دہقان کا نوحہ/مسلم انصاری

ہاں یہ ٹھیک ہے کہ ابھی یونیورسٹیوں میں پھانسی چڑھی لڑکیوں کے کیس حل نہیں ہوئے ہیں،
یہ بھی درست ہے کہ ابھی بلوچستان کے جوان گم شده لڑکے گھروں کو واپس نہیں لوٹائے گئے،
تم جانتے ہو کہ ابھی سندھ میں لسانی تعصب کی مارا ماری کا حل نہیں نکلا ہے،
تمہیں خبر ہے کہ ابھی کم سن بچوں، بچیوں کی شلواروں پر خون کے دھبوں کی بو نہیں مِٹی ہے،
ہاں ! ابھی گھروں میں ملازموں پر لاٹھی چارج کا شور ختم ہونے میں وقت لگے گا،
ہمیں دکھ ہے کہ ابھی تک خواجہ سراؤں کا عالمی فیصلہ بیچ میں پھنسا ہوا ہے،
ہاں یہ بھی کرب ہے کہ ابھی ہر طرح کے انصاف کی رپورٹ آنا باقی ہے،
تمہیں بھی علم ہے کہ ابھی تک پچھلی بھک مری کا فقط نوحہ ہی لکھا گیا ہے،

مگر کیا تم جانتے ہو گھر کیسے گرتا ہے؟
بالکل ایسے ہی جیسے طلاق سے بچنے کے لئے بچہ جننے والی عورت کا حمل ضائع ہوجائے۔۔

اب تمہیں کیا معلوم فصل کیسے گرتی ہے؟
یوں سمجھو جیسے تندور میں لگی دنیا کی آخری روٹی نکالتے وقت چھوٹ جائے پھر آگ پر گِر کر بھسم ہوجائے،

کیا تمہیں معلوم ہے؟
اولوں کی بارش یا سیلابی ریلا کسی فاتح حکمران کی طرح قلعے میں داخل ہوتا ہے

مگر
تمہارے گھر تو پکے ہیں
تمہیں پانی سے کیا خطرہ
تمہاری تو بلند فصیلیں سالہاسال بارش برداشت کر سکتی ہیں ایسے ہی جیسے کسی امیر انسان پر چلا ہوا مقدمہ ہو،
تم نے بس مناظر میں لاشیں دیکھی ہیں اور ہم ۔۔۔ پورے کنبے پر رونے والا ایک ہی بچہ بچا سکے تھے،

سنو!
ہم کاشتکار ہیں
ہم کسان اور ہاری ہیں
ہم نے ہی خداوند قدوس کے حکم پر تمہارے لئے بیج بوئے اور روٹی پیدا کی،
اس کام کے لئے ہم تمہاری شور بھری شہری دنیا سے دور رہے پھر جب باڑ آئی ہم بہہ گئے تھے،

کیا تم بھول گئے کہ ہم تمہارا اناج ہیں؟
کیا ہم تمہارا چولہا نہیں؟
یا ہم نے تھاپیوں سے ایندھن نہیں نکالا؟
کیا یہ سچ نہیں کہ کچے گھروں کی بنیادیں ڈھیر ہوتی ہیں اور پکے گھروں کو بارش نکھار کر سنوار دیتی ہے؟
کسان کی فصل نہیں سال بھر کا پیٹ اور نوالہ مرتا ہے!

سنو
ہم کھیت کھلیانوں کے محافظ اور اناج کے خالق ہیں
ہم عہدوپیماں فروش سیاستدان نہیں
منبر و محراب پر چڑھے مذہب کے بیوپاری نہیں
ہم دہقان، گاؤں میں پلے بڑھے یہ بات تو جانتے ہی ہیں کہ
چیخ کرسی کی ہے
سارا واویلا پگڑی اور ناک کا ہے
بھوک سے زیادہ ماتم ووٹ پر منحصر ہے
بھیڑ لاش سے زیادہ ایوانوں کے قریب ہے
اور یہاں تمہاری روٹی خطرے میں ہے
تمہارے لئے وہ امراء نوالے نہیں لائیں گے جنہوں نے سالہاسال کا ذخیرہ آنلائن خرید رکھا ہے
ہمارا نہیں تمہارا اناج خطرے میں ہے!!

نوٹ :
یونیسف، الخدمت، جے ڈی سی اور جانے کتنے ہی فلاحی ادارے اور لوگ گزشتہ برس میں آئے سیلاب متاثرین کی مدد کے لئے اب تک کوشاں ہیں
(دِلوں کا حال اور اجر خدا کے ہاتھ میں ہے)
بلوچستان و پنجاب میں ان دو دنوں میں بارش کے ساتھ پڑنے والے اولوں نے ساری کھڑی فصل تباہ کردی ہے
ہاری و دہقان مررہا ہے
اور اب عید قریب ہے
اس کی فصل اجل لے گئی ہے
اس کا گھر ڈھے  گیا ہے
اس کے بچے معصوم سوالات لئے کھڑے ہیں
کوشش کیجئے اس بار تین نئے عید کے جوڑوں کی جگہ ایک سی کر باقی دو سوٹوں کی رقم ڈونیٹ کردیں
آس پاس کے سفید پوش کی جیب میں امداد و حسنِ سلوک انڈیل کر وہاں سے اپنے لئے سکون و آخرت اچک لیں!

Advertisements
julia rana solicitors london

بس اتنا ہی پیغام ہے
آپ سبھی انسان محبت ہیں
محبت لے لیجیے بانٹ دیجیئے!

Facebook Comments

مسلم انصاری
مسلم انصاری کا تعلق کراچی سے ہے انہوں نے درسِ نظامی(ایم اے اسلامیات) کےبعد فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی پہلی کتاب بعنوان خاموش دریچے مکتبہ علم و عرفان لاہور نے مجموعہ نظم و نثر کے طور پر شائع کی۔جبکہ ان کی دوسری اور فکشن کی پہلی کتاب بنام "کابوس"بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ مسلم انصاری ان دنوں کراچی میں ایکسپریس نیوز میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply