پیالی میں طوفان (59) ۔ ٹائی ٹینک اور مواصلات/وہاراامباکر

برطانیہ کی بندرگاہ سے دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز اپنے پہلے سفر کے لئے امریکہ کی طرف روانہ ہوا۔ 15 اپریل 1912 کی رات آئس برگ سے تصادم ہوا۔ اس سے تین گھنٹے بعد یہ جہاز مکمل طور پر سمندر میں غرق ہو چکا تھا۔ وائرلیس آپریٹر جیک فیلپس اس دوران مسلسل مدد کے پیغامات بھجواتے رہے۔ 1517 لوگوں کے لئے یہ ان کی زندگی کا آخری سفر تھا لیکن 706 لوگوں کو آر ایم ایس کارپینتھیا کی بروقت آمد نے بچا لیا۔ اس پوری کہانی پر بہت سے کہانیاں، فلمیں، مضامین، سائنس اور سیاست کے سبق موجود ہیں لیکن ابھی بات صرف مواصلات کے حوالے سے۔

Advertisements
julia rana solicitors

معلومات پہنچانے اور وصول کرنے کا ہمارا اپنا طریقہ لہروں سے ہے۔ روشنی سے ہم دیکھتے ہیں جو الیکٹرومیگنیٹک ویوز ہیں۔ آواز سے ہم سنتے ہیں جو مکیینکل ویوز ہیں۔ الیکٹرومیگنیٹک ویوز کیا ہیں، ان کے لئے نیچے لنک میں دی گئی پوسٹ دیکھ لیں۔ ہم اپنی حسیات سے ان میں سے بڑے چھوٹے سپیکٹرم کو ڈیٹیکٹ کرنے کے قابل ہیں لیکن آلات کی مدد سے ہم اس سپکیٹرم کی دوسری فریکوئنسیز کے ذریعے معلومات بھیج سکتے ہیں اور پھر اس سے مطلب نکال سکتے ہیں۔ جس محدود سپیکٹرم میں ہم دیکھتے ہیں، اس کے ساتھ مسئلہ یہ کہ زمین کی گولائی کی وجہ سے اس کی پہنچ محدود ہے۔ ہماری فضا کا آئینوسفئیر ایک رینج کی فریکوئسی کو منعکس کر دیتا ہے جس کی وجہ سے ہم ان کو بہت دور تک بھجوا سکتے ہیں۔ یہ رینج ریڈیو سپیکٹرم کی ہے۔ فیراڈے نے پہلی بار اس فیلڈ کو دریافت کیا۔ میکس ویل نے الیکٹرومیگنیٹزم کی تھیوری دی، ہرٹز نے 1888 میں اس کو تجرباتی طور پر ثابت کیا جبکہ مارکونی نے پہلی بار ان کے ذریعے وائرلیس ٹیلی گرافی کا کامیاب آغاز 1894 میں کیا۔
ٹیلی گرافی کے اس نظام سے قبل بحری جہازوں کے ایک دوسرے سے رابطے کا ذریعہ اونچی آواز اور فلئیر چھوڑنے کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا۔ اگر یہ جہاز بیس برس پہلے ڈوبتا تو شاید ایک ہفتے تک کسی کو اس حادثے کی خبر بھی نہ ہوتی۔ اس مواصلاتی نظام کے بغیر 706 لوگوں کا بچنا ناممکن تھا۔
حادثے سے پندرہ منٹ قبل ایک اور جہاز کیلیفورنین نے ٹائی ٹینک کو اس علاقے میں موجود آئس برگ کے خطرے کا پیغام بھجوانے کی کوشش کی۔ اس حادثے کے وقت وائرلیس ٹیکنالوجی ابتدائی سٹیج پر تھی اور اس کے طریقے کو سپارک ریڈیو ٹرانسمشن کہا جاتا تھا جس میں چینلز کا تصور نہیں تھا اور ایک ساتھ پیغامات نہیں بھیجا جا سکتے تھے اور ان کو پڑھنا بھی آسان نہیں تھا۔ کیلیفورنین کا بھیجا پیغام ٹائی ٹینک نے وصول نہیں کیا۔ اس نظام کے محدود ہونے کی وجہ سے اور سسٹم کے امیچئور ہونے کی وجہ سے ان کو بھی مدد کے لئے بھیجا پیغام نہیں پہنچ سکا۔ اگر یہ حادثہ بیس برس بعد ہوتا تو پھر بہتر نظام کی وجہ سے شاید 1517 لوگوں کی زندگیاں بھی بچ سکتیں۔
اس رات سمندر پر صرف ریڈیو ویوز سے رابطہ نہیں کیا جا رہا تھا۔ ٹائی ٹینک نے یہ رابطہ روشنی سے کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔ آفت پڑھنے پر روشن کئے جانے والے flare اور مورس لیمپ استعمال کئے گئے۔ لیکن ریڈیو ویوز دور تک جا سکتی ہیں۔ ایسا کیوں؟ اس کی وجہ ہماری فضا کی خاصیت ہے۔ بالائی تہہ (آئینوسفئیر) ریڈیو ویوز کے لئے جزوی طور پر آئینے کا کام کرتی ہے۔ شعاعیں اس سے ٹکرا کر واپس آتی ہیں اور اس وجہ سے ہماری دنیا کی گولائی کے ساتھ ساتھ دور تک جا سکتی ہیں۔ دکھائی دی جانے والی روشنی کے لئے آسمان پر ایسا کوئی آئینہ نہیں ہے۔
جیک فلپس اس رات آسمان کو ریڈیو ویوز کی نبضوں سے بھرتے رہے۔ جہاز اپنی پوزیشن کو نشر کرتا رہا جب تک وائرلیس کا کمرہ پانی سے نہ بھر گیا۔ فلپس اس رات زندہ بچنے والوں میں سے نہیں تھے۔ لیکن بچ جانے والے 706 لوگوں نے دنیا کو بدلتے دیکھا۔ ریڈیو ویوز کے خاموش سپیکٹرم سے ہر وقت نظر نہ آنے والی لہروں پر دوڑتی بھاگتی انفارمیشن۔
اور اب دنیا کا کوئی ایسا حصہ نہیں جو ان چھوا رہ گیا ہو۔ اور اس نے تمام عالمی انسانی تہذیب کو ایک دوسرے سے مربوط کر دیا ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply