اپریل فول مُردہ باد۔ مخالفت کرو بھائی مخالفت۔ جھوٹ بولنے کی مخالفت ہونی چاہیئے۔ یہ مغربی ثقافت کی کثافت ہے۔ انگریزوں کی نقالی مت کریں۔ ایسے جملے آپ نے بھی سُنے ہونگے۔ میں بھی ہر سال سُنتا ہوں، لیکن ایک بات میری سمجھ سے باہر ہے۔ وہ ایک بات بڑی توجہ طلب ہے۔ بات چھوٹی سی ہے، لیکن پھر بھی ہے سمجھ سے باہر۔ بات یہ ہے کہ مجھے دال میں کچھ کالا نظر آرہا ہے۔ بھائی! اگر ایک رشوت کھانے والا شخص رشوت خوری کے خلاف بھاشن دے تو آپ اُس کی بات پر یقین کرنے کے بجائے فوراً چوکنّے ہو جائیں گے۔ بالکل اسی طرح اگر کسی دن ایک شراب فروش، شراب فروشی کے خلاف تقریریں کرنے لگ جائے تو آپ حیرت میں ڈوب جائیں گے۔ یا یوں سمجھ لیجئے کہ ایک مشہورِ زمانہ اور بدنامِ زمانہ بجلی چور اگر کسی روز بجلی چوروں کے خلاف نعرے لگاتا ہوا روڈ پر آجائے تو آپ اپنے اِرد گرد کے لوگوں سے یہ پوچھنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ بھائیو! مسئلہ کیا ہے۔؟ بالکل ایسے ہی ہر سال جونہی میرے میٹھے میٹھے اسلامی بھائی اپریل فول کے خلاف اپنی توپوں کے دہانے کھولتے ہیں تو میرے جیسے بھولے بھالے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ایک دم سے ان پیارے پیارے اور میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں کو کیا ہو گیا۔؟
بلاسفیمی Blasphemy کے جھوٹے مقدمات سے لے کر کرپشن کے سچے مقدمات تک تو ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ قارئین کی نازک طبیعت پر ناگوار نہ گزرے تو عرض کرتا چلوں کہ سچ بولنا تو درکنار ہمارے لئے سچائی کا جاننا، سُننا اور سچائی کا سامنا بھی بہت مشکل ہے۔ 1986ء سے 2010ء کے زمانے کو ہی لیجئے۔ اس دورانئے میں 1274 افراد پر بلاسفیمی کے مقدمات درج ہوئے۔ سچائی کے ٹھیکیداروں نے ان میں سے 51 افراد کو مقدمات کی سماعت کے دوران ہی ٹھکانے لگا دیا۔ جن لوگوں پر یہی الزام لگا کر اُنہیں اجتماعی طور پر اُن کی عبادت گاہوں میں قتل کیا گیا یا انہیں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا، اُن کا تو حساب ہی نہیں۔ اپریل فول کے اس مخالف سماج میں جہاں بھی جو کسی ضابطے، اصول، قانون یا شعور کی بات کرتا ہے، اُسے مشال خان یا پریانتھا کمارا کی طرح نشانِ عبرت بنا دیا جاتا ہے۔
اسی طرح سرکاری وردی میں ملبوس سرکاری حضرات کے کارنامے بھی کبھی کبھار بھول چوک سے میڈیا کی زینت بن ہی جاتے ہیں۔ جیسے سانحہ ساہیوال اور ذہنی معذور صلاح الدین جیسے افراد کا قتل، اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ہم اپنے ملک و آئین کی پاسداری نیز قومی اور پیشہ وارانہ امور میں کتنے سچّے ہیں۔ اسی طرح کرپشن کے خلاف ہماری سچائیاں تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ساری دنیا میں سزا یافتہ، کرپٹ اور خائن افراد سے نفرت کی جاتی ہے جبکہ ہمارے ہاں اُنہیں قانون کے زمزم سے دھو دھو کر پاک کرنے کے بعد مسندِ اقتدار پر بٹھا یا جاتا ہے۔ ہمارے جیسے سچے لوگوں کے مُلک میں آپ جرنیلوں کا احتساب کیا کریں گے، یہاں تو کسی مدرسے کے مولوی صاحب کا آڈٹ بھی نہیں کیا جا سکتا۔
ہمارے سچا ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ بڑی بڑی شاندار مساجد، دینی مدرسوں اور فلاحی اداروں والے اس ملک میں جہاں سب سے زیادہ فطرانہ، خمس، زکواۃ، عطیات، صدقات اور قربانی کی کھالیں جمع ہوتی ہیں، وہاں غربت اور فقر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اکثر عطیات و صدقات کا خرچ فقراء کے بجائے، صدقات جمع کرنے والوں کی تنخواہوں اور اُن کی گاڑیوں کے پٹرول پر ہوتا ہے۔ کبھی زکواۃ و خیرات اور خمس جمع کرنے کے بعد جمع شُدہ خزانے پر مختلف بہانوں کے ساتھ کُنڈلی مار کر بیٹھے ہوئے سانپوں کی فہرست تو بنائیے۔ ایسی فہرست بنانا ہی ناقابل معافی جرم ہے۔ جو ایسی فہرست بنائے گا، اُسے کوئی نہ کوئی شیش ناگ ڈس لے گا۔ یاد رکھئے جسے شیش ناگ ڈس لے، وہ پانی بھی نہیں مانگتا۔
ہمارے ہاں کسی ادارے سے سکالرشپ کیلئے یتیم، سفید پوش، ضرورت مند یا نادار ہونے کے بجائے، بچے کیلئے ارسطو ہونا ضروری ہے۔ سکول میں بچے کے نمبر کم ہونگے تو سکالر شپ بھی نہیں ملے گا۔ یعنی جس کے نمبر کم آئیں، وہ ضرورت مند بھی نہیں اور اُس کی ضروریاتِ زندگی بھی نہیں۔ اسی طرح بیواوں، ناداروں اور مریضوں کی امداد کے نام پر جو ادارے کچھ کرنے کے دعوے دار ہیں، ان کے پمفلٹس پڑھنے کے بجائے اُن کے کام کا کبھی خاموشی سے جائزہ لے کر تو دیکھئے۔ جائزہ خاموشی سے ہی لیجئے۔ خواہ سانحہ راجہ بازار کا جائزہ ہی کیوں نہ ہو۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ ہمارے مولوی بھائیوں کو صرف اپریل فول سے ہی چِڑ کیوں ہے۔ 2013ء کا سانحہ راجہ بازار کیا اپریل فول سے زیادہ بھیانک جھوٹ نہیں کہ جب ایک فرقے کے مولویوں نے دوسرے فرقے کو بدنام کرنے کیلئے اپنے ہی فرقے کے متعدد لوگوں کو قتل کر دیا تھا۔۔۔
کیا یہ واقعہ بھی اپریل فول سے کم ہے کہ جب اسلام آباد کے ایک نواحی علاقے میں ایک کم سن لڑکی رمشا مسیح پر ایک امام مسجد حافظ محمد خالد چشتی نے قرآن مجید کی بے حرمتی کا مقدمہ دائر کرایا۔ عدالت میں کیس چلا تو یہ عقدہ بھی کھلا کہ نعوذ باللہ قرآن مجید کو نذرِ آتش کرنے کا یہ عظیم کارنامہ بنفسِ نفیس امام مسجد حضرت مولانا حافظ محمد خالد چشتی نے خود انجام دیا تھا۔ ایسے کتنے ہی ان گنت واقعات ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے موجود ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اپریل فول کی مخالفت نہ کیجئے، اپریل فول کی مخالفت بھی کیجئے، اسے بُرا بھلا بھی کہیے، لیکن یاد رکھئے کہ کبھی کبھار ہم اُن لوگوں سے بھی زیادہ بُرے ہو جاتے ہیں، جنہیں ہم ساری زندگی بُرا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ شاید ہمارے ہاں اپریل فول کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہو رہا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں