اُمِّ فیصل (4)-مرزا مدثر نواز

ابراہیم کی تیسری شادی طے پانے اور سادگی سے نکاح ہونے تک‘ ابراہیم کے بھائیوں اور بھتیجوں کی طرف سے کوئی خاص مزاحمت نہ ہوئی۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ابراہیم کے باپ بننے کی امید والی خبر جونہی خاندان میں پھیلی تو گھر میں ایک طوفان برپا ہو گیا‘ گھریلو ناچاقی روز بروز بڑھنے لگی اور معمولی معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑے روز کا معمول بن گئے۔ وقت اپنی رفتار سے گزرتا رہا اور ایک دن ابراہیم و ہاجرہ کے آنگن میں پھول اُتر آیا‘ چاند سے بیٹے کو دیکھ کر ابراہیم پھولے نہ سمایا اور اتنے سالوں بعد اولاد کی خوشی دیکھ کر اپنے معبودِ برحق کے سامنے سر بسجود ہو گیا۔ بیٹے کی پیدائش پر جتنی خوشیاں وہ منا سکتا‘ اس نے منائیں۔ گاؤں کے حلوائی کو بلا کر گھر میں سرخ مٹھائی‘ جلیبیاں اور پتاسے بنوائے اور گاؤں کے ہر گھر میں تقسیم کروائے‘ مسجد میں پڑھنے والے بچوں میں کھانا تقسیم کروایا۔ لوگ جب ابراہیم کے بھائیوں اور ان کے اہل و عیال کو مبارک باد دیتے تو ان کے منہ غصے سے لال پیلے ہو جاتے اور غم عیاں ہو جاتا۔ یہ سب دیکھ کر اہل علم کو برادرانِ یوسف یاد آ جاتے۔

موت اس دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ لوگ اس دنیا میں خالق سمیت ہر چیز کا انکار کر سکتے ہیں لیکن اس اٹل حقیقت کا نہیں کر سکتے۔ ہم میں سے ہر ایک بخوبی آگاہ ہے کہ وہ اس دنیا میں صرف چند روز کا مہمان ہے اور اسے ایک نہ ایک دن نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے خالق کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ زمینیں‘ لہلہاتے کھیت‘ باغات‘ جائیدادیں‘ کارخانے‘ کوٹھیاں‘ بنگلے‘ محلات‘ کاریں‘ سونا‘ چاندی‘ بیوی و اولاد کی محبت میں گرفتار حضرت انسان کہاں چاہتا ہے کہ یہ سب چھوڑ کر کہیں دور چلا جائے لیکن قانون قدرت کے آگے بے بس ہے۔
؎کتنی دلکش ہو تم‘ کتنا دل جُو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے (جون ایلیاء)

قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ ”ترجمہ: مرغوب چیزوں کی محبت لوگوں کے لیے مزین کر دی گئی ہے‘ جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشاندار گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی‘ یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور لوٹنے کا اچھا ٹھکانا تو اللہ تعٰالیٰ  ہی کے پاس ہے‘ آل عمران‘ 14“۔زن‘ زر‘ زمین کی محبت میں گرفتار انسان انہیں حاصل کرنے کے لیے دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتا ہے‘ ناجائز قبضے کرتا ہے‘حرام و حلال کی تمیز بھول جاتا ہے‘ لوگوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنساتا ہے‘ قتل و غارت سے گریز نہیں کرتا‘ مال سمیٹنے کی چاہ میں ہر انجام سے اندھا ہو جاتا ہے لیکن یہ بھول جاتا ہے کہ آخر کتنا عرصہ میں آرام دہ زندگی گزار لوں گا‘ چالیس‘ پچاس‘ ساٹھ یا زیادہ سے زیادہ سو سال کے بعد مجھے بھی ان چیزوں کو چھوڑ کر کسی دوسرے دیس میں جانا ہے تو میں کیوں یہ گناہ اپنے سر لوں؟آخرت کی فکر اور موت کی یاد ہی حرص و لالچ و حسد و بغض جیسی دنیاوی بیماریوں سے بچنے کا نسخہ ہے۔

ایک طرف ابراہیم اپنے بیٹے یحییٰ کی پیدائش پر خوشیاں منا رہا تھا تو دوسری طرف اس کے بھائیوں اور بھتیجوں کے ذہن میں کچھ اور ہی چل رہا تھا۔ وہ ابھی تک جس مقصد و مطلب کی خاطر ابراہیم کو برداشت کر رہے تھے‘ وہ انہیں ختم ہوتا نظر آیا۔
؎اے مطلب تیرا شکریہ!
تو نے جوڑ رکھا ہے انسانوں کو

؎سزا بن جاتی ہیں گزرے وقت کی یادیں
نہ جانے کیوں مطلب کے لیے مہرباں ہوتے ہیں لوگ

ہاجرہ جو شروع دن سے ہی طرح طرح کی سختیاں و طعنے برداشت کر رہی تھی‘ بیٹے کی پیدائش کے بعد مزید تکالیف و مظالم کا شکار ہو گئی لیکن قسمت کا لکھا اور اچھا ہونے کی امید پر خاموشی سے سب کچھ برداشت کرتی رہی۔
؎اب قسمت کے ہاتھ ہے اس بندھن کی لاج
میں نے تو من لکھ دیا سانوریا کے نام

گھریلو ناچاقیاں اس حد تک بڑھ گئیں کہ ابراہیم کے بھائیوں اور بھتیجوں نے ایک دن دھوکے سے جائیداد کے کاغذات پر اس کے انگوٹھے لگوا لیے اور میاں بیوی کو گھر سے نکال دیا۔ ابراہیم پل بھر میں عرش سے فرش پر آگیا۔ خدا کسی کو بھی برے دن نہ دکھائے‘ ایسے میں ہو جاتے ہیں اپنے بھی پرائے‘ انسان اپنے ہی شہر‘علاقے میں خود کو غریب الوطن محسوس کرتا ہے۔
؎مسکراتے ہو میری غربت پر
یہ کسی پر سدا رہی تو نہیں (وقاص یوسف)

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply