میر ا صاحب۔۔منٹو

یہ سن سینتیس کا ذکر ہے : مسلم لیگ روبہ شباب تھی۔ میں خود شباب کی ابتدائی منزلوں میں تھاجب خوامخواہ کچھ کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ صحت مند تھا، طاقت ور تھا اور جی میں ہر وقت یہی خواہش تڑپتی تھی کہ سامنے جو قوت آئے تو اس سے بھڑ جاؤں ۔ اگر کوئی قوت سامنے نہ آئے تو اسے خود پیدا کروں اور مد مقابل بنا کر اس سے گتھ جاؤں ۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب آدمی کچھ کرنے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔ کچھ کرنے سے میرا مطلب ہے کوئی بڑا کام، کوئی بہت بڑا کارنامہ سر انجام نہ ہو، تو سر زد ہی ہو جائے ۔ مگر کچھ ہو ضرور۔

اس مختصر تمہید کے بعد اب میں پھر اس زمانے کی طرف لوٹتا ہوں جب آتش جوان تھا۔ معلوم نہیں اس نے اپنی جوانی کے دنوں میں کسی سیاسی تحریک میں حصہ لیا تھا یا نہیں مگر خاکسار مسلم لیگ کا ایک سر گرم کارکن تھا ۔ غازی آباد کور مجھ ایسے کئی نوجوانوں کی ایک جماعت تھی جس کا میں ایک مخلص ممبر تھا۔ اپنے اخلاص کا ذکر میں نے بڑے وثوق سے کیا ہے کہ ان دنوں میرے پاس سوائے اس کے کچھ اور تھا ہی نہیں۔

یہ اسی زمانے کا ذکر ہے کہ محمد علی جناح دہلی تشریف لائے اور مسلمانوں نے ان کا شاندار جلوس نکالا ۔ جیسا کہ ظاہر ہے غازی آباد کور نے اس جلوس کو پر رونق اور پرجوش بنانے میں پورا حصہ لیا۔ ہماری جماعت کے سالار انور قریشی صاحب تھے۔ بڑے تنومند جوان جو اب شاعر پاکستان کے لقب سے مشہور ہیں۔ ہماری کور کے جوانوں کے ہونٹوں پر انہی کا تصنیف کردہ قومی ترانہ تھا۔ معلوم نہیں ہم سُرتال میں تھے یا نہیں لیکن اتنا یاد ہے کہ جو کچھ بھی ہمارے حلق سے باہر نکلتا اس کو سُر تال کی پابندیوں میں جکڑنے کا ہوش کسی کو بھی نہیں ہوتا تھا۔

فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
نالہ پابندِ نَے نہیں ہے

یہ تاریخی جلوس تاریخی شہر دلّی کی تاریخی مسجد سے شروع ہوا اور پرجوش نعرے بکھیرتا ،چاندنی چوک ،لال کنواں، حوض قاضی اور چاؤڑی بازار سے ہوتا ہوا اپنی منزل یعنی مسلم لیگ کے آفس پہنچ کر ختم ہو گیا۔
اجتماعی طور پر اس جلوس میں محمد علی جناح کو قائد اعظم کے غیر قانونی خطاب سے نعرہ زن کیا گیا۔ ان کی سواری کے لیے چھ گھوڑوں کی فٹن کا انتظام تھا۔ جلوس میں مسلم لیگ کے تمام سر کردہ اراکین تھے۔ موٹروں ،موٹر سائیکلوں ،بائیسکلوں اور اونٹوں کا ایک ہجوم تھا، مگر بہت ہی منظم ۔ اس نظم کو دیکھ دیکھ کر قائد اعظم جو طبعاً بہت ہی نظم پسند تھے، بہت مسرور نظر آتے تھے۔

میں نے اس جلوس میں ان کی کئی جھلکیاں دیکھیں ۔ ان کی پہلی جھلک دیکھ کر میرا رد عمل معلوم نہیں کیا تھا۔ اب سوچتاہوں اور تجزیہ کرتا ہوں تو اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ خلوص چونکہ بے رنگ ہوتا ہے ،اس لیے وہ رد عمل بھی یقیناً بے رنگ تھا۔ اس وقت اگر کسی بھی آدمی کی طرف اشارہ کر کے مجھ سے کہا جاتا کہ وہ دیکھو تمہارا قائد اعظم ہے، تو میری عقیدت اسے قبول کر لیتی اور اپنے سر آنکھوں پر جگہ دیتی ۔۔۔۔۔لیکن جب میں نے جلوس کے مختلف موڑوں اور پیچوں میں ان کو کئی مرتبہ دیکھا تو میری تنو مندی کو دھچکا سا لگا ۔ میرا قائد اس قدر دبلا۔ اس قدر نحیف
غالب نے کہا تھا

وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

وہ ہمارے گھر آئے تھے ۔ یہ ان کی مہر بانی اور خدا کی قدرت تھی۔ خدا کی قسم میں کبھی ان کو دیکھتا تھا کبھی ان کے نحیف و نزار جسم کو اور کبھی اپنے ہٹے کٹے ڈیل ڈول کو ۔ جی میں آتا کہ یا تو میں سکڑ جاؤں یا وہ پھیل جائیں ،لیکن میں نے دل ہی دل میں ان کے انہی ناتواں دست و بازو کو نظر بد سے محفوظ رکھنے کے لیے دعائیں بھی مانگیں۔ دشمنوں پر ان کے لگائے ہوئے زخموں کا چرچہ عام تھا۔
حالات پلٹا کھاتے ہی رہتے ہیں۔ معلوم نہیں پلٹوں کا نام حالات ہے یا حالات کا نام پلٹے ۔ بہر حال کچھ ایسی ہی صورت ہوئی کہ دماغ میں آرٹ کا کیڑا جو کچھ دیر سے سویا تھا،جاگا اور آہستہ آہستہ رینگنے لگا طبیعت میں یہ اکساہٹ پیدا ہوئی کہ ممبئی چل کر اس میدان میں قسمت آزمائی کی جائے ۔ ڈرامے کی طرف بچپن ہی سے مائل تھا۔ سوچا کہ شاید وہاں چل کر اپنے جوہر دکھانے کا موقع مل جائے ۔ کہا ں خدمت قوم وملت کا جذبہ ،اور کہاں اداکاری کا خبط ۔ انسان بھی عجب مجموعہ اضداد ہے۔
بمبئی پہنچا۔ ان دنوں امپیریل فلم کمپنی اپنے جوبن پر تھی۔ یہاں رسائی گو بہت ہی مشکل تھی،مگر کسی نہ کسی کے حیلے داخل ہو ہی گیا ۔ آٹھ آنے روز ایکسٹرا کے طور پر کام کرتا تھا اور خواب دیکھتا تھا کہ ایک روز آسمان فلم کا درخشندہ ستارہ بن جاؤں گا۔

اللہ کے فضل سے باتونی بہت ہوں ۔ خوش گفتار نہ سہی تو کچھ ایسا بد گفتار بھی نہیں۔ اردو مادری زبان ہے ،جس سے امپیریل کمپنی کے تمام ستارے نا آشنا تھے۔ اس نے میری مدد دہلی کے بجائے بمبئی میں کی۔ وہ یوں کہ وہاں کے قریب قریب تمام ستاروں نے اپنی گردشوں کا حال مجھ سے لکھوایا اور پڑھوایا کرتے تھے۔ اردو میں کوئی خط آتا تو میں انہیں پڑھ کر سناتا ۔ اس کا مطلب بتاتا ۔اس کا جواب لکھتا ، مگر اس منشی گیری اور خطوط نویسی سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا ۔ ایکسٹرا تھا ایکسٹرا ہی رہا۔
اس دوران امپیریل فلم کمپنی کے مالک سیٹھ آرڑ یشرایرانی کے خاص الخاص موٹر ڈرائیور بدھن سے میری دوستی ہو گئی اور اس نے اس کا حق یوں ادا کیا کہ فرصت کے اوقات میں مجھے موٹر چلانا سکھا دی مگر چونکہ یہ اوقات نہایت ہی مختصر ہوتے تھے اور بدھن کو ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتا تھا کہ سیٹھ کو اس کی چوری کا علم نہ ہوجائے ،اس لیے میں اپنی تمام ذہانت کے باوصف موٹر چلانے کے فن پر پوری طرح حاوی نہ ہو سکا۔ حاوی ہونا تو بہت بڑی بات ہے بس یوں سمجھیے کہ مجھے بدھن کی مدد کے طفیل الف جیسی سڑک پر سیٹھ آرڑیشر کی بیوک چلانا آگئی تھی۔ اس کے پرزوں کے متعلق میرا علم صفر تھا۔

اداکاری کی دھن سر پر بہت بری طرح سوار تھی ، مگر یہ سر کا معاملہ تھا۔ دل میں مسلم لیگ اور اس کے روحِ رواں قائداعظم محمد علی جناح بدستور بسے ہوئے تھے۔ امپریل فلم کمپنی میں کینڈی برج پر بھنڈی بازار اور محمد علی روڈ میں اور پلے ہاؤس پر اکثر مسلمانوں کی اقلیت کے ساتھ کانگریس کے سلوک کا تذکرہ ہوتا تھا ۔ امپیریل میں سب جانتے تھے کہ میں مسلم لیگی ہوں اور قائد اعظم محمد علی جناح کا نام لیوا ،لیکن یہ وہ زمانہ تھا جب ہندو کسی کے منہ سے قائد اعظم کا نام سن کر اُس کے جان لیوا نہیں ہو جاتے تھے ۔ قیام پاکستان کا مطالبہ ابھی منظر عام پر نہیں آیا تھا۔ میرا خیال ہے امپیریل فلم کمپنی کے لوگ جب مجھ سے قائدا عظم کا تعریفی ذکر سنتے تو یہ سمجھتے تھے کہ وہ بھی کوئی ہیرو ہے جس کامیں پرستار ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک دن اس زمانے کے سب سے بڑے فلمی ہیرو ڈی بلیموریا نے ’’ٹائمز آف انڈیا ‘‘ کا پرچہ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’لو بھئی یہ تمھارے جناح صاحب ہیں ۔‘‘
میں سمجھا ان کی کوئی تصویر چھپی ہے۔ پرچہ بلیموریا کے ہاتھ سے لے لیا۔ الٹ پلٹ کے دیکھا،مگر ان کی شبیہہ نظر نہ آئی ۔ میں نے اس سے پوچھا ’’ کیوں بھیاکہاں ہے ان کا فوٹو۔ ‘‘
بلیموریا کی جون گلبرٹ اسٹال کی باری باریک مونچھیں مسکراہٹ کے باعث اس کے ہونٹ پر کچھ پھیل سی گئیں ۔ ’’ پھوٹو ووٹو نہیں ہے ان کا اشتہار چھپا ہے ۔‘‘ میں نے پوچھا ’’ اشتہار ؟کیسا ۔۔ اشتہار ‘‘
بلیموریا نے ایک پرچہ لیا اور ایک لمبا کالم دکھا کر کہا ۔ ’’مسٹر جناح کو ایک موٹر مکینک کی ضرورت ہے ،جواُن کے گیراج کا سارا کام سنبھال سکے۔ ‘‘
میں نے اخبار میں وہ جگہ دیکھی جہاں بلیموریا نے انگلی رکھی ہوئی تھی اور یوں ’’ اور کیا جیسے میں نے ایک ہی نظر میں اس اشتہار کا سارا مضمون پڑھ لیا ہے حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ خاکسار کو انگریزی اتنی ہی آتی تھی جتنی ڈی بلیموریا کو اردو۔
جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں میری موٹر ڈرائیوری صرف الف سی سیدھی سڑک تک محدود تھی۔ موٹر میکنزم کیا ہوتی ہے اس کے متعلق حرام ہے جو مجھے کچھ علم ہو۔ سیلف دبانے پر انجن کیوں اسٹارٹ ہوتا ہے ۔ اس وقت اگر مجھ سے کوئی سوال کرتا تو میں یقیناًیہ جواب دیتا کہ یہ قانون موٹر ہے۔ سیلف دبانے پر بعض اوقات انجن کیوں سٹارٹ نہیں ہوتا اس سوال کا بھی جواب یہ ہوتا کہ یہ بھی قانون موٹر ہے۔ جس میں انسانی عقل کو کوئی دخل نہیں۔

آپ کو حیرت ہو گی کہ میں نے بلیموریا سے جناح صاحب کے بنگلے کا پتہ وغیرہ نوٹ کر لیا اور دوسرے روز صبح ان کے پاس جانے کا ارادہ کیا۔۔ اصل میں مجھے ملازمت حاصل کرنے کا خیال تھا نہ اس کی توقع تھی ۔ بس یونہی ان کو ان کی رہائش گاہ میں قریب سے دیکھنے کا شوق تھا۔ چنانچہ اپنے خلوص کو ڈپلومے کے طور پر ساتھ لیے مونٹ پلیز نٹ روڈ پرواقع مالا بار ہل پر ان کی خوشنما کوٹھی پر پہنچ گیا۔ باہر پٹھان پہرے دار تھا۔ کئی تھانوں کی سفید شلوار ،سر پر ریشمی لنگی ، بہت ہی صاف ستھرا اور بارعب کڑیل اور طاقتور ۔ اس کو دیکھ کر میری طبیعت خوش ہو گئی۔ دل ہی دل میں کئی مرتبہ میں نے اس کے اور اپنے ڈنٹر کی پیمائش کی اور یہ محسوس کر کے مجھے بڑی عجیب سی تسکین ہوئی کہ فرق بہت معمولی ہے، یہی کوئی ایک آدھ انچ کا۔

مجھ سے پہلے اور کئی امیدوار جمع تھے۔ سب کے سب اپنی اسناد کے پلندے بغل میں دابے کھڑے تھے۔ میں بھی ان میں شامل ہو گیا۔ بڑے مزے کی بات یہ ہے کہ اسناد تو ایک طرف رہیں، میرے پاس ڈرائیونگ کا معمولی لائسنس تک نہیں تھا۔ اس وقت دل صرف اس خیال سے دھڑک رہا تھا کہ بس اب چند لمحوں میں قائد اعظم کا دیدار ہونے والاہے۔
میں ابھی اپنے دل کی دھڑکن کے متعلق سوچ ہی رہا تھا کہ قائدا عظم پورچ میں نمودار ہوئے۔ سب اٹینشن ہوگئے۔ میں ایک طرف سمٹ گیا۔ ان کے ساتھ ان کی دراز قد ہمشیرہ تھیں جن کی متعدد تصاویر میں اخباروں اور رسالوں میں دیکھ چکا تھا۔ ایک طرف ہٹ کر ان کے با ادب سیکریٹری مطلوب صاحب تھے۔

جناح صاحب نے اپنی یک چشمی عینک آنکھ پر جمائی اور تمام امیدواروں کو غور سے دیکھا ۔ جب ان کی آنکھ کا رخ میری طرف ہوا تو میں اور زیادہ سمٹ گیا۔ فوراً ان کی کھب جانے والی آواز بلند ہوئی ۔ مجھے صرف اتنا سنائی دیا ’’یو ۔۔۔۔؟ ‘‘
اتنی انگریزی میں جانتا تھا۔ ان کا مطلب تھا ۔ ’’تم ‘‘مگر وہ ’’تم‘‘ کون تھا، جس سے وہ مخاطب ہوئے تھے۔ میں سمجھا کہ میرے ساتھ والا ہے چنانچہ میں نے اسے کہنی سے ٹہو کا دیا اور کہا۔ ’’بولو‘‘ تمھیں بلا رہے ہیں۔ ‘‘میرے ساتھی نے لکنت بھرے لہجے میں پوچھا ’’ صاحب میں ؟ ‘‘قائد اعظم کی آواز پھر بلند ہوئی ’’نو۔۔۔تم
ان کی باریک مگر لو ہے جیسی سخت انگلی میری طرف تھی ۔ میرا تن بدن کانپ اٹھا ۔ جی جی میں ؟
یس ! یہ تھری ناٹ تھری کی گولی تو مرے دل و دماغ کے پار ہوگئی ۔ میرا حلق قائداعظم کے نعرے بلند کرنے والا حلق بالکُل سوکھ گیا ۔میں کچھ نہ کہہ سکا ۔مگر جب انہوں نے اپنا مونوکل آنکھ سے اتار کر ’’آل رائٹ ‘‘کہا تو میں نے محسوس کیا کہ شاید میں نے کچھ کہا تھا جو انہوں نے سن لیا تھا یا وہ میری کیفیت بھانپ گئے تھے اور میرے نطق کو مزید اذیت سے بچانے کے لیے انہوں نے ’’آل رائٹ ‘‘ کہہ دیا تھا۔

پلٹ کر انہوں نے اپنے حسین و جمیل اور صحت مند سیکرٹری کی طرف دیکھا اور اس سے کچھ کہا۔ اس کے بعد وہ اپنی ہمشیرہ کے ساتھ اندر تشریف لے گئے۔ میں اپنے دماغ کی گڑ بڑ جلدی جلدی سمیٹ کر وہاں سے چلنے ہی والا تھا کہ مطلوب صاحب نے مجھے پکارا اور کہا کہ ’’ صاحب نے تمھیں کل دس بجے یہاں حاضر ہونے کے لیے کہا ہے۔ ‘‘
میں مطلوب صاحب سے سوال نہ کرسکا کہ صاحب نے مجھے کیوں بلایا ہے۔ان کو یہ بھی نہ بتا سکا کہ میں بلائے جانے کے ہر گز قابل نہیں ہوں۔ اس لیے کہ میں اس ملازمت کا بالکل اہل نہیں ،جس کے لیے قائداعظم نے اشتہاردیا ہے۔ وہ بھی اندر چلے گئے اور میں گھر لوٹ آیا۔

دوسرے دن صبح دس بجے پھر درِد ولت پر حاضر ہوا۔ جب اطلاع کرائی تو ان کے خوش پوش حسین وجمیل سیکرٹری تشریف لائے اور مجھے حیرت انگیز مژدہ سنایا کہ صاحب نے مجھے پسند کیا ہے اس لیے میں فوراً گیراج کا چارج لے لوں۔
یہ سن کر جی میں آیا کہ ان پر اپنی قابلیت کا سارا پول کھول دوں اور صاف صاف کہہ دوں کہ حضرت قائداعظم کو اس خاکسار کے متعلق غلط فہمی ہوئی ہے مَیں تو محض تفریحاً یہاں چلا آیا تھا۔ یہ آپ گیراج کا بوجھ اس نا اہل کے کاندھوں پر کیوں دھر رہے ہیں۔ مگر جانے کیوں میں کچھ نہ بولا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آناً فاناً گیراج کا پردھان بنا دیا گیا ۔ چابیاں میرے حوالے کر دی گئیں۔ چار کاریں تھیں مختلف میک کی اور مجھے صرف سیٹھ آرڑیشر ایرانی کی بیوک چلانی آتی تھی۔ اور وہ بھی الف جیسی سیدھی سڑک پر ۔ ملا بار ہل تک پہنچنے میں کئی موڑ تھے ۔ کئی خم اور موٹر میں آزاد کو صرف اپنی اکیلی جان نہیں لے جانا تھی ۔ اسے خدا معلوم کن کن اہم کاموں پر اس رہنما کو لیے لیے پھرنا تھا ، جس کی زندگی کے ساتھ لاکھوں مسلمانوں کی جان وابستہ تھی۔

میں نے سوچا چابیاں وغیرہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے بھاگ جاؤں ۔ بھاگ کر سیدھا گھر پہنچوں ۔ وہاں سے اپنا اسباب اٹھاؤں اور ٹکٹ کٹا کے دہلی کا رخ کروں مگر پھر سوچتا یہ درست نہیں ہے بہتر یہی ہے بلا کم و کاست جناح صاحب کو سارے حقائق سے باخبر کردوں اور معافی مانگ کر انسانوں کی طرح واپس اس جگہ چلا جاؤں جو کہ میرا اصل مقام ہے مگر آپ یقین مانیے کہ مجھے پورے چھ مہینے تک اس کا موقع نہ ملا۔ میں نے پوچھا ۔ ’’وہ کیسے ‘‘
محمد حنیف آزاد نے جواب دیا۔ ’’آپ سن لیجئے دوسرے روز حکم ہوا کہ آزاد موٹر لائے۔ وہ جو ایسے موقعوں پر خطا ہو ا کرتا ہے خطا ہوتے ہوتے رہ گیا۔ میں نے ارادہ کر لیا کہ جونہی صاحب سامنے آئیں گے ،سلام کر کے گیراج کی چابیاں ان کے حوالے کردوں گا اور ان کے قدموں میں گر پڑوں گا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ وہ پورچ میں تشریف لائے تو اس بندہ نابکار کے منہ سے رعب کے مارے ایک لفظ بھی نہ نکل سکا۔ اس کے علاوہ ان کے ساتھ فاطمہ صاحبہ تھیں۔ عورت کے سامنے کسی کے قدموں میں گرنا،منٹو صاحب، کچھ بہت وہ تھا۔ ‘‘میں نے آزاد کی موٹی موٹی آنکھوں میں شرم کے لال لال ڈورے دیکھے اور مسکر ا دیا۔ ’’خیر۔۔۔۔۔پھر کیا ہوا۔ ‘‘

’’ہوا یہ منٹو صاحب خاکسار کو موٹر اسٹارٹ کرنی ہی پڑی۔ نئی پیکارڈ تھی۔ اللہ کا نام لے کر اٹکل پچو اسٹارٹ کر دی اور بڑی صفائی سے کوٹھی کے باہر بھی لے گیا۔ پر جب مالا بار ہل سے نیچے اترتے وقت لال بتی کے موڑ کے پاس پہنچا ۔ جانتے ہیں نا لال بتی؟‘‘میں نے اثبات میں سر ہلایا ’’ہاں ہاں!‘‘بس صاحب مشکل ہو گئی ۔ استاد بدھن نے کہا تھاکہ بریک دبا کر معاملہ ٹھیک کر لیا کرو۔ افراتفری کے عالم میں کچھ ایسے اناڑی پن سے بریک دبائی کہ گاڑی ایک دھچکے کے ساتھ رکی ۔ قائداعظم کے ہاتھ سے ان کا سگار گر پڑا۔ فاطمہ جناح صاحبہ اچھل کر دو بالشت آگے ۔ لگیں مجھے گالیاں دینے ۔ کاٹو تو لہو نہیں میرے بدن میں ۔ ہاتھ کانپنے لگے۔ دماغ چکرانے لگا ۔ قائد اعظم نے سگار اٹھایا اور انگریزی میں کچھ کہا ۔ جس کا غالباً یہ مطلب تھا کہ واپس چلو ۔ میں نے حکم کی تعمیل کی تو انہوں نے نئی گاڑی اور نیا ڈرائیور طلب فرمایا اور جہاں جانا تھا چلے گئے۔ اس واقعے کے بعد چھ مہینے تک مجھے ان کی خدمت کاموقع نہ ملا۔
میں نے مسکرا کر پوچھا ’’ایسی ہی خدمت کا ؟ ‘‘
آزادبھی مسکرایا ’’جی ہاں ۔ بس یو ں سمجھیے کہ صاحب نے مجھے اس کا موقع نہ دیا۔

دوسرے ڈرائیور تھے ۔ وہ ان کی وردی میں رہتے تھے ۔ مطلوب صاحب رات کو بتا دیتے تھے کہ کون ڈرائیور کب اور کس گاڑی کے لیے چاہیے ۔ میں اگر ان سے اپنے متعلق کچھ دریافت کرتا تو وہ کوئی خاطر خواہ جواب نہ دے سکتے ۔ یہ مجھے بعدمیں معلوم ہوا۔ صاحب کے دل میں کیا ہے ۔ اس کے متعلق کوئی وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا تھا اور نہ ان سے کوئی کسی امر کے بارے میں استفسار ہی کر سکتا تھا ۔ وہ صرف مطلب کی بات سنتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ میں ان کے اتنا قریب ہوتے ہوئے بھی یہ نہ معلوم کر سکا کہ اپنے گیراج کا قائد بناکر ایک بے کار پرزے کی طرح انہوں نے مجھے کیوں ایک طرف پھینک رکھا ہے۔ میں نے آزاد سے کہا’’ہو سکتا ہے وہ تُمھیں قطعاً بھول ہی گئے ہوں۔

آزاد کے حلق سے وزنی قہقہہ بلند ہوا ’’نہیں جناب نہیں‘‘صاحب بھولے سے بھی کہیں نہیں بھولتے تھے۔ اُن کو اچھی طرح معلوم تھا کہ آزاد چھ مہینے سے گیراج میں پڑا روٹیاں توڑ رہا ہے۔ اور منٹو صاحب جب آزاد روٹیاں توڑے وہ معمولی روٹیاں نہیں ہوتیں۔ یہ تن و توش ملاحظہ فرمالیجئے۔ ‘‘میں نے آزا د کی طرف دیکھا ۔ سن سینتیس ،اڑتیس میں جانے اس کا کیا تن و توش تھا مگر میرے سامنے ایک کافی مضبوط اورتنومند آدمی بیٹھا تھا۔ جس کو آپ ایکٹر کی حیثیت میں یقیناًجانتے ہوں گے ۔ تقسیم سے پہلے وہ بمبئی فلموں میں کام کرتا تھا اور آج کل یہاں لاہور میں فلمی صنعت کی زبوں حالی کا شکار کسی نہ کسی حیلے گُزر اوقات کر رہا ہے۔

مجھے پچھلے برس ایک دوست سے معلوم ہوا تھا کہ یہ موٹی موٹی آنکھوں ،سیاہ رنگ اور کسرتی بدن والا ایکٹر ایک مدت قائداعظم محمد علی جناح کا ڈرائیور رہ چکا ہے ۔ چنانچہ اسی وقت سے میری نگاہ اس پر تھی۔ جب کبھی اس سے ملاقات ہوتی تومیں اس کے آقا کا ذکر چھیڑ دیتا اور اس سے باتیں سن سن کر اپنے حافظے میں جمع کر تا رہتا ۔ کل جب میں نے یہ مضمون لکھنے کے لیے اس سے کئی باتیں دوبارہ سنیں تو مجھے قائداعظم کی زندگی کے ایک بہت دلچسپ پہلو کی جھلک نظر آئی محمد حنیف آزاد کے ذہن پر اس بات نے بہت اثر کیا تھا کہ اس کا آقا طاقت پسند تھا جس طرح علامہ اقبال کو بلند قامت چیزیں پسند تھیں۔ اسی طرح قائداعظم کو تنومند چیزیں مرغوب تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے لیے ملازموں کا انتخاب کرتے وقت وہ جسمانی صحت اور طاقت سب سے پہلے دیکھتے تھے۔
اس زمانے میں جس کا ذکر محمد حنیف آزاد کرتا ہے ،قائداعظم کا سیکرٹری مطلوب بڑا وجیہہ آدمی تھا۔ جتنے ڈرائیور تھے ، سب کے سب جسمانی صحت کا بہترین نمونہ تھے ۔کوٹھی کے پاسبان بھی اسی نقطہ نظر سے چُنے جاتے تھے۔ اس کانفسیاتی پس منظر اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے جناح مرحوم خود بہت ہی لاغر اور نحیف تھے مگر طبیعت چونکہ بے حد مضبوط اور کسرتی تھی اس لیے کسی ضعیف اور نحیف شے کو خود سے منسوب ہوتا پسند نہیں کرتے تھے۔

وہ چیز جو انسان کو مرغوب اور پیاری ہو ، اس کے بناؤ سنگھار کا وہ خاص اہتمام کرتا ہے چنانچہ قائداعظم کو اپنے صحت مند اور طاقتور ملازموں کی پوشش کا بہت خیال رہتا تھا پٹھان چوکیدار کو حکم تھا کہ وہ ہمیشہ اپنا قومی لباس پہنا کرے ۔ آزاد پنجابی نہیں تھا، لیکن کبھی کبھی ارشاد ہوتا تھا کہ پگڑی پہنے۔ سر کار یہ لباس بڑا طرحدار ہے۔ چونکہ اس سے قدوقامت میں خوشگوار اضافہ ہوتا ہے اس لیے وہ اس کے سر پر پگڑی بندھوا کر بہت خوش ہوتے تھے اور اس خوشی میں اس کو انعام دیا کرتے تھے۔
اگر غور کیا جائے تو جسم کی لاغری کا یہ احساس ہی ان کی مضبوط اور پروجاہت زندگی کی سب سے بڑی قوت تھی۔ ان کے چلنے پھرنے ،اٹھنے بیٹھنے ،کھانے پینے اور بولنے سوچنے میں یہ قوت ہر وقت کارفرما رہتی۔

محمد حنیف آزاد نے مجھے بتایا کہ قائد اعظم کی خوراک بہت ہی قلیل تھی’’وہ اتنا کم کھاتے تھے کہ مجھے بعض اوقات تعجب ہوتا تھا کہ وہ جیتے کس طرح ہیں۔ اگر مجھے اس خوراک پر رکھا جاتا تو یقیناًدوسرے ہی روز میری چربی پگھلنے لگتی لیکن اس کے بر عکس ہر روز چار پانچ مرغیاں ،باورچی خانے میں ذبح ہوتی تھیں۔ ان میں سے صرف ایک چوزے کی یخنی اور وہ بھی بمشکل ایک چھوٹی پیالی اُن کی خوراک کا جزو بنتی تھی۔ فروٹ ہر روز آتا تھا اور کافی مقدار میں آتا مگر یہ سب ملازموں کے پیٹ میں جاتا تھا ۔ ‘‘
ہر روز رات کے کھانے کے بعد صاحب کاغذ پر اشیاء خوردنی کی فہرست پر نشان لگا دیتے تھے اور ایک سو کا نوٹ میرے حوالے کر دیتے تھے۔ یہ دوسرے روز کے طعام کے اخراجات کے لیے ہوتا تھا۔ ‘‘
میں نے آزاد سے پوچھا ۔’’ہرروز سو روپے !‘‘
’’جی ہاں‘‘ پورے سو روپے قائد اعظم کبھی حساب طلب نہیں فرماتے تھے۔ جو باقی بچتا وہ سب ملازموں میں تقسیم ہو جاتا تھا۔ کبھی تیس بچ جاتے تھے کبھی چالیس اور کبھی ساٹھ ستر ۔ ان کو یقیناًاس بات کا علم تھا کہ ہم ہر روز بہت سے روپے گول کر تے ہیں۔ مگر اس کا ذکر انہوں نے کبھی ہم سے نہیں کیا۔ البتہ مس جناح بہت تیز تھیں۔ اکثر بگڑ جاتی تھیں کہ ہم سب چور ہیں۔ ایک آنے کی چیز کا ایک روپیہ لگا تے ہیں، مگر صاحب کا سلوک کچھ ایسا تھا کہ ہم سب ان کے مال کو اپنا مال سمجھنے لگے تھے چنانچہ ان کی جھڑکیاں اور گھرکیاں سن کر اپنے کان سمیٹ لیتے تھے۔ صاحب ایسے موقعوں پر اپنی ہمشیرہ سے ’’اٹ از آل رائٹ ۔ اٹ از آل رائٹ ‘‘کہتے اور معاملہ رفع دفع ہو جاتا۔

مگر ایک دفعہ ’’اٹ از آل رائٹ ‘‘کہنے سے معاملہ رفع دفع نہ ہوا اور محترمہ مس جناح نے باورچی کو نکال دیا۔ ایک باورچی کو نہیں دونوں باورچیوں کو کیونکہ قائد اعظم بیک وقت باورچی خانے کے لیے دو ملازم رکھتے تھے۔ ایک وہ جو ہندوستانی کھانے پکانا جانتا ہو ۔ دوسرا وہ جو انگریزی طرز کے کھانے پکانے کی مہارت رکھتا ہو۔ عام طور پر ہندوستانی باورچی بیکار پڑا رہتا تھا، لیکن کبھی کبھی بعض اوقات مہینوں کے بعد اس کی باری آتی تھی اور اس کو حکم ملتا تھا کہ وہ ہندوستانی کھانے تیار کر ے مگر قائداعظم کو ان سے دلی رغبت نہیں تھی۔

آزاد نے بتایا ۔’’جب دونوں باورچی نکا ل باہر کیے گئے تو صاحب نے کچھ نہ کہا۔ وہ اپنی ہمشیرہ کے معاملوں میں دخل نہیں دیا کرتے تھے۔ چنانچہ کئی دن دونوں وقت کا کھانا تاج ہوٹل میں تناول فرماتے رہے۔ اس دوران میں ہم لوگوں نے خوب عیش کئے ۔ گھر سے موٹر لے کر نئے باورچیوں کی تلاش میں نکل جاتے اور گھنٹوں گھوم گھام کر واپس آجاتے تھے کہ کوئی کام کا آدمی نہیں ملا۔ آخر میں مس جناح کے کہنے پر پرانے باورچی واپس بلا لیے گئے۔ جو شخص بہت کم خور ہو وہ دوسروں کو بہت کھاتے دیکھ کر یا تو جلتا بھنتا ہے یا بہت خوش ہوتا ہے قائد اعظم دوسری قبیل کے کم خوروں میں سے تھے۔ وہ دوسروں کو کھلا کر دلی مسرت محسوس کرتے تھے ۔ یہی وجہ ہے ہر روز سو روپے دے کر وہ حساب کتاب سے بالکل غافل ہو جاتے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اسراف پسند تھے۔ محمد حنیف آزادایک دلچسپ واقعہ بیان کرتا ہے :

’’یہ سن انتالیس کا ذکر ہے۔ شام کے وقت ورلی کی سیر ہو رہی تھی ۔ میں ان کی سفید پیکارڈ آہستہ آہستہ چلا رہا تھا۔ سمندر کی موجیں ہولے ہولے ساحل سے ٹکرا رہی تھیں۔ موسم میں گلابی خنکی تھی صاحب کا موڈ بہت اچھا تھا۔ میں نے موقع پا کر عید کا ذکر چھیڑا ۔ اس سے جو میرا مطلب تھا وہ ظاہر ہے ۔ صاحب فوراتاڑ گئے ۔ میں نے بیک ویو مرر میں دیکھا ۔ ان کے پتلے ہونٹ مسکرائے ۔ نہ جدا ہونے والا سگار منہ سے نکال کر انہوں نے کہا ’’اوہ ۔۔۔ویل ویل ۔۔۔۔ابھی تم ایک دم مسلمان ہو گیا ہے تھوڑا ہندو بنو۔‘‘ اس سے چار روز پہلے قائداعظم ، آزاد کو مسلمان بنا چکے تھے یعنی انعام کے طور پر اسے دو سو روپے دے چکے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس کو تھوڑا ہندو بننے کی تلقین کی ۔ مگر آزاد پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اس عید پر وہ سید مرتضی جیلانی فلم پروڈیوسر کے پاس اپنی مسلمانی مستحکم کرنے کی غرض سے آیا تھا کہ اس سے میری ملاقات ہوئی اور میں نے یہ مضمون تیار کرنے کے لیے اس سے مزید معلومات حاصل کیں۔

قائد اعظم کی گھریلو زندگی کا نقشہ مستور ہے اور ہمیشہ مستور رہے گا۔ عام طو ر پر یہی کہا جاتا ہے لیکن جہاں تک میں سمجھا ہوں ان کی گھریلو زندگی ان کی سیاسی زندگی میں کچھ اس طرح مد غم ہو گئی تھی کہ اس کا وجود ہونے نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا۔ بیوی تھی وہ مدت ہوئی ان سے جدا ہو چکی تھی۔ لڑکی تھی اس نے ان کی مرضی کے خلاف ایک پارسی لڑکے سے شادی کر لی تھی۔
محمد حنیف آزاد نے مجھے بتایا۔ ’’صاحب کو اس کا سخت صدمہ پہنچا تھا ان کی خواہش تھی کہ وہ کسی مسلمان سے شادی کرے خواہ وہ کسی بھی رنگ و نسل کا ہو لیکن ان کی لڑکی جواز پیش کرتی تھی کہ ’’جب صاحب کو اپنی شریک زندگی منتخب کرنے میں آزادی حاصل تھی تو وہ یہ آزادی اسے کیوں نہیں بخشتے‘‘۔

قائدا عظم نے بمبئی کے ایک بہت بڑے پارسی خاندان کی لڑکی سے شادی کی تھی۔ یہ تو سب کو معلوم ہے ،لیکن یہ بات بہت کم آدمیوں کو معلوم ہے کہ پارسی اس رشتے سے بہت ناخوش تھے۔ ان کی یہ کوشش اور خواہش تھی کہ جناح صاحب سے بدلہ لیں چنانچہ بعض اصحاب کا یہ کہنا ہے کہ قائد اعظم کی لڑکی کا پارسی لڑکے سے شادی کرنا ایک منظم سازش کا نتیجہ ہے ۔ میں نے جب اس کا ذکر آزاد سے کیا تو اس نے کہا اللہ بہتر جانتا ہے ،لیکن مجھے صرف اس قدر معلوم ہے کہ صاحب کی زندگی کا بیوی کی موت کے بعد یہ دوسرا بڑا صدمہ تھا۔ ان کا چہر ہ اس قدر لطیف تھا کہ معمولی سے معمولی واقعہ بھی اس پر اتار چڑھاؤ پیدا کر دیتا تھا جو دوسروں کو فوراً نظر آجاتا تھا۔ ماتھے پر ہلکی سی شکن ایک خوفناک خط کی صورت اختیار کر جاتی تھی ۔ ان کے دل و دماغ پر اس حادثے سے کیا گذری ، اس کے متعلق مرحوم ہی کچھ کہہ سکتے تھے ۔ ہمیں صرف خارجی ذریعوں سے جو کچھ معلوم ہوا اس کی بناء پر کہہ سکتے ہیں کہ بہت مضطرب رہے، پندرہ روز تک وہ کسی سے نہ ملے ۔ اس دوران میں انہوں نے سینکڑوں سگار پھونک ڈالے ہوں گے اور سینکڑوں میل ہی اپنے کمرے میں ادھر اُدھر چکر لگا کر طے کیے ہو ں گے۔

’’سوچ بچار کے عالم میں ان کو ادھر ادھر ٹہلنے کی عادت تھی۔ رات سناٹے میں وہ اکثر پختہ اور بے داغ فرش پر ایک عرصے تک ٹہلتے رہتے تھے۔ نپے تلے قدم ادھر سے ادھر ایک فاصلہ ،خاموش فضا۔ جب وہ چلتے تو ان کے سفید اور کالے یا سفید اور براؤن شوز ایک عجیب قسم کی یک آہنگ ٹک ٹک پیدا کرتے ، جیسے کلاک معین وقفوں کے بعد اپنی زندگی کی خبر دے رہا ہے۔ ‘‘ قائدا عظم کو اپنے جوتوں سے پیار تھا۔ اس لیے کہ وہ ان کے قدموں میں ہوتے تھے اور ہر وقت ان کے اشاروں پر چلتے تھے۔
’’پندرہ دن مسلسل ذہنی اور روحانی طور پر مضطرب رہنے کے بعد ایک روز ایکا ایکی نمودار ہوئے ۔ ان کے چہرے پر اب اس صدمے کا کوئی اثر باقی نہیں تھا۔ ان کی گردن جس میں فرط غم کے باعث خفیف سا خم پیدا ہو گیا تھا پھر اسی طرح سیدھی اور اکڑی ہوئی تھی ،لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس صدمے کو بالکل بھول گئے تھے۔ جب آزاد نے قائد اعظم کی زندگی کے اس صدمے کا ذکر دوبارہ چھیڑا تو میں نے اس سے پوچھا ۔ ’’وہ اس صدمے کو نہیں بھولے تھے۔ یہ تمہیں کیسے معلوم ہوا؟ ‘‘

آزاد نے جواب دیا۔ ’’ملازموں سے کیا بات چھپی رہتی ہے ۔کبھی کبھی وہ صندوق کھلوانے کا حکم دیتے تھے۔ جست کے اس جہازی صندوق میں بے شمار کپڑے تھے ،ا ن کی مرحوم بیوی اور نافرمانبردار لڑکی کے۔ جب وہ چھوٹی بچی تھی۔ یہ کپڑے باہر نکا لے جاتے تو صاحب بڑی سنگین خاموشی سے ان کو دیکھتے رہتے۔ ایک دم ان کے دبلے پتلے اور شفاف چہرے پر غم واندوہ کی لکیروں کا ایک جال سا بکھر جاتا اٹ از آل رائٹ ۔ اٹ از آل رائٹ ،کہہ کر وہ اپنی آنکھ سے مونوکل اتارتے اور اسے پونچھتے ہوئے ایک طرف چل دیتے ۔ ‘‘محمد حنیف آزاد کے بیان کے مطابق ’’قائدا عظم کی تین بہنیں فاطمہ جناح ،رحمت جناح ،تیسری کا نام مجھے یاد نہیں ۔ وہ ڈونگری میں رہتی تھیں۔ چوپاٹی کارنر نزد چنائی موٹر ورکس پر رحمت جناح مقیم تھیں۔ ان کے شوہر کہیں ملازم تھے ۔ آمدن قلیل تھی۔ صاحب ہر مہینے مجھے ایک بند لفافہ دیتے جس میں کچھ کرنسی نوٹ ہوتے تھے ۔ اس کے علاوہ کبھی کبھی ایک پارسل سا بھی دیتے تھے جس میں غالبا کپڑے وغیرہ ہوتے تھے۔ یہ چیزیں مجھے رحمت جناح کے ہاں پہنچانا ہوتی تھیں۔ یہاں مس فاطمہ جناح اور خود صاحب بھی کبھی کبھی جایا کرتے تھے ۔ وہ بہن جو ڈونگری میں رہتی تھی ،شادی شدہ تھیں ۔ ان کے متعلق مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ آسودہ حال تھیں اور کسی امداد کی محتاج نہیں تھیں ۔ ایک بھائی تھا۔ اس کی مدد وہ باقاعدہ کرتے تھے مگر اس کو گھر میں آنے کی اجازت نہیں تھی۔

قائد اعظم کے اس بھائی کو میں نے بمبئی میں دیکھا۔ سوائے بار میں ایک شام کو میں نے دیکھا کہ قائدا عظم کی شکل و صورت کا ایک آدمی آدھارم کا آرڈ ر دے رہا ہے۔ ویسا ہی ناک نقشہ ،ویسے ہی الٹے کنگھی کیے ہوئے بال ،قریب قریب ویسی ہی سفید لٹ ۔ میں نے کسی سے اس کے بارے میں استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ وہ مسٹر محمد علی جناح کے بھائی احمد علی ہیں ۔ میں بہت دیر اس کو دیکھتا رہا۔ رم کا آدھا پیگ اس نے بڑی شان سے آہستہ آہستہ لبوں کے ذریعے سے چوس چوس کر ختم کیا ۔ بل جو ایک روپے سے کم تھا یوں ادا کیا جیسے ایک بہت بڑی رقم ہے اور اس کی نشست سے معلو م ہوتا تھا کہ وہ بمبئی کی ایک گھٹیا بار کے بجائے تاج محل ہوٹل کے شراب خانے میں بیٹھا ہے۔

گاندھی۔ جناح کی تاریخی ملاقات سے کچھ دیر پہلے بمبئی میں مسلمانوں کا ایک تاریخی اجتماع ہوا۔ میرے ایک دوست اس جلسے میں موجود تھے ۔انہوں نے مجھے بتایا کہ پلیٹ فارم پر قائداعظم اپنے مخصوص انداز میں تقریر کر رہے تھے اور بہت اِس دوران کا بھائی احمد علی آنکھ پر مونوکل لگائے کچھ اس انداز سے کھڑا تھا جیسے وہ اپنے بھائی کے الفاظ کو دانتوں تلے چبا رہا ہے۔
اندورن خانہ کھیلوں میں قائداعظم کو صرف بلئیر ڈ سے دلچسپی تھی ۔ کبھی کبھی جب ان کو اس کھیل سے شغل فرمانے کی خواہش ہوتی تو وہ بلےئر ڈ روم کھلوانے کا حکم دیتے۔ صفائی یوں تو ہر کمرے میں ہر روز ہوتی تھی مگر جب وہ کسی خاص کمرے میں جانے کا ارادہ فرماتے تو ملازمین ان کے داخلے سے پہلے اپنا اچھی طرح اطمینان کرلیتے کہ ہر چیز صاف ستھری اور ٹھیک ٹھاک ہے۔ بلےئرڈ روم میں مجھے جانے کی اجازت تھی۔ اس لیے کہ مجھے بھی اس کھیل سے تھوڑا بہت شغف ہے۔ بارہ گیندیں ان کی خدمت میں پیش کر دی جاتیں ۔ ان میں سے وہ انتخاب کرتے اور کھیل شروع ہو جاتا ۔ محترمہ فاطمہ جناح پاس ہوتیں۔ صاحب سگار سلگا کر ہونٹوں میں دبا لیتے اور اس گیند کی پوزیشن کو اچھی طرح جانچتے جس کے ٹھوکر لگانا ہوتی تھی۔ اس جانچ پڑتال میں وہ کئی منٹ صرف کرتے، کبھی زوابے سے دیکھتے کبھی دوسرے زاویے سے ۔ ہاتھ میں کیو کو تولتے،اپنی پتلی پتلی انگلیوں پر اسے سارنگی کے گز کی طرح پھیرتے ،زیر لب کچھ کہتے ،شست باندھتے ،مگر کوئی دوسرا مناسب و موزوں زاویہ ان کے ذہن میں آجاتااور وہ اپنی ضرب روک لیتے ۔ ہر طرف سے اپنا پورا اطمینان کرنے پر جب کیو گیند کے ساتھ ٹکراتے اور نتیجہ ان کے حساب کے مطابق ٹھیک نکلتا تو اپنی بہن کی طرف فاتحانہ انداز میں دیکھ کر مسکر ا دیتے‘‘۔

’’سیاست کے کھیل میں قائدا عظم اسی طرح محتاط تھے۔ وہ ایک دم کوئی فیصلہ نہیں کرتے تھے۔ ہر مسئلے کو بلےئرڈ کے میز پر پڑی ہوئی گیند کی طرح ہر زاویے سے بغور دیکھتے تھے اور صرف اسی وقت اپنے کیو کو حرکت میں لا کر ضرب لگاتے تھے جب ان کو اس کے کارگر ہونے کا پورا وثوق ہوتا تھا۔ وار کرنے سے پہلے شکار کو اپنی نظروں میں اچھی طرح تول لیتے تھے۔ اس کی نشست کے تمام پہلوؤں پر غور کر لیتے تھے،پھر اس کی جسامت کے مطابق ہتھیار منتخب کرتے تھے۔ وہ ایسے نشانچی نہیں تھے کہ پستول اٹھایا اور داغ دیا ،اس یقین کے ساتھ کہ نشانہ خطا نہیں جائے گا نشانچی کی ہر ممکن خطا شست باندھنے سے پہلے ان کے پیش نظر رہتی تھی ۔

آزاد کے بیان کے مطابق ’’قائد اعظم عام ملاقاتیوں سے پرہیز کرتے تھے۔ دور ازکار باتوں سے انہیں سخت نفرت تھی۔ صرف مطلب کی بات اور وہ بھی انتہائی اختصار کے ساتھ سننے اور کرنے کی عادت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے خاص کمرے میں جہاں بہت کم لوگوں کو داخلے کی اجازت تھی صرف ایک صوفہ تھا۔ اس صوفے کے ساتھ ایک چھوٹی سی ٹپائی تھی ۔ اس میں صاحب اپنے سگار کی راکھ پھینکتے تھے۔ صوفے کے بالمقابل دو شو کیس تھے۔ ان میں وہ قرآن مجید رکھے رہتے تھے جو ان کے عقیدت مندوں نے ان کو تحفے میں دیے تھے ۔ اس کمرے میں ان کے ذاتی کاغذات بھی محفوظ تھے۔ عام طور پر وہ اپنا زیادہ وقت اسی کمرے میں گزارتے تھے ۔ اس میں کوئی میز نہیں تھا۔ مطلوب یا کوئی اور شخص جب بھی اس کمرے میں بلایا جاتا تو اسے دروازے پر ہی کھڑا رہنا پڑتا ۔ یہیں وہ صاحب کے احکام سنتا اور الٹے پاؤں چلا جاتا۔ صوفے کے اوپرا ن کے زیر مطالعہ کاغذات بکھرے رہتے تھے۔ کوئی خط لکھوانا ہوتا تو مطلوب کو یا اسٹینو کو بلواتے اور خط یا بیان کی عبار ت دیتے ۔ ان کے لہجے میں ایک قسم کی کرختگی تھی ۔ میں انگریزی زبان کے مزاج سے واقف نہیں ہوں ۔ لیکن جب وہ بولتے تھے تو ایسا محسوس ہوتا کہ وہ زور نہ دینے والے الفاظ پر بھی زور دے رہے ہیں۔ ‘‘

آزاد کے مختلف بیانا ت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ قائداعظم کی جسمانی کمزوری کا غیر شعوری یا تحت الشعوری احساس ہی ان کرخت مظاہر کا باعث تھا۔ ان کی زندگی حباب بر آب تھی مگر وہ ایک بہت بڑا بھنور بن کے رہتے تھے۔ بعض اصحاب کا تو یہ کہنا ہے کہ وہ اتنے دن صرف اسی قوت کے بل پر جیے۔ جسمانی کمزوری کے اس احساس کی قوت پر۔
محمد حنیف آزاد کے بیان کے مطابق بہادر یار جنگ مرحوم قائداعظم کے بہترین دوستوں میں سے تھے۔ صرف انہی سے ان کے مراسم بہت بے تکلفانہ تھے۔ وہ جب بھی ان کے یہاں قیام کرتے تو یہ دونوں شخصیتیں ٹھیٹ دوستانہ انداز میں قومی اور سیاسی مسائل پر غور کرتی تھیں۔ اس وقت قائداعظم اپنی آمریت کچھ عرصے کے لیے اپنی شخصیت سے جدا کر دیتے ۔’’ میں نے صرف یہی ایک شخص دیکھا جس سے صاحب ہمجولی کی طرح باتیں کرتے تھے۔ ایسا محسوس ہوتاتھا جیسے وہ بچپن کے ساتھی ہیں۔ جب آپس میں باتیں کرتے تو کئی مرتبہ قید و بند سے آزاد قہقہوں کی آواز سنائی دیتی۔ بہادریار جنگ کے علاوہ مسلم لیگ کے دوسرے سر برآ وردہ اراکین مثال کے طور پر راجہ محمود آباد ،آئی آئی چندریگر ،مولانا زاہد حسین ،نواب زداہ لیاقت علی خان ،نواب اسماعیل اور علی امام صاحب اکثر تشریف لاتے تھے۔ لیکن صاحب ان سے بالکل دفتری انداز میں پیش آتے ۔ وہ بے تکلفی کہاں جو بہادر یار جنگ کے لیے مخصوص تھی۔ ‘‘

میں نے آزاد سے پوچھا۔ ’’خان لیاقت علی خان تو اکثر آتے ہوں گے؟‘‘ آزاد نے جواب دیا۔ ’’ جی ہاں ۔ صاحب ان سے اس طرح پیش آتے تھے جیسے وہ ان کے سب سے ہونہار شاگرد ہیں اور خان صاحب بھی بڑے ادب اور بڑی سعادت مندی سے ان کا ہر حکم سنتے اور بجالاتے تھے۔ جب ان کی طلبی ہوتی تو وہ مجھ سے کبھی کبھی پوچھ لیا کرتے تھے۔ کہو آزاد ،صاحب کا موڈ کیسا ہے۔ ان کا جیسا موڈ ہوتا میں بتا دیا کرتا تھا۔ جب اس میں کوئی خرابی واقع ہوجاتی تو کوٹھی کے تمام درودیوار کو فوراً پتہ چل جاتا تھا۔ ‘‘
قائد اعظم اپنے ملازمین کے کردار و اطوار کا بہت خیال رکھتے تھے۔ جس طرح ان کو تن کے میل سے نفرت تھی ،اسی طرح وہ من کے میل سے متنفر تھے۔ مطلوب ان کو بہت پسند تھا ،مگر جب ان کو معلوم ہوا کہ وہ ایک رضا کار لڑکی سے محبت کی پینگیں بڑھا رہا ہے تو ان کو بہت کوفت ہوئی مگر وہ اس قسم کی کوفت زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرتے تھے۔ اس کی طلبی ہوئی اور فوراً ملازمت سے علیحدہ کر دیا گیا مگر اس کو رخصت کرنے کے بعد وہ اس سے اس طرح پیش آتے جس طرح دوستوں سے آتے ہیں۔
آزاد بیان کرتا ہے ایک بار میں رات کے دو بجے سیرو تفریح سے فارغ ہو کر کوٹھی آیا۔ وہ دن ایسے تھے ،جب رگوں میں جوانی کے خون کھولانے میں ایک عجیب قسم کی لذت محسوس ہوا کرتی ہے۔ میرا خیال تھا کہ صاحب کو میرے آنے کا علم نہیں ہو گا مگر ان کو کسی نہ کسی طرح پتہ چل گیا۔ دوسرے روز ہی مجھے طلب فرمایا اور انگریزی میں کہا کہ تم اپنا کریکٹر خراب کر رہے ہو۔ پھر ٹوٹی پھوٹی اردو میں ارشاد ہوا ’’ویل ،اب تمہارا شادی بنائے گا‘‘۔۔۔۔چنانچہ چار ماہ بعد جب وہ بمبئی سے دہلی اجلاس میں شرکت کے لیے تشریف لے گئے تو ان کی ہدایت کے مطابق میری شادی ہوگئی اور میری خوش قسمتی ہے کہ محض ان کی وجہ سے میرا رشتہ سادات خاندان میں ہوا۔ ورنہ میں تو شیخ تھا۔ لڑکی والوں نے مجھے اس لیے قبول کر لیا کہ آزاد قائداعظم کا غلام ہے

میں نے آزاد سے دفعتاً ایک سوال کیا ۔ ’’کیا تم نے کبھی قائداعظم کے منہ سے آئی ایم سوری سنا تھا؟ ‘‘
آزاد نے اپنی موٹی تنومند گردن زور سے نفی میں ہلائی ۔’’نہیں ۔۔۔کبھی نہیں۔ ‘‘پھر وہ مسکرایا ۔ ’’اگر اتفاق سے کبھی آئی ایم سوری ان کے منہ سے نکل جاتا تو مجھے یقین ہے کہ ڈکشنری میں سے وہ یہ الفاظ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹا دیتے ۔ ‘‘
میرا خیال ہے آزاد کے اس بے ساختہ جملے میں قائدا عظم محمد علی جناح کا پورا پورا کردار آ جاتا ہے ۔
محمد حنیف زندہ ہے اس پاکستان میں جو اس کے قائداعظم نے اسے عطا کیا ہے اور جواب اس کے ہونہار شاگرد خان لیاقت علی خان کی قیادت میں دنیا کے نقشے پر زندہ رہنے کی جدو جہد کر رہا ہے۔ اس آزاد خطہ زمین پر آزاد ،پنجاب آرٹ پکچرز کے دروازے کے باہر پان والے کی دکان کے پاس ٹوٹی ہوئی کھاٹ پر بیٹھا اکثر اپنے آقا کا منتظر رہتا ہے اور اس اچھے وقت کے لیے دست بدعا رہتا ہے جب وقت پر اس کی تنخواہ مل جایا کرے۔ اب وہ قائداعظم کی تلقین کے مطابق ہندو بننے کے لیے بھی تیار ہے۔ بشرطیکہ اس کو اس کا موقع دیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ بے حد متفکر تھا، جب میں نے اس سے قائداعظم کی ز ندگی کے بارے میں اس کے تاثرات کے متعلق استفسار کیا۔ اس کے پاس پان کے لیے بھی پیسے نہیں تھے۔ میں نے جب اس کے تفکرات ادھر اُدھر کی باتوں سے کسی قدر دور کیے تو اس نے ایک آہ بھر کر کہا ’’صاحب انتقال فرما گئے ہیں۔ کاش !ان کے سفر میں مَیں بھی شریک ہوتا۔ ان کی سفید اوپن پیکارڈ ہوتی۔ اس کا وہیل میرے ہاتھوں میں ہوتا اور میں آہستہ آہستہ ان کو منزل مقصود تک لے جاتا۔ ان کی نازک طبیعت دھچکوں کو برادشت نہیں کر سکتی تھی ۔ میں نے سنا ہے واللہ اعلم درست ہے یا غلط جب ان کا جہاز کراچی ائیر وڈروم پر پہنچا تو ان کو گورنمنٹ ہاؤس تک پہنچانے کے لیے جو ایمبولنس تھی اس کا انجن درست حالت میں نہیں تھا ۔ وہ کچھ دور چل کر رک گئی تھی ۔ اس وقت میرے صاحب کو کس قدر کوفت ہوئی ہو گی۔ ‘‘ آزاد کی موٹی موٹی آنکھوں میں آنسو تھے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply