف خدا کی ذات ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

الفارابی ذہنی دنیا میں ابدی حقیقت کی خاطر زندگی بسر کرتا تھا۔ یہ اقلیم عقل کا بادشاہ مال دنیا کے اعتبار سے فقیر تھا۔ وہ اپنی کتابوں اور اپنے باغ کے پھولوں اور پرندوں میں مگن رہا کرتا تھا۔ ہم وطنوں اور عام مسلمانوں کی نظر میں اس کی وقعت بہت کم تھی۔ وہ عقل محض کے مجرد تصور میں محو ہو کر رہ گیا تھا۔ ساتھی اسے ایک متقی اور مقدس شخص سمجھ کر اس کے ثناخواں تھے۔ بعض شاگرد اسے مجسم توانائی جان کر اسکے پرستار تھے۔ جس طرح فلسفہ طبیعی کو بگاڑ کر لوگوں نے ایک پر اسرار علم بنا دیا اور جس طرح الکندی کا حلقہ فلسفے کو چھوڑ کر ریاضی اور علوم طبیعی کا ہو رہا اسی طرح الفارابی کے منطقی حلقے نے لفظی فلسفے کو اختیار کر لیا۔ موضوع بحث صرف تصورات کا تعین کرنا اور بال کی کھال اتارنا رہ گیا تھا۔ جس چیز کو الفارابی اپنی حکمت کی جان سمجھتا تھا وہ اس جماعت کے لیے محض دلچسپ علمی گفتگو کا موضوع ہوتی تھی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply