سری توئے/انجینئر ظفر اقبال وٹو(2،آخری حصّہ)

حضرت صاحب بار بار سرکاری اہلکاروں پر ناراض ہورہے تھے اورحکم رہے تھے کہ اب وہ چھ مہمانوں کو چھ دن اپنے پاس رکھیں گے اور ساتویں دن ہی ہم کِلی سے حرکت کرسکتے ہیں۔ہمیں اپنا سارا پروگرام خراب ہوتا نظر آرہا تھا۔وہ غصہ ہورہےتھے کہ لاہور سے مہمان ان کے علاقے میں وزٹ پر آرہے تھے لیکن انہیں کیوں نہیں بتایا گیا تھا کیا وہ سو پچاس بندوں کو کھانا نہیں کھلا سکتے تھے۔
کِلی حضرت کسی زمانے میں آس پاس کی آبادی کا مرکزی گاوں تھا جہاں کے چھوٹے سے بازار سے بنیادی ضرورت کی اشیا مل جاتی تھیں لیکن پھر قحط سالی اور مغربی ہمسایہ ملک میں جنگ کے اثرات یہاں بھی پہنچنے لگے کیونکہ یہ جگہ بارڈر کے پاس تھی۔ دہشت زدہ آبادی شہروں میں چلی گئی اور گاوں کے گاوں ویران ہوگئے۔ کلی حضرت کی بھی کافی آبادی اِدھر اُدھر ہوگئی بازار ویران ہوگیا لیکن حضرت صاحب نے تمام تر خطرات کے باوجود اپنے بزرگوں کی قبروں سے دور جانا مناسب نہ سمجھا اور یہیں جمے رہے۔
گاوں کے پاس زرعی رقبہ بہت کم نظر آرہا تھا۔ حضرت صاحب ہماری مہمان نوازی کرنے کے چکروں میں تھے جب کہ ہم جلد از جلد سائٹ پر پہنچنا چاہ رہے تھے۔بالآخر کافی منت ترلے کے بعد وہ ہمارے ساتھ سائٹ پر چل دئے تاکہ نہ صرف ہم بے خطر ہوکر سائٹ پر کام کرسکیں بلکہ واپسی پر ان کا دُنبہ کھائے بغیر نہ بھاگ سکیں جو ہمارے کلی میں پہنچتے ہی کاٹ دیا گیا تھا۔
قافلہ کِلی سے نکل کر ایک مرتبہ پھر پتھریلے راستے پر مغربی سمت پہاڑی درے کی جانب روانہ ہوا جس کے اندر جاکر ڈیم سائٹ آتی تھی۔ راستہ بے حد خراب تھا ایک دو جگہ پر خانہ بدوشوں کے قبرستان اور کچھ کچی جھونپڑیاں بھی نظر آئیں جن کی چھتیں اُڑ چکی تھیں۔ مسلسل قحط سالی اور بدامنی نے خانہ بدوشوں کی باقاعدہ آمدورفت کو بھی معطل کرکے رکھ دیا تھا ہر طرف ویرانی نظر آرہی تھی۔ ہماری گاڑیاں پہاڑی درے پر پہنچ کر رک چکی تھیں کیونکہ آگے جانے کا کوئی راستہ نہ تھا۔ پہاڑی نالے کا پانی ایک تنگ درے سے گزر رہا تھا۔ نالے کی تہہ پر بہت بے شمار چھوٹے بڑے پتھر بکھرے پڑے تھے جن کے اوپر پیدل چلتے ہوئے ہم آگے بڑھنے لگے۔ یہ کافی دشوار سفر تھا۔
کوئی آدھے پونے گھنٹے کی مسافت کے بعد نالہ ایک نہایت تنگ جگہ سے گزر رہا تھا جس کے دونوں جانب کوئی سو فٹ اونچی عمودی چٹانیں تھیں اور یہی ہماری مطلوبہ جگہ تھی۔ یہاں پہنچ کر تمام پارٹیاں پہلے سے طے شدہ ترتیب سے بکھر گئیں اور اپنے اپنے ے شدہ کام میں مشغول ہو گئیں۔ حضرت صاحب اور ان کے لوگ بھی مختلف جگہوں پر مورچہ سنبھال کر بیٹھ گئے۔
میں ایک جیالوجسٹ کو ساتھ لے کر اسپل وے کی مناسب جگہ کی تلاش میں نکل گیا اس جگہ موبائل سگنل بالکل نہیں تھے اور اونچی آواز سے دوسرے کو مخاطب کیا جاسکتا تھا جو کہ اس ویرانے میں گونجتی ہوئی کافی دور تک سنی جاسکتی تھی۔سائٹ پر گھومتے ہوئے کافی ہیجان منٹ محسوس ہورہا تھا۔ نالا اس تنگ راستے کے اوپر کافی کھل کر ایک پیالہ نما پیٹ بناتا تھا جو کہ ہماری مستقبل کے ڈیم کی جھیل ہوسکتی تھی۔
میں جیالوجسٹ کے ساتھ گھومتے کافی آگے نکل آیا تھا اور اندازہ تب ہوا جب ساری پارٹیاں ہماری نظروں سے اوجھل ہوگئی تھیں اور نہ ہی ہماری آواز کسی تک پہنچ سکتی تھی۔ یہ ایک پیچیدہ پہاڑی سسلسلہ تھا اور ہمیں راستہ بھولنے کا شدید خطرہ لاحق ہو چکا تھا لیکن علاقے کا قدرتی کنوارا پن ہمیں گھومنے پھرنے پر اُکسا رہا تھا لیکن ساتھ ہی اپنی ٹیموں سے بچھڑنے کا خطرہ بھی بار بار ذہن میں آتا۔
کئی گھنٹوں کے پیدل مارچ کے بعد ہم نے اسپل کی جگہ منتخب کرلی اس کے کوآرڈی نیٹ لئے۔ اس جگہ پر جگہ جگہ چٹانوں پر گولیوں کے نشانات نظر آرہے تھے۔ہم لوگ کافی تھک چکے تھے اور ابھی گاڑیوں تک واپسی کا چار پانچ کلومیٹر کا نالے کے پتھروں اور گدلے پانی میں پیدل سفر باقی تھا۔ واپسی اپنی ٹیموں کو ڈھونڈتے اور درے سے نکل گاڑیوں تک پہنچتے سب لوگوں کی ہمت جواب دے چکی تھی اور ہم گاڑیوں کی سیٹوں پر ڈھیر ہوگئے۔ ہم تیرہ کلومیٹر سے زیادہ پیدل چل چکے تھے اور کئی چڑھائیاں چڑھنا پڑی تھیں۔
کلی حضرت میں حضرت صاحب کے مردان خانے میں کھانا چُن دیا گیا تھا جس میں دنبے کا گوشت، کابلی پلاؤ کے ساتھ افغانی نان اور دیسی پو دینے کی لسی تھی۔ حضرت صاحب کے بیٹے سے بھی تعارف ہوا جو کہ حیرت انگیز طور پر پنجاب کی ایک یونیورسٹی سے ماس کمیونیکشن میں ڈگری کر چکا تھا۔ اس سے مجھے نالے میں پانی کے بہاؤ کے پیٹرن اور مقامی لوگوں کے بارے میں نہایت مفید معلومات ملیں۔ میں نے اسے لاہور آفس آنے کی دعوت تھی اور شام ہونے تک ہم وہاں سے ژوب کے لئے نکل چکے تھے۔
اس ابتدائی دورے کے بعد ہماری متعدد ٹیموں نے وہاں کے دورے کہےاور کئی ٹیموں نے تو چار چار چھ چھ ماہ کے کیمپ لگا کر سروے اور چٹانی معلومات اکٹھی کیں- پانی کی سیمپلنگ کی، سوشل اور ماحولیات والوں نے کِلی اور ارد گرد کے دیہات میں لوگوں کے ساتھ بیٹھکیں کیں اور یوں ایک دن یہ منصوبہ کاغذوں سے نکل کر تعمیر کے مرحلے میں داخل ہوگیا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply