کالے کرتوت والے کالےحاکم/ناصر خان ناصر

برصغیر کی غیر منصفانہ تقسیم پر اتنی قیامت ہرگز نہ ٹوٹتی اگر اسے منظم طریقے سے کروایا جاتا۔ انگریزوں نے ملک چھوڑ کر جاتے جاتے برصغیر کے لوگوں سے اپنی حزیمت کا بھاری انتقام لیا اور جان بوجھ کر اتنی قتل و غارت ہو نے دی۔ دراصل اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی میں ہندو سکھ مسلم اتحاد کو دیکھ کر انگریزوں نے لڑاؤ بھڑاؤ  اور حکومت کرو کی پالیسی اختیار کی تھی۔ وہ لوگ تیل اور تیل کی دھار دیکھنے کے عادی تھے۔ ملک کو دو لخت کر کے جاتے جاتے بھی غیر منصفانہ تقسیم سے ہر جگہ فساد کی ایسی جڑیں بو گئے کہ پچھتر برس گزر جانے کے باوجود نہ نفرتیں ختم ہوئی ہیں نہ کدورتیں۔

انگریزوں نے تقسم کے وقت کشمیر، جونا گڑھ، حیدرآباد کے علاوہ مزید زیادتی یوں کی کہ پنجاب میں گرداسپور کو پہلے پاکستان میں شامل کر کے اچانک اسے ہندوستان کو دے دیا گیا۔ اس ایک علاقے ہی میں مسلمانوں کو بہت بھاری جان و مال کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔

انگریز جہاں اپنا مفاد دیکھتے ہیں، وہاں ان کی انضباتی و انتظامی سرگرمیاں نظم و ضبط کا شاہکار ہوتی ہیں۔ ڈیڑھ سو سال سے زائد انھوں نے برصغیر میں شیر و بکری کو شیر و شکر کر کے ایک گھاٹ پر  پانی پلائے رکھا۔ بس جاتے جاتے ڈنڈی مار کر اپنے انتقام کی آگ کو سرد کرنے کا سامان کر گئے اور کچھ ایسا ویسا۔۔ کہ باہمی نفرت اور دشمنی کی یہ آگ ابھی تک بھڑک رہی ہے۔

ایک اور ظلم انھوں نے یہ بھی کیا کہ آزادی کے فوراً بعد پہلے جنرل فرینک والٹر میسروی اور پھر جنرل ڈگلس گریسی دونوں پاکستان کی فوج کے کمانڈر ان چیف رہے۔ ان کے زیر نگرانی فوج کو ایسی ٹرینگ دی گئی کہ فوج خود کو ہر شئے، سیاست، ادارے اور حکومت سے بالا تر سمجھنے لگ گئی۔

ان دونوں جنرلوں نے قائد اعظم کے کشمیر کے متعلق جاری کردہ احکامات ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ آزاد ملک پاکستان میں انگریزوں کے تعزیرات ہند کے نام سے لاگو ہونے والے غیر منصفانہ قوانین ہماری حکومتوں نے جوں کے توں رکھے تھے اور ان میں آج تک کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں کی گئی ۔

انگریز حاکم اپنی گوری چمڑی کے زعم میں خود میں اور محکوم قوموں میں بہت فاصلہ رکھنا ضروری سمجھتے تھے۔ ان کے جانے کے بعد کالی چمڑی والی افسر شاہی نے نہ صرف ان کی جگہ لے لی بلکہ ان جیسی رعونت، رعب داب، اکڑ فوں اور شان و شوکت بھی قائم رکھی۔ عوام کو اچھوت سمجھ کر ان سے ہاتھ ملانے اور ان کی عرض و غرض سن لینے سے بھی قاصر رہے۔ آج تک پاکستان کے منتخب سی ایس پی خواتین و حضرات کو انتہائی برتری سے عوام سے دور رہنے اور فاصلہ رکھنے کے اسباق انگریزوں کے وقتوں ہی کی طرح پڑھائے جاتے ہیں۔ اس طرح ایک ہی قوم ہونے کے باوجود یہاں “وی آئی پی” اور “وی وی آئی پی” کلاس سسٹم پیدا کر کے ملک میں طبقاتی حدود بنا دی گئی ہیں۔ اب ایک ہی ملک کی سرحدوں میں صرف دو طرح کے لوگ بستے ہیں، حاکم اور محکوم۔

کسی اور ملک میں ایک ہی قومیت سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں اتنی منافرت، فاصلے، اخلاقی و سماجی اور مالی تفرقہ بندی ہرگز ہرگز نہیں ہوتی۔ یہ شاخسانہ انگریز جاتے جاتے برصغیر کو کسی کینسر کی طرح یوں دے گئے تھے کہ اب اس سے چھٹکارہ حاصل کر کے شاہراہ ترقی پر گامزن رہنا ایک مشکل امر بن چکا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان ایک نہایت غریب ملک ہے جو اپنی معاشرتی بقا کے لیے بے حد بُری اور خطرناک شرائط پر بڑی طاقتوں سے قرضہ جات لے کر ہی زندہ ہے۔ بدقسمتی سے عوام کے نام پر حاصل کیے گئے یہ تمام کے تمام قرضے فوج، عدلیہ، افسر شاہی بنا ڈکار لیے ڈکوس لیتی ہے اور عوام کو بنیادی ضروریات مہیا کیے بنا یہ وی آئی پی طبقہ ایسی عیش و عشرت والی زندگی بسر کرتا ہے جس کی نظیر ترقی یافتہ ممالک میں بھی کہیں نہیں ملتی۔ پاکستانی عدلیہ، فوج اور افسر شاہی کو مفت میں میسر آنے والی قابل رشک مراعات دنیا کے کسی اور ملک میں ایسے عہدہ داروں کو کہیں بھی میسر نہیں ہیں۔ یہ خون آشام جونکیں ہماری معاشرت کا لہو چوس کر اسے کنگال کرنے پر ہرگز شرمندہ نہیں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply