• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • فرانس میں جاری ہڑتالوں کا طبقاتی جائزہ۔۔مترجم و مبصر/قیصر اعجاز

فرانس میں جاری ہڑتالوں کا طبقاتی جائزہ۔۔مترجم و مبصر/قیصر اعجاز

سات مارچ کو فرانس بھر میں 35 لاکھ سے زائد افراد نے سڑکوں کا رخ کیا اور بورن-میکرون حکومت کی جانب سے ریٹائرمنٹ کی عمر میں توسیع کی غیرمقبول پینشن اصلاحات کے خلاف ملک گیر عام ہڑتال میں حصہ لیا۔ جنوری اور فروری میں بڑے پیمانے پر متحرک ہونے کے بعد اس سال اصلاحات کے خلاف یہ چھٹی ہڑتال تھی جو مستقبل میں بھی جاری رہیں گی۔ جنرل کنفیڈریشن آف لیبر نے پیرس میں 7 لاکھ مظاہرین سمیت ملک بھر میں 300 سے زائد مقامات پر مظاہرے منظم کیے۔

سب کے لیے ریٹائرمنٹ کا حق، طبقاتی مسئلہ ہے۔ جب بھی سرمایہ دارانہ نظام بحران کا شکار ہوتا ہے تو بورژوا طبقے کی قیادت کی طرف سے سماجی فتوحات کے خلاف وحشیانہ جارحیت دوبارہ شروع ہو جاتی ہے۔ بورن حکومت (الزبتھ بورن فرانس کی موجودہ وزیراعظم ہیں) اور امیروں کے صدر میکرون کا 43 سال کی شراکت کے بعد بھی ریٹائرمنٹ کی عمر کو 62 سے 64 سال کرنے کا یہ منصوبہ اسی جارحیت کا ایک اظہار ہے۔ جہاں 2019ء کی پوائنٹس پر مبنی پنشن نے چیزوں کو الجھانے کی بے سود کوشش کی، وہیں ریٹائرمنٹ کی عمر میں توسیع کا سفاکانہ مظاہرہ اقتدار میں بورژوازی کے مقصد کو پوری طرح ظاہر کرتا ہے کہ یہ عوام مخالف اور مالی اجارہ داریوں کے حق میں ہے۔ سالوں کے کام کے بعد آرام کا حق مزدور طبقے کی گزشتہ صدیوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ سرمائے کے نمائندے جانتے ہیں کہ انہیں سرمایہ داری کے بحران کے نتائج سے خطرہ لاحق ہے لہذا استحصال کی بدترین شکلیں اور تمام سماج دشمن اقدامات لوٹ آئے ہیں، جن میں کام کے اوقات میں توسیع، معاوضے کی سطح کو کم کرنا (اجرت، پنشن، بے روزگاری وظیفہ و دیگر سماجی فوائد) اور عوامی خدمات کی نجکاری کو تیز کرنا شامل ہے۔ ان اقدامات سے واضح ہوتا ہے کہ طبقاتی تضاد صرف پنشن کے سوال تک محدود نہیں۔ البتہ پنشن پر تازہ حملے پر عوامی غم و غصہ مہنگائی اور توانائی کے بحران کے موجودہ تناظر میں سال 2019ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ 19 جنوری کی عام ہڑتال کے اگلے روز، میکرون نے عوام کو بورژوا ریاست کا جواب فوج اور ہتھیاروں کی اجارہ داری کے بجٹ میں 30 فیصد اضافے کے اعلان سے دیا۔ لہذا اجارہ دار بورژوازی کی مزدوروں کے حقوق کے خلاف اس جارحیت کو طاقت کے مظاہرے سے روکنا اور محنت کش طبقے کو اپنے استحصال کرنے والوں کے خلاف منظم کرنا انتہائ ضروری ہے۔

کئی عوامل اس فتح کو ممکن بناتے ہیں لیکن مزدور طبقے کی جانب سے متعدد اور لگاتار طاقت کے مظاہروں نے عوام کو متحرک کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔ خاص طور پر 19 اور 31 جنوری کی تاریخی ہڑتالیں اور تحریکیں جس میں ملک بھر سے 25 لاکھ مظاہرین نے حصہ لیا۔ اس کے علاوہ وہ تمام جدوجہد جو ان دونوں تاریخوں کے درمیان پیٹرو کیمیکل، بجلی و گیس کی صنعتوں، بندرگاہوں اور ٹرانسپورٹ کی متعلقہ یونین میں سامنے آئی، یہی ہیں جو فتح کی کلید رکھتے ہیں۔ عوام کو اسوقت بورن-میکرون حکومت کی بے مثال آمریت کا سامنا ہے، جو آرٹیکل 49.3 کے دوبارہ استعمال کی دھمکی دے رہی ہے۔ ایسی صورت میں ان اصلاحات پر قومی اسمبلی میں بھی کوئی  بحث اور رائے شماری نہیں ہو سکے گی۔

مزدور طبقے کو اس تحریک اور مظاہروں کو طویل مدت تک جاری رکھنا ہو گا، صرف سڑکوں اور قصبوں میں عوام کی وسیع حمایت کی شکل میں نہیں بلکہ جدوجہد کی دیگر شکلوں کی کثرت سے بھی جو اجارہ داریوں کے منافع کو روکنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ جیسا کہ بجلی کے محکمے کی یونین نے ایک مقبول تحریک رابن ہڈ کے نام پر لِل سے مارسیل تک مفت بجلی فراہم کرنا شروع کی یا صارفین کے لیے منقطع بجلی کی فراہمی بحال کی۔ جدوجہد کی یہ شکلیں بعض اوقات فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہیں جیسا کہ ملک گیر عام ہڑتال کو علاقائی  اور گردشی ہڑتال سے بدل دیا جائے، یہ حکمت عملی ایک طویل عرصے تک ہڑتال جاری رکھ سکتی ہے اور منسلک معیشیت کے باعث سرمایہ داروں کے منافع پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ قبضے کے قومی اجتماعات اور نمائندگی کے ایوانوں کے گھیراؤ جیسے منظم اقدامات کو بھی بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔

مزدور تحریک کو سماجی آزادی میں ڈھالنے کے لیے ضروری ہے کہ مزدور تحریک میں طبقاتی شعور کی سطح کو بلند کیا جائے۔ یہ سماجی آزادی کی جنگ ایک جنگجو ٹریڈ یونین کے گڑھ سے لڑی جاتی ہے جیسا کہ ماضی کی جنرل کنفڈریشن آف لیبر تھی اور جس کا احیاء ضروری ہے۔ مگر آج کی کنفیڈریشن کی قیادت ٹریڈ یونین تحریک کو طبقاتی بنیاد پر منظم کرنے سے دور رہتی ہیں۔

مزدور تحریک کو فتح کو مکمل کرنے کے لیے ایک مرکزی سیاسی پارٹی میں متحد کرنا ضروری ہے۔ یہ مرکزی پارٹی مزدور تحریک کو قومی اسمبلی میں نہیں ملے گی۔ کیونکہ قومی اسمبلی کے بائیں بازو کے اتحاد میں شامل جماعتیں، لا فرانس انسومیس، سوشلسٹ پارٹی اور فرانسیسی کمیونسٹ پارٹی اپنی انتہائی سوشل ڈیموکریٹ ساخت کی بنیاد پر سرمایہ دارانہ نظام پر سوال نہیں اٹھائیں گی بلکہ محض ترامیم پر اتفاق کرتے ہوئے، سرمائے کی پالیسی میں سلجھاو کی تجویز پیش کریں گی۔ یعنی مزدور اور سرمایہ دار طبقے کے درمیان مصالحت کو کوشش کریں گی۔ مزدور تحریک کو مطلوبہ مرکزی سیاسی پارٹی، فرانس کی انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی شکل میں قومی اسمبلی سے باہر ملیں گی، جو تمام محنت کشوں کے مفادات کے دفاع کے لیے، تاریخی احتجاجی تحریک کو بورژوا طبقے کی طاقت کے خلاف ایک جوابی کارروائی میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

ایوان کے اندر کی تازہ (بمطابق 17مارچ) صورتحال یہ ہے کہ جمعرات 16 مارچ 2023ء کو، بورن-میکرون حکومت نے ایک بار پھر آئین کے آرٹیکل 49.3 کا استعمال کرتے ہوئے پنشن اصلاحات زبردستی نافذ کر دی ہیں۔ مذکورہ آرٹیکل سرمائے کی آمریت کا ایک موثر ہتھیار ہے۔ یہ آرٹیکل حکومت کو پارلیمانی بحث کو دبانے اور بغیر رائے شماری کے کسی بھی نئے قانون کو نافذ کرنے کی اجازت دیتا ہے، یعنی جمہوری انکار کا ایک انوکھا نمونہ ہے۔ اس عمل کے بعد ایوان کے اندر صرف یہ راستہ رہ جاتا ہے کہ حکومت کو تحریک عدم اعتماد لا کر تبدیل کیا جائے۔ اپوزیشن نے عدم اعتماد کی دو تحریکیں جمع کروا کر اس کا اہتمام تو کیا ہے لیکن قوی امکان ہے کہ حکومت اس سے بھی بچ نکلے گی۔

آرٹیکل 49.3 کا عرفی نام “قانون سازی کا جوہری ہتھیار” ہی اس کا غیرجمہوری کردار بالکل واضح کر دیتا ہے۔ اس آرٹیکل کا استعمال 1988ء سے مسلسل بڑھ رہا ہے اور اسے پہلے سے زیادہ رجعتی، سماج دشمن اور انتہائی  آزاد منڈی کے معاون قوانین کو اپنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ پانچویں جمہوریہ کی رجعت پسند، غیرمقبول اور جمہوریت مخالف فطرت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ جنرل ڈی گال کی قائم کردہ پانچویں جمہوریہ کا آئین فرانسیسی سامراج (فرانسیسی اجارہ داریوں کی) کی ضروریات کو ظاہر کرتا ہے تاکہ عوام دشمن پالیسیوں کو براہ راست اور زیادہ تیزی سے سر انجام دیا جا سکے اور تمام اداروں (سپر اسٹرکچر) کو پیداواری ضروریات اور معاشی استحصالی پالیسیوں (بنیادی ڈھانچہ) کے مطابق ڈھالا جاسکے۔

بورژوا جمہوریت کا یہ بحران گزشتہ صدارتی انتخابات میں ہی آشکار ہو گیا تھا، جس کے دوسرے دور میں 28 فیصد عوام نے انتخابی عمل میں حصہ لینے سے اجتناب کیا، جوکہ گزشتہ پچاس برس میں بلند ترین شرح ہے۔ انتخابی عمل میں حصہ لینے والوں میں سے بھی 9 فیصد نے محض احتجاجی ووٹ ڈالا تاکہ یہ بتا سکیں کہ ہمیں دونوں (میکرون اور لی پین) میں سے کوئی بھی امیدوار قابل قبول نہیں۔ ایک سروے کے مطابق جیتنے والے میکرون کے 91 فیصد ووٹروں نے واضح طور پر کہا کہ انہوں نے انتہائی دائیں بازو کے امیدوار کو اقتدار سے باہر رکھنے کے لیے میکرون کو ووٹ دیا۔ یہ ہے بورژوا جمہوریت، جس میں عوام کی مرضی براہ راست اقتدار میں منتقل نہیں ہو پاتی، لہذا جمہوریت کا معطل رہنا ناگزیر ہے۔

ایوان میں دائیں بازو کی جماعت ریپبلکن بھی میکرون حکومت کی بڑے پیمانے پر تباہی کی پالیسی کے لیے ایک اضافی پہیے کا کردار ادا کرتی ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ ریپبلکن نے ان پنشن اصلاحات کا دفاع کیا اور اب آرٹیکل 49.3 کے بعد، وہ پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ حکومت کے خلاف کسی بھی تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹ نہیں دیں گے، سو اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ حکومت جمہوریت کی معطلی کے باوجود قائم رہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ آرٹیکل 49.3 اجارہ داریوں کے منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لیے بادشاہی صدارتی نظام کا ایک آلہ ہے۔

ایوان میں بائیں بازو کے اصلاح پسند، بورژوا پارلیمانی کھیل میں ہمیشہ سرمایہ داری اور اس کے اداروں کے دائرہ کار میں رہتے ہیں، جب کہ یہ بالکل غیر پارلیمانی جدوجہد ہے جو سماجی ترقی اور انقلابی تبدیلی لاتی ہے، جیسا کہ تاریخ نے بار بار ثابت کیا ہے۔ جبکہ سرمایہ داری نظام میں رہتے ہوئے اجرت کے استحصال کا حق جمہوریت پر ہمیشہ حاوی رہے گا۔

ان اصلاحات کے جواز پر حکومت کا بیانہ کچھ بھی ہو، اس کا تعلق فرانسیسی اجارہ داریوں اور بین الاقوامی صورتحال سے ہے۔ موجودہ بین الاقوامی معروضی حالات سامراج کے لیے گھمبیر بحران کے ہیں۔ اجارہ داریوں اور ان کی ریاستوں کے درمیان مقابلہ، اثر و رسوخ کے دائرہ کار، منڈی کے حصص، خام مال، توانائی کے منصوبے، نقل و حمل اور مواصلاتی ذرائع پر مرکوز ہے۔ سبز سرمایہ داری کی دوڑ اور نئی ٹیکنالوجی کی وجہ سے بھی مسابقت بڑھ چکی ہے، جس کے لیے پیداواری آلات کی موافقت کی ضرورت ہے۔ سبز سرمایہ داری اور اعلی ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے عوامی خزانے سے رقم نکالنا فرانسیسی بورژوازی کا ایک اہم مقصد ہے تاکہ فرانسیسی اجارہ داریاں سرمایہ داری کی دوڑ میں حصہ لے سکیں۔ اس کا دوسرا بڑا مقصد، فرانسیسی فوجی صنعتی کمپلیکس کو مضبوط کرنا ہے۔ بورژوا ریاست کی طرف سے ملٹری کے لیے اربوں کی نئی  امداد (413 بلین یورو) کے علاوہ دو فرانسیسی ہائیڈروجن اور الیکٹرک بیٹری کی میگا فیکٹریوں کے لیے بھی عوامی خزانے سے بھاری رقم جاری کی گئی  ہے۔

جمہوریت کا یہ تعطل اب سرمایہ دارانہ نظام کے تمام شعبوں کو متاثر کرتا ہے، جو ایک معاشی، سماجی، سیاسی، ماحولیاتی بحران میں پھنسا ہوا ہے، جس سے محنت کش عوام صرف انقلابی حل سے ہی باہر نکل سکتے ہیں۔ یہاں یہ دہرانا ضروری ہے کہ مزدور طبقے کو اس تحریک اور مظاہروں کو طویل مدت تک جاری رکھنا ہو گا، صرف سڑکوں اور قصبوں میں عوام کی وسیع حمایت کی شکل میں نہیں بلکہ جدوجہد کی دیگر شکلوں کی کثرت سے بھی جو اجارہ داریوں کے منافع کو روکنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ ہمیں تاریخ سے سیکھنا ہے کہ جدوجہد کی کونسی شکلیں آخری اور فیصلہ کن ثابت ہوتی ہیں۔ ایک ایسی قومی یونین جو آج بھی “نمائندہ جمہوریت”، “سوشل ڈیموکریسی” اور “سماجی شراکت داری” کی بات کرتی ہے، فیصلہ کن ضرب لگانے کا امکان نہیں رکھتی۔ اب بھی وقت ہے کہ طاقت کے اعلیٰ توازن کے لیے تصادم کی حکمت عملی کی منصوبہ بندی کی جائے۔ لہذا ہم کمیونسٹ اس جبری منظوری کے خلاف، مالیاتی سرمائے (بینکنگ اور صنعتی سرمائے کے انضمام) کے مطلوبہ پنشن اصلاحات کے منصوبے کے خلاف، اور مزدوروں، نوجوانوں اور پنشنرز کے ٹھوس اتحاد کے حصول کے لیے عام ہڑتال اور بڑھے ہوئے ردعمل کے اظہار کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے حق کا دفاع، اجرت کے لیے اور زندہ رہنے کی بلند قیمت کے خلاف، عوامی خدمات کے لیے، جمہوری حقوق کے لیے، امن کے لیے جدوجہد تیز کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

یہ وقت ہے کہ ایوان کے اندر اور باہر تمام کمیونسٹ پارٹیوں کو انقلابی خطوط پر متحد کر کے لینن کی مرکزی سیاسی پارٹی میں بدلا جائے، جس کے بغیر انقلابی حالات کو انقلاب میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ سرمایہ داری کے طویل موسم سرما کے بعد، سوشلزم کی بہار زندہ باد۔۔انقلاب زندہ باد!

Advertisements
julia rana solicitors

حوالہ: اس مضمون کا پہلا نصف حصہ 13 مارچ 2023ء کو بین الاقوامی کمیونسٹ اخبار، کمیونزم کے دفاع میں، انگریزی زبان میں شائع ہو چکا ہے۔

Facebook Comments

قیصر اعجاز
مصنف تاریخ، سماج اور حالات حاضرہ کا مطالعہ مارکس کی طبقاتی تعلیمات کی روشنی میں کرتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply