پاکستانی منا بھائی کی درد بھری کہانی/ثاقب لقمان قریشی

بیس برس قبل میں ایک فیکٹری میں ملازمت کرتا تھا۔ وہاں احتشام سے دوستی ہوئی۔ احتشام کافی عرصے سے بحریہ ٹاؤن میں پراپرٹی کا کام کر رہا ہے۔ چند روز قبل مجھے کہتا ہے کہ پنڈی رہنے کے قابل نہیں رہا۔ انسان کے پاس پیسہ ہو تو بحریہ ٹاؤن میں گھر بنائے۔ آپ کے پاس ڈھیر سارا پیسہ آ جائے تو کیا کرو گے۔ ؟میں نے کہا پیپلز کالونی، ٹیچ بھاٹہ، بکرا منڈی یا لالکرتی میں گھر بناؤں گا۔ کہتا ہے کیوں۔ میں نے کہا کہ میری کالونی کے کچھ لوگ میری چھٹی کا انتظار کرتے ہیں۔ چھٹی والے دن فون کرکے مجھے بلاتے ہیں۔ کوئی چائے لا رہا ہے، کوئی سگریٹ لا رہا ہے تو کوئی لطیفے سنا کر ہنسا رہا ہے۔ گھر میں سارا دن ریڑھی والوں کی آوازیں آتی ہیں۔ اسے زندگی کہتے ہیں۔ مجھے بڑے گھر، گاڑیاں اور مصنوعی زندگی متاثر نہیں کرتے۔میں عام لوگوں کے مسائل پر لکھتا ہوں اور ہر نماز میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ مجھ سے انسانیت کی مزید خدمت لے۔

چند روز قبل ہماری بڑی بہن نے اپنے گھر میں سفیدی کا کام شروع کروایا۔ سفیدی والے کو سب منا بھائی کہتے ہیں۔ ہماری بہن اور بہنوئی صاحب نے کام کے دوران منا بھائی کی خوب خدمت کی۔ کام ختم ہوا تو منا بھائی پھر انکے گھر چلے گئے کہا کوئی اور کام بھی ہے تو دلوا دیں۔ شعبان بھائی نے مجھے فون کیا کہنے لگے کہ آپ بھی کام کروا لو اس طرح انکی مدد ہو جائے گی۔ ہم مان گئے۔

ہم نے منا بھائی کو کام دکھایا اور انکے ساتھ سامان لینے  چلے گئے۔ منا بھائی سفیدی کیلئے سیڑھی لینے گئے تو پتہ چلا  دکان بند ہے۔ گھر کے ساتھ ایک ہارڈ ویئر کی دکان ہے۔ اس سے پتہ کیا تو اس نے کہا کہ میرے پاس ایک سیڑھی ہے۔ آپ اپنا کام کرکے واپس کر دینا۔ منا بھائی سیڑھی پر چڑھے تو میں نے محسوس کیا کہ اسکی اونچائی عام سیڑھی سے کم ہے، یہ عام سیڑھیوں کی طرح چوڑی بھی نہیں کہ آپ اس پر سامان رکھ سکیں۔ پھر اس سیڑھی سے اترنے کا ایک ہی مضبوط راستہ تھا۔ اسکی بھی ایک راڈ ٹوٹی ہوئی تھی۔ منا بھائی جب سیڑھی سے اترنے لگتے تو میں کہتا دیکھ کر اترنا۔

اللہ اللہ کرکے ایک کمرہ مکمل ہوا تو میں نے کہا کہ منا بھائی یہ سیڑھی ٹھیک نہیں ہے آپ دوسری سیڑھی لے آؤ۔ منا بھائی کہتے ہیں کچھ نہیں ہوتا میں کام چلا لونگا۔

منا بھائی کہتے ہیں چائے اور سگریٹ میرا پٹرول ہیں۔ یہ ملتے رہیں تو میں کام کرتا رہتا ہوں۔ ہماری بیگم صاحبہ کو بھی منا بھائی پر بہت ترس آیا انھوں نے تھرماس بھر کر رکھ دیا کہنے لگیں لو منا بھائی آپ کا پٹرول حاضر ہے۔ پہلے دن گھر میں دال پکی تھی۔ دوپہر کے کھانے میں وہی منا بھائی کو بھی دی۔ دوسرے دن بیگم صاحبہ نے سبزی کے ساتھ مچھلی کا پیس بھی فرائی کرکے دے دیا۔ منا بھائی کھانا کھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ دو سال قبل حالات اچھے تھے تو ایک بار مچھلی گھر لے کر گیا تھا۔

کھانے کے بعد کام شروع کیا تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ سیڑھی سے اترتے وقت منا بھائی کا پاؤں راڈ میں پھنسا اور وہ سیڑھی سمیت گرگئے۔ پینٹ کی بالٹی کچھ ایسے گری کہ منا بھائی، میں اور گھر لت پت ہوگئے۔ میں نے ٹانگیں دباتے ہوئے پوچھا کہ بچت ہوگئی ہے تو کہنے لگے کہ تمھارا پینٹ ضائع ہوگیا ہے۔ میں نے کہا پینٹ کو چھوڑو یہ بتاؤ کہ زیادہ تو نہیں لگی۔ کہنے لگے درد تو ہے۔ ہم نے انھیں درد کی گولی دے کر کہا کہ آپ چھٹی کر لو۔ تو کہنے لگے نہیں کام ختم کر کے جاؤنگا۔

میں نے کہا سیڑھی کیوں نہیں لاتے تو کہنے لگے کہ یہ سیڑھی تمھارے دوست سے لایا ہوں اسکا کرایہ نہیں دینا پڑے گا۔ باہر سے سیڑھی لاؤنگا تو سو روپے دیہاڑی دینی پڑے گی۔میں نے کہا کہ دیہاڑی میں دے دونگا۔ تم اب اس سیڑھی پر کام نہیں کرو گے۔

بات چیت کے دوران میں نے منا بھائی سے سوال کیا کہ اپنے بارے میں کچھ بتاؤ میں تمھارے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں۔ منا بھائی کہنے لگے کہ انکا خاندان انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان آیا تھا۔ دادا نے راولپنڈی کے علاقے لال کرتی میں ایک چھوٹا سا گھر بنایا۔ والد صاحب 502 ورک شاپ میں ملازمت کرتے تھے۔ ایک بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ پڑھنے کی عمر کو پہنچے تو والد نے لالکرتی کے ایف-جی-ٹیکنیکل سکول میں داخلہ کروا دیا۔ غربت اتنی تھی کہ سکول کی فیس، کتابوں اور یونیفارم کے پیسے نہیں ہوا کرتے تھے۔ منا بھائی نے تیسری جماعت سے پڑھنا چھوڑ دیا اور سفیدی کے کام میں لگ گئے۔ جوان ہوئے تو والد صاحب نے چار سو روپے رشوت دے کر انھیں بھی 502 ورکشاپ میں بھرتی کروا دیا۔ منا بھائی کہتے ہیں کہ رشوت دیتے وقت والد صاحب زار و قطار رو رہے تھے۔

منا بھائی نے یہ نوکری چار سال کی اسکے بعد نوکری چھوڑ کر عراق چلے گئے۔ عراق میں انکا سپروائزر گورا تھا۔ منا بھائی کہتے ہیں انھوں نے ساری زندگی اپنے کام کے ساتھ ایمانداری کی ہے۔ کام کے دوران کام اور کام کے بعد گپ شپ اور ہنسی مذاق کرنا انکی عادت ہے۔ گورا انھیں اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلایا کرتا تھا۔ یہ کنٹریکٹ بھی تین سال بعد ختم ہوگیا اور منا بھائی پاکستان واپس آگئے۔ ایک ایک کرکے والد اور والدہ کی وفات ہوگئی اور منا بھائی اکیلئے رہ گئے۔

بھائی کی شادی کے بعد منا بھائی نے آبائی گھر میں رہنا مناسب نہیں سمجھا اور لالکرتی میں ایک کمرہ کرائے پر لے لیا۔ کمرہ اتنا چھوٹا ہے کہ منا بھائی نے بتایا کہ یہ ہمارے کمرے سے بھی آدھا ہے۔ منا بھائی اس کمرے میں تیس سالوں سے رہ رہے ہیں۔

منا بھائی کہتے ہیں کہ انھیں جب دو چار کام ملتے تھے۔ یہ کھانے پینے کا سامان لے کر کمرے میں بند ہو جاتے اور تین چار دن باہر ہی نہیں نکلتے تھے۔ منا بھائی کے ہمسائے ان سے بہت محبت کرتے ہیں۔ انکا کمرہ بند دیکھتے تو بچوں کو بھیج دیتے۔ بچے دروازہ بجاتے۔ جیسے ہی منا بھائی کہتے کون تو وہ چلے جاتے۔ منا بھائی سمجھ گئے کہ ہمسائے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کہیں میں مر تو نہیں گیا۔

منا بھائی نے اسی روٹین میں اس کمرے میں بیس سال گزار دیئے۔ ہمسائے میں ایک خاتون رہتی ہیں جنھوں نے منا بھائی کو اپنا بھائی بنایا ہوا ہے وہ اکثر ان سے شادی کا کہتیں۔ لیکن منا بھائی انکار کر دیتے۔

دس سال قبل ہمسائی منا بھائی کے پاس آئیں اور کہنے لگیں کہ انکے جاننے والوں کی لڑکی کو حال ہی میں طلاق ہوئی ہے۔ ایک بچہ بھی ہے تم اگر ہاں کر دو تو لڑکی کو سہارا اور تمھیں ساتھی مل جائے گا۔ منا بھائی نے حامی تو بھر لی اور تھوڑا وقت مانگ لیا اس دوران کمرے سے منسلک نالے کی زمین پر کچن اور باتھ روم بنا لیے اور دلہن کو گھر لے آئے۔

منا بھائی کہتے ہیں کہ شادی کے وقت انکی عمر پچاس سال تھی۔ دلہن گھر تو آگئی لیکن گھر میں بنیادی ضرورت کی کوئی چیز نہیں تھی۔

منا بھائی نے ایک کباڑیئے کو واشنگ مشین کا کہا ہوا تھا۔ ایک روز وہ منا بھائی کو بلا کر کہتا ہے کہ ایک مشین آئی ہے آکے دیکھ لو۔ پیسوں کا پتہ کیا تو اس نے کہا جا لے جا۔ اسی طرح منا بھائی ایک گھر میں سفیدی کر رہے تھے جہاں ایک پرانا خراب فریج پڑا تھا۔ منا بھائی نے یہ فریج پانچ ہزار روپے میں خرید لیا۔ فریج کی چادر گلی ہوئی تھی۔ ڈینٹر کے پاس گئے اس سے چادر لگانے کا کہا۔ پیسے پوچھے تو اس نے کہا صبح بتاؤنگا۔ اگلے دن اس کے پاس گئے۔ پیسوں کا پوچھا تو اس نے بھی پیسے لینے سے انکار کر دیا۔

منا بھائی کو خدا نے تین بچوں کی نعمت سے نوازا۔ دو اللہ کو پیارے ہوگئے۔ جبکہ ایک بچہ سات سال کا ہے۔ شادی کے وقت بیگم کا بیٹا سات سال کا تھا جو اب سترہ برس کا ہے۔ میٹرک کے پرچے دے رہا ہے۔ کمرے میں گنجائش کی کمی کی وجہ سے بڑا بیٹا سونے کیلئے نانی کے گھر مورگاہ چلا جاتا ہے۔

منا بھائی کہتے ہیں کہ کرونا وباء سے پہلے یہ اچھا کما لیتے تھے۔ کرونا کے دوران حالات اتنے خراب ہوگئے کہ انکے لیے کرایہ دینا مشکل ہوگیا۔ مکان مالک ملک سے باہر ہوتے ہیں۔ وباء کے دوران ایک مرتبہ چھ ماہ کا کرایہ جمع ہوگیا۔ مکان مالک کو پتہ چلا تو اس نے مکان خالی کرنے کا کہا۔ منا بھائی ادھار کیلئے بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔ لالکرتی کے ایک دکاندار کے پاس گئے سارا قصہ سنایا۔ اتفاق سے اس دکاندار کا بھائی بھی وہیں بیٹھا تھا۔ جو باہر سے آیا ہوا تھا۔ اسے منا بھائی پر ترس آگیا۔ کہنے لگا کہ شام کو آکر پیسے لے جانا۔ حالات سے تنگ آکر منا بھائی کی بیگم نے لوگوں کے گھروں میں کپڑے دھونا شروع کر دیئے۔

کام کے دوران منا بھائی دو چار مرتبہ لیٹ ہوگئے۔ میں نے رات کے کھانے کا کہا تو کہنے لگے کہ رات کا کھانا ہم اپنی بیگم کے ساتھ کھاتے ہیں۔ وہ تھک جاتی ہے۔ اس لیے اپنے ہاتھوں سے کھانا گرم کرکے دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بیگم کی مہربانی ہے جو میرے ساتھ رہ رہی ہے ورنہ مجھ جیسے بیکار آدمی کے ساتھ کون زندگی گزارتا ہے۔

منا بھائی کہتے ہیں کہ میرے والد اکثر کہا کرتے تھے کہ ایک دن تو بہت پچھتائے گا۔ والد کی کہی ہر بات میرے کانوں میں گونجتی رہتی ہے۔ میں نے منا بھائی سے کہا کہ   کام کے دوران تم ماسک کیوں نہیں لگاتے۔ سارا گرد و غبار اندر چلا جاتا ہے کہنے لگے کہ جس خدا نے ساری زندگی بیماری سے بچایا ہے وہ آگے بھی مدد کرے گا۔

کام ختم ہوا تو میں نے منا بھائی سے پوچھا کہ تمھیں بلڈ پریشر یا شوگر جیسا کوئی مرض لاحق ہے تو کہنے لگے نہیں۔ میں نے کہا مطلب صرف ایک بیماری ہے کہنے لگے وہ کیا۔ میں نے کہا عمر۔ اس وقت تمھاری سب سے بڑی بیماری تمھاری ڈھلتی عمر ہے۔ سفیدی کا کام بہت مشقت طلب ہے جو تم زیادہ عرصہ نہیں کر سکو گئے۔ میرا مشورہ مانو تو لالکرتی یا ٹینچ بھاٹہ میں صبح کا ناشتہ لگانا شروع کردو۔ دو تین گھنٹوں میں دو چار ہزار کمائے اور گھر چلے گئے۔

شعبان بھائی نے منا بھائی کو دو مزید کاموں کی یقین دہانی کروائی ہے۔ جس سے انکا ایک آدھ مہینہ سکون سے گزر جائے گا۔
مگر سوال یہ ہے کہ

Advertisements
julia rana solicitors london

اسکے بعد کیا ہوگا؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply